اسلام کے نام پر معصوم بچوں کا طالبان کے ہاتھوں قتل عام

 14اگست 1947ء کے بعدپہلی بار پاکستان کی ہر آنکھ روئی اور بعض کے تو آنسوں تک خشک ہو گئے۔ٹی رپورٹر جو عموماََ سانحات کی رپورٹنگ کرتے ہو ئے سینے پر پتھر رکھ کر بظاہر متاثر نظر نہیں آتے ہیں آن ائیر بچوں کی طرح بلک بلک کر سانحہ پشاور کی رپورٹنگ کرتے ہو ئے رو رہے تھے ۔پوری دنیا غمزدہ نظر آرہی تھی ،بھارت میں بھی اسکولی بچوں پر اس کے اثرات صاف دکھائی دے رہے تھے۔کشمیر میں تو پاکستان کے ہر اچھی بری خبر کا گہرا اثر پڑتا ہے ۔یہاں کا ہر لکھا پڑھا اور ان پڑھ اس سانحہ سے مغموم نظر آتا ہے ۔کئی دن گزر جانے کے باوجود یہی کشمیر کی محفلوں کا موضوع بنا ہوا ہے ۔کشمیریوں کا چونکہ خود بھی جہاد اور جہادیوں سے سابقہ ہے لہذا لکھے پڑھے لوگ اس حوالے سے خاصے دلچسپی کے ساتھ بحث و مباحثوں میں حصہ لیتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ہر ایک محفل میں ایک ہی سوال ہر دوسرے سوال کے بعد چھا جاتا ہے کیا یہ جہادہے،کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے،کیا حضورﷺ اور ان کے بعد کے ادوار میں مسلمان مجاہدین نے ایسا کبھی کیا ہے؟

طالبان کو کشمیرمیں افغانستان کے سویت یونین کو شکست سے دوچار کرنے والے مجاہدین کے خلاف ابھرنے والی ناقابل شکست قوت کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس وقت یہاں عمومی خیال یہ تھا کہ یہ امریکی ایجنسیوں کی کارستانی ہوگی۔پھر جب امریکی افواج نیٹو سمیت ان پر حملہ آور ہوئیں تو یہاں کے مسلمانوں کی تمام تر ہمدردیاں ان سے وابستہ ہوئیں اسی وجہ سے کشمیر میں مشرف کے حمایتیوں کی بھی تعداد گھٹ گئی تھی۔جب سے پاکستان طالبان وجود میں آئی تب سے معاملہ خاصا ملتبس اور مشکوک ہو چکا ہے اور ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے براہ راست افغان طالبان کی تحریک کے حوالے سے تصورات میں فرق پڑنے لگا ہے۔پا کستانی طالبان کو ابتدا میں افغان طالبان کے معاونین کے طور پر دیکھا جانے لگا مگر وقت گذرنے کے ساتھ لوگوں کی تمام تر غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔اب کشمیری مسلمانوں کی اکثریت پاکستانی طالبان کو دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کا گروہ تصورکرتا ہے ۔ابتدا میں غلط فہمی صرف اس وجہ سے تھی کہ یہ لوگ شاید حکومت پاکستان کی افغان پالیسی پر ناراض ہیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ اصل میں ان کی نگاہیں حکومت کی اصلاح پر نہیں بلکہ خود اسلام آباد پر ٹکی ہوئیں ہیں اور یہ اپنی فکر کے حوالے سے ناقابل تصور حد تک متشدد ہیں ۔

ان کے اخلاقی زوال کی ابتدا اس وقت شروع ہوئی جب انھوں نے پاکستان کے اکثرمسلمانوں کو بالعموم اور علماء کوبالخصوص گمراہ تصور کرنا شروع کردیایا پھرامریکی یا پاکستانی ایجنٹ ۔اور تو اور انھوں نے اپنے ہم خیال اور ہم مسلک علماء کے خلاف بھی بیانات دینا شروع کئے کہ وہ ہم سے کون سے علم میں آگے ہیں؟ حالانکہ ان کے علمی استدلال کا حاصل صرف بعض علماء کے ذاتی اور مختلف فیہ تفردات ہی ہوا کرتے ہیں ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے علمی میدان میں بھی پٹاخے ہی سر کئے ہیں نہ کہ علماء کی صحبت میں بیٹھ کر کوئی علمی مشق اور محنت۔حیرت بالائے حیرت یہ کہ حکم کفر داغنے اور مرتد قرار دینے کو یہ لوگ گولی چلانے سے بھی آسان کام خیال کرتے ہیں حالانکہ پورے دین میں یہی کام سب سے مشکل اور سب سے کٹھن ہے ۔ویسے یہ ایک الگ اورتفصیلی موضوع ہے کہ کیا یہ چند نوجوانوں کی خود کی کارستانی ہے یا یہ بعض علماء سوء کی زہر آلود تحریریں ہیں جنہوں نے عرب سے لیکر عجم تک کم عمر نوجوانوں کو جہاد کے نام پر گمراہی کے بدترین دلدل میں پھینک دیا ہے انشا اﷲ اس موضوع پر بہت جلد الگ عنوان سے بات ہو گی۔

مساجد ،امام باڑوں،چرچوں،بھرے بازاروں اور پبلک مقامات پر حملے،اغوا برائے تاوان،فوجیوں کا قتل کے بعد جسموں سے جدا کئے گئے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنااور اپنے علاقوں میں مسلمانوں پر خوف و دہشت طاری رکھنے کے لئے خوفناک ہتھکنڈے استعمال کرناپاکستانی طالبان نے اپنی شناخت بنا لی ہے ۔ان کے خیال میں یہ سب اس لئے جائز ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد کرتے ہو ئے ’’اسلام سے ارتداد‘‘کیا تھا یہاں کی عوام نے اپنے ووٹ اور سپورٹ سے ان حکمرانوں کی حمایت کی ہے لہذا یہ لوگ مرتد ہو چکے ہیں اورانھیں کسی بھی طرح قتل کرنا جائز ہے ۔یہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاستی فیصلوں کی ’’قوت نافذہ‘‘کلی طور پر فوج یا حکومت کے پاس ہوتی ہے ۔وہ فیصلے کرتے وقت عوام سے نہیں پوچھتی ہے اور یہ حکمرانوں کی بہت قدیم روایت ہے ۔پوری انسانی تاریخ میں اور بسااوقات پاکستانیوں ہی کی طرح قوموں کو لیڈروں یا حکمرانوں کے ایک غلط فیصلے کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے ۔مشرف اور فوج کے فیصلوں پر جب بھی ردعمل آیا پاکستانیوں نے بڑی حد تک اس کو سہہ بھی لیا مگر اب جب ننھے سے پھولوں اور کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں سلانے کا دروازہ پشاور میں کھولا گیا تو انسانی کلیجے پھٹ جانا ایک فطری ردعمل ہے ۔

طالبان کے ساتھ نہ صرف پاکستان بلکہ کشمیر میں بھی ہمدردی رکھنے والا ایک طبقہ موجود تھا جو ان کی کاروائیوں کو مشرف کی غلط پالیسیوں کا ردعمل تصور کرتے ہو ئے کسی حد تک مظلوم سمجھتے تھے ۔سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے کیسوں کی شنوائی کے دوران تو اس ہمدردی میں بہت اضافہ ہو چکا تھا ۔سوشل میڈیا پر تو پاکستانی فوج اور اداروں پر تنقید کا گویا سیلاب رواں ہو چکا تھا۔نواز شریف حکومت نے جب قوم کو اعتماد میں لیکر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ٹھان لی توطالبان نے اسے حکومت کی کمزوری تصور کر لیا اور داعش کی کاروائیوں سے شہہ پاکر ان کی نگاہیں اسلام آباد کی جانب اٹھنی لگیں ۔اس کم ظرفی کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں اپنے متعلق غلط فہمی پیدا ہو گئی اور بلاآخر حکومت کو آپریشن کا آخری آپشن اختیار کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں طالبان کی بڑی تعداد افغانستان فرار ہو گئی جن میں ان کے کمانڈروں کی اکثریت بھی شامل ہے ۔ردعمل آنا تو یقینی تھا مگر اس ردعمل کا شکار ان معصوم پھولوں کو بناناجن کو سیاست کی ابھی ہوا بھی نہ لگی ہو صریح پاگل پن ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔

طالبان اپنے آپ کو مجاہد سمجھتے ہیں اور اپنی جدو جہد کو جہادقرار دیتے ہیں ۔یہ لوگ اپنی ہر حرکت اور عمل کو اسلام سے جوڑ دیتے ہیں یہی وہ اصل اوربنیادی مسئلہ ہے جو ان کے معاملے میں تکلیف دہ اور ناقابل برداشت بنتا جا رہا ہے ۔یہ لوگ اپنی تمام تر حماقتوں کو اسلام اور جہاد سے جوڑ کر اُلٹا اسلام اور جہاد کی بد نامی کا باعث بنے ہو ئے ہیں ۔جہاد کے نام پر ’’بے چارہ اسلام ‘‘پہلے کچھ کم بد نام تو نہیں تھا کہ طالبان اور داعش نے عملی طور پر مخالفین کے لئے ہزاروں اور لاکھوں دلائل جمع کر دیئے۔اسلام کی خدمت کے بجائے یہ لوگ اس کی جڑوں پر تیشہ چلا رہے ہیں ۔اسلام کے آخری پیغمبر رحمت للعالمین ﷺ نے قتل کے ارادے سے آنے والے عمرؓ ،چچا حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ اور بدترین ذاتی اور دینی دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہؓ کو معاف کرتے ہوئے گلے سے لگا کر اسلام کا لا مثال خادم بنا دیا۔آپﷺ نے طائف والوں کو معاف کرتے ہو ئے محمد بن قاسم کے ذریعے برصغیر و ہندوپاک تک اسلام کا نور پھیلانے کا بندوبست کیااور وہ سب کافر اور ملحد تھے جبکہ مسلمانوں سے متعلق آپﷺ نے تو صاف صاف فرمادیا تھا ’’تمہارا خون،مال اور عزت اسی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح آج کے دن یہ شہر حرام ہے‘‘یہ حدیث ساری حدیث کی کتابوں میں بسند صحیح درج ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کا جان و مال جب حرام ہے تو طالبان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ہر مخالف مسلمان کو قتل کرنے کے لئے اس پر کفر و ارتداد کا الزام لگا کر قتل کردے اور پھر اس میں عورتوں اوربچوں کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہ کرے حالانکہ’’دورانِ جہادِ برحق‘‘ دارالحرب کے کافر بچوں ، عورتوں،بوڑھوں اورزخمیوں کو بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

پشاور آرمی اسکول میں جن معصوم بچوں اور بچیوں کو گولیوں سے بھونا گیا طالبان کو یہ بتانا ہوگا کہ ان کا کیا قصور تھا ؟اسلام کی نگاہ میں یہ بچے معصوم تھے اور ہیں ایسی وحشیانہ حرکت تو دنیا کے بدنام چنگیزوں اور ہٹلروں نے شاید انجام دی ہو مگر کسی بھی مسلمان نے آج تک ایسی گری ہوئی غیر انسانی حرکت نہیں کی ہوگی ۔ پھر المیہ یہ کہ حماقت و جہالت کی آخری حد پھلانگتے ہو ئے اس وحشیانہ فعل کواسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور حدیث رسولﷺ کی من گھڑت تعبیر و تشریح کر کے چنگیزیت کو بھی مات دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ اسی حدیث مبارک میں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنے کا امرصریح طور پر موجود ہے ۔ ایک جماعت اگر حدیث نبوی کی تعبیر و تشریح میں بھی اگر اس قدر سنگدل ہے کہ نبی کریم ﷺ کے منشا کے خلاف حدیث کی تشریح کرتے ہو ئے تحریف کے سنگین جرم کا کھلے عام ارتکاب کرتے ہو ئے انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتی ہو تو ایسی جماعت سے وابستہ ارکان کی اعتقادی، ذہنی اور فکری حالت کیا ہو گی۔

پاکستان ،بھارت اور کشمیر ہی کیا ساری دنیا میں طالبان اور داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے مسلمانوں کے لئے نت نئے مسائل نے جنم لیا ہے جن میں سر فہرست مسئلہ یہ ہے کہ آیا جہاد کی وہ تعبیر و تشریح صحیح ہے جس میں علماء کا ایک طبقہ زور دار انداز میں کہتا ہے کہ جہاد کے نام پرپرائیویٹ اور غیر سرکاری سرگرمیوں کو ناجائز قرار دینا چاہئے ؟یا یہ کہ جہاد کے اس پہلو کے جواز کے باوجود اسلام کو بد نامی سے بچانے کے لئے عالمی سطح پر فی الوقت عرب سے لیکر عجم تک مسلمانوں کو تمام تر جہادی تنظیموں کے تعاون سے دست کش ہو جانا چاہئے ؟میں سمجھتا ہوں کہ مغربی اور عالمی سازشوں کی پرانی گردان کے برعکس آج اگر حقیقت اور چشم بینا سے حالات و سانحات کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو معاملے نے اس سے بھی بڑھکر خوفناک رُخ اختیار کیا ہے اور وہ ہے مسلمانوں کے ساہ کاریوں سے اسلام کی وہ بدنامی۔۔۔ جو کفار و ملحدین کے پروپیگنڈا سے بھی ممکن نہیں ہو پائی!اس کا کیا علاج ہے فی الوقت یہ سب سے بڑا مسئلہ اہل اسلام کو درپیش ہے ؟
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83101 views writer
journalist
political analyst
.. View More