معصوم شہادتیں اور قومی یکجہتی کا بہترین مطا ہرہ

 135،پھول جیسے معصوموں کی شہادت نے پاکستان کے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔ہر آنکھ اشکبار ہر چہرہ اداس ماؤں کے تو آنسوں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔اس سانحے نے پوری قوم کو تو رلایا۔ مگر بعض سیاست دانوں کو چاہے وقتی ہی صحیح کچھ عقل کے ناخن لینے پر مجبور بھی ضرور کر دیا۔اس سانحے نے 1965ء کی قومی یکجہتی کی یاد تازہ کردی۔پوری قوم اور تمام کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کر دیا ۔جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم واقعئی ایک زندہ قوم ہیں ۔اہلیانِ پاکستان یہ اتحاد اﷲ کرے ہمیشہ برقرار رہے۔اگر یہ یکجہتی اور اتحاد ٹوٹتا ہے تو یہ ہماری نیتوں کا فتور ہوگا۔

سانحہ چونکہ خیبر پختون خوا کے شہر پیشاور کے ایک اسکول میں دہشت گرد کاروائی کے نتیجے میں رونما ہوا ۔جس کی پوری ذمہ داری اس صوبے کی پی ٹی آئی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔سیکورٹی لیپس کی ذمہ دار بھی یہی حکومت مانی جائے گی۔عمران خان کے لئے ایسے وقت میں حکومت کے خلاف دھرنا جاری رکھنا انتہائی مشکل امر تھا۔ان کے لئے اس کے سوائے کوئی راستہ ہی نہ تھا کہ یہ اپناسو دن سے زیادہ عرصے کا دھرنا ختم کر دیں۔دھرناختم نہ ہونے کی شکل میں انہیں بہت سارے سوالوں کے جواب دینے پڑ جاتے ۔جن سے ان کی فوری طور پر تو جان چھوٹ گئی۔ اگروہ ایسا نہ کرتے تو قوم ان سے بے شمار سوالوں کے جواب مانگنے میں حق بجانب ہوتی۔ اس سے پہلے کہ قوم ان سے سوالات کرتی انہوں نے اسی میں عافیت جانی کہ دھرنے کا خاتمہ کر دیں۔عمران خان کا دھرنا اس کیفیت میں ختم کرنے کوساری قوم اور تمام سیاسی پارٹیاں قومی سیاست میں ایک اچھی علامت سے تعبیر کر رہی ہے۔ حالانکہ ان کے اس دھرنے سے قوم کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور کروڑوں روپیہ ان کا اپنا ان دھرنوں پر خرچ ہوا ۔جس کا حاصل حصول کچھ بھی نہیں ہوا۔’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ‘‘ بعض لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان نے خود کو غیر ذمہ دار سیاست دان کے بجائے قابلِ اعتماد سیاست دان ثابت کر دیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔

دوسری جانب اس بات سے بھیانکار ممکن نہیں کہ حکمران جماعت مسلم لیگ کا بھی ایک اچھا عمل تھا کہ اس قومی سانحے پر وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے تمام اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کی فوری طور پر آل پارٹیز گول میز کانفرنس طلب کر کے دہشت گردی کے تا بوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور وزیر ڈاخلہ چوہدری نثار کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی بنا کر سات دنوں کے اندر دہشت گردی کے خلاف منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیدیا۔اور سب سے اہم بات اس کانفرنس کی یہ تھی کہ سینکڑوں قاتلوں اور مجرموں کی پھانسی کی سزا جو سابقہ دور حکومت میں بطور صدرمملکت آصف علی زرداری نے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو سیف پیسج دینے کی غرض سے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کردی تھی۔ اس سزا کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے ۔جو ہم سمجھتے ہیں وزیر اعظم کا ایک اچھا فیصلہ اس وجہ سے ہے کہ وہ سیکڑوں خاندان جن کے افراد کو ظالموں نے مجرمانہ طریقے پر سفاکی سے قتل کر دیا تھا، اور اُن قاتلوں کوپھانس گھاٹ تک لیجانے کے بجائے زندہ رکھا ہو تھا، اس نا انصافی کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں کے آنسوں تھمنے میں نہیں آرہے تھے۔اسلام بھی ہاتھ کے بدلے ہاتھ جان کے بدلے جان کا مطالبہ کرتا ہے۔اس لحاظ سے وزیر اعظم کا پھانسی کی سزا کی بحالی کافیصلہ قابلِ تعریف ہے۔مگر بعض مغرب زدہ لوگ اس فیصلے پر خوامخوا کے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ۔جو ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کے تقاضوں کے صریح خلاف بات ہے۔بعض مغرب زدہ لوگوں کو میڈیا پر یہ کہتے بھی سُنا گیا کہ جس نے دس پندرہ سال جیل میں گذار لئے اسُ کی سزا تو ویسے ہی ختم ہوگئی؟کوئی انہیں بتائے کہ یہ مقتول کے خاندان اور خود مقتول کے ساتھ کھلی نا انصافی اس لئے تھی کہ قاتلوں کو موت کے بجائے پندرہ بیس سال کا جو ریلیف زندگی کی شکل میں ملا وہ صریحاََنا انصافی پر مبنی تھا۔ انہیں تو انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہی سزا کے حکم کے آجانے کے بعد فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دیا جانا چاہئے تھا۔ تاکہ متاثرہ لوگوں کو ذہنی سکون میسر آجاتا اور پندرہ بیس سال کی ذہنی اذیت سے بچ کر سکوں کا سانس لے رہے ہوتے۔

پھانسی کی سزا می دینے میں بھی انصاف کے تقاضوں کو نہ بھو لا جائے ۔جس مجرم کا جب اور جہاں نمبر تھا ۔اُس کو اسی نمبر پر پھانسی پر چڑھایا جانا چاہئے۔یہ نہ ہو کہ کل کا سزا پانے والا فوری پھانسی پر چڑھا دیا جائے اور ماضی کے مجرموں کو مزید زندگی بخش دی جائے۔کئی لوگ اپنے مجرموں کو بچانے کی غرض سے پھانسی کے نمبروں میں تبدیل چاہتے ہیں۔جو عادی مجرموں کو بچانے کی ایک نا کام کوشش ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ دہشت گرد اب لاہور کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔کیونکہ وزیر اعظم نے اس وقت دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک فیصلے کا اعلان کر دیا ہے ۔ماضی میں جو گڈُ طالبان اور بیڈ طالبان کا تصوور تھا ،انہوں نے اس تمیز کے خاتمے بھی کا اعلان کر دیا ہے۔جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس خبر سے ایک حساس اداروں نے بھی پولیس کو الرٹ یہ کہہ کر کر دیا ہے کہ دہشت گرد پیشاور کے بعد اب لاہور کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انٹیلی جینس ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک ٹیلیفون کال ٹریس کی گئی ہے جس سے مبینہ طور پر اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ آرمی اسکول پیشاور پر حملہ کرنے والوں کے ساتھی لاہور میں موجود ہیں اور ایک بارود سے بھری گاڑی بھی لاہور میں موجود ہے۔دہشت گرد لاہور میں دہشت گردی کی بڑی وادات کرنے کا اردہ رکھتے ہیں۔ان کے ہدف کے بارے میں کوئی اطلاع موجود نہیں ہے۔

اے پی سی میں کہیں سے بھی دہشت گردوں سے نرمی برتنے کی بات سامنے نہیں آئی۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دشت گردوں کی سفاکی نے اپنے تما م ہمدرد اس سفانہ عمل کے ذریعے سے اپنے مخالف بنا لئے ہیں۔ملالہ کے واقعے نے چند لوگ ان کے مخالف بنا دیئے تھے۔ مگر اس سانحے نے تو پوری قو م کے ساتھ ان کے تمام ہمدردوں کو بھی ان کا کھلا مخالف نبا دیا ہے۔کئی لوگوں کا اس ضمن میں یہ بھی خیال ہے کہ امریکی سی آئی اے نے اپنے پتے خوب سلیقے سے کھیلے اور اور آخر کار اپنے دشمن پر کاری ضرب لگانے میں ہر پہلو سے کامیابی حاصل کر چکا ہے۔دوسری جانب پاکستانی قوم اپنے معصوم شہیدوں پر بے حد ملول تو ضرور ہے ۔مگر اس بات میں طمانیت محسوس کر رہی ہے کہ ان معصوم شہادتوں نے قوم کو متحد کر دیا ۔جس کا شیرازہ 16،دسمبر 2014سے قبل بری طرح سے بکھرا ہوا تھا․․․․ننھے شہیدو تمہیں سلام تم نے اپنے خون سے اس قوم کا بکھرا شیرازہ سمیٹ کر ایک ہی صف میں محمود و ایاز کو لا کھڑا کیا ہے․․․․
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.