سانحہ ِ پشاور۔۔۔مذمتیں اور اسلامی تعلیمات

سانحہ ِ پشاور نے سب کو سوگ وار کردیا ہے ۔ دیسی بدیسی ، ہر ایک غم گین ہو گیا ۔ سب نے مذمت کی ۔ سب نے افسوس کیا۔ باراک اوباما نے کہا کہ ان کی دعائیں بچوں کے خاندانوں کے لیے ہیں ۔ پریشانی کے اس لمحے میں امریکا پاکستانی قوم کے ساتھ ہے ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی حکومت کی حمایت کرتے ہیں ۔ تاکہ سارے خطے میں امن و استحکام کا قیام ممکن ہو سکے ۔انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ پشاور میں اسکول پر حملے نے ان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ بچوں کا قتل اور انھیں یر غمال بنانے کا فعل ایسی بربریت ہے کہ اس کی مثال ممکن نہیں ۔ بان کی مون نے کہا ہے کہ اس بربریت کو کسی طور پر بھی درست کہنے کا جواز موجودنہیں ہے اور کوئی بھی شکوہ شکایت بچوں کو ہلاک کرنے کا بہانہ نہیں بتایا جا سکتا ۔ یہ حملہ ایک خوف کی علامت ہونے کے علاوہ ایک بزدلانہ فعل ہے ۔ تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانا از حد ضروری ہے ۔ تاکہ طلبا آزادی سے علم کا حصول جاری رکھ سکیں ۔ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے ۔ اسٹریلیا کے وزیر ِ اعظم ٹونی ایبٹ نے کہاہے کہ اس المیے پر افسوس کے لیے الفاظ میسر نہیں ۔ پاکستانی قوم میں جو دکھ اورغضب پایا جا رہا ہے ، اس کا ادراک ساری دنیا کر سکتی ہے ۔ دنیا بھر میں وہ ایسے افراد کے ساتھ ہیں ، جو چاہتے ہیں کہ ایسا درد ناک واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو ۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ جو کچھ پاکستا ن میں رونما ہوا ہے ، وہ نا قابل ِ یقین ہے ۔ اس بہیمانہ فعل کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ نہ ہی اسے کسی طور پر صحیح کہا جاسکتا ہے ۔ یہ فعل کسی طور پر بھی دنیا کے ایک عظیم مذہب اسلام کے تحت نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ اسلام امن کا مذہب ہے ۔ جب کہ یہ عمل اس کے الٹ ہے ۔ جان کیری نے کہا ہے کہ یہ قابل ِ افسوس ہے کہ علم کے حصول کی جگہ کو خوف و دہشت کا گھر بنا دیا گیا ۔ افغان طالبان نے کہا ہے کہ پشاور میں حملہ غیر اسلامی فعل ہے اور افغان طالبان نے معصوم افراد کو ہلاک کرنے کی ہمیشہ مذمت کی ہے ۔ وزیر ِ اعظم پاکستان نے اسکول پر حملے کو "قومی سانحہ " قرار دیا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ۔

ان 132 معصوموں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ آرمی کے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ اور کوئی قصور نہیں تھا ۔ ایسی بربریت کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے ، کم ہے ۔ ایسے وقعات متقاضی ہیں کہ ہم سب متحد ہو جائیں ۔ اولا اپنے دشمن کو تلاش کریں ۔ ثانیا اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ اور اسے پاش پاش کر دیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے ۔ دشمن ہمارے تعلیمی ادروں تک آن پہنچے ہیں ۔ یعنی اب ہمارے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے ۔ پاکستان اس حد تک دہشت گردی کا شکار پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ مجھے رہ رہ کر وہ معصوم بچے یا د آرہے ہیں ، جو نہ جانے کتنی امنگوں کے ساتھ گھر سے نکلے ہوں گے ۔ان کے والدین کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ان کے بچوں کے ساتھ ان کی آخری ملاقات ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنے بچوں کو کبھی زندہ نہیں دیکھ پائیں گے ۔ زیادہ تر بچوں کی عمریں 9 اور 16 سال کے درمیان تھیں ۔ کل شہادتیں 142 ہوئیں ۔ جن میں سے 132 بچے تھے ۔

امن کے مذہب اسلا م کے پیرو کا ر یہ قبیح فعل کیوں کر کر سکتے ہیں ، یہ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹا جا رہا ۔ یہ فعل سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ اسلام معصوم بچوں کے قتل کے حق میں نہیں ہے ۔ خلیفہ ِ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کے زمانے میں جب شام پر لشکر کشی ہوئی تو آپ نے سپہ سالار سے فرمایا: " تم ایک ایسی قوم کو پاؤ گے ، جنھوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کر دیا ہے ، ان کو چھوڑ دینا ۔ کسی عورت ، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا ۔ پھلدار درخت کو نہ کاٹنا ۔ کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا ۔ بکری اور اونٹ کو کھانے کے سوا بے کار زبح نہ کرنا ۔ نخلستان نہ جلانا۔ مال ِ غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہو جانا۔ قرآن ِ مجید کی ایک خوب صورت آیت ملحوظ ہو: "ہم نے بنی اسارائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو ، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے ، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا ۔ " (سورۃ المائدہ ، آیت نمبر 32) اس آیت کی تفسیر میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ اصول صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں تھا ۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لیے ہے ۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (بصری) سے پوچھا : یہ آیت ہمارے لیے بھی ہے ، جس طرح بنی اسرائیل کے لیے تھی ؟ انھوں نے فرمایاکہ ہاں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں !بنی اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل ِ احترام نہیں تھے۔ (تفسیر احسن البیان بہ حوالہ تفسیر ابن کثیر)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قتل کی اجازت صرف دو صورتوں میں ہے:
1۔ اگر کوئی شخص قتل کا مرتکب ہوا ہو۔
2۔ اگر کوئی شخص فساد فی الارض کا مرتکب ہوا ہو ۔
لیکن آرمی پبلک اسکول کے بچے تو ان دونوں جرموں کے مرتکب نہیں ہوئے تھے ۔ اس اسکول کے عملے کا بھی ان دونوں جرموں سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا ۔ پھر انھیں اتنی بڑی سزا کیوں دی گئی ؟ نہ جانے مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ اس حملے میں ملوث افراد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کیوں کہ درج بالا پیراگراف میں دی گئی آیت ِ مبارکہ کے ترجمے اور تفسیر اور امت ِ مسلمہ کی ایک عظیم شخصیت کے اقوال کی روشنی میں ہم مدلل انداز میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ اسلام اس طرح کے حملوں کی کسی صورت ۔۔۔کسی صورت اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام امن کے مذہب ہے ۔

سانحہ ِ پشاور کے بعد قومی رہنماؤں کے سخت بیانات سننے میں آرہے ہیں ۔ لگتا ہے ، اب بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ لیکن یہ نازک وقت تقاضا کرتا ہے کہ ہر قدم سو چ سمجھ کر اٹھانا چاہیے ۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اس وقت پورا ملک غم وغصے میں مبتلا ہے اور غصے میں کیے گئے اکثر فیصلے صحیح نہیں ہوتے ۔ اس لیے غصہ بجا ہے ۔ مگر قیام ِ امن کے لیے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں ۔ تاکہ دیر پا اثرات مرتب ہوں ۔ اور اس طرح کے واقعات کبھی وقوع پزیر نہ ہوں ۔
 
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 145715 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More