آخری دن

میں حسب معمول سو کر اُٹھا تو گھر کے صحن میں لوگوں کا ایک ہجوم دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر میری حیرت اور پریشانی میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔آخر یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں۔اُن میں کچھ عورتیں اور بچے بھی تھے۔لوگوں کے آپس میں باتیں کرنے کی وجہ سے وہاں اس قدر شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی میری طرف بھی متوجہ ہو۔ تاکہ میں اُس سے اس ہنگامے کی وجہ پوچھ سکوں۔لیکن وہاں موجودکسی کو میرے ہونے کا احساس تک نہیں تھا۔ میں وہاں کھڑا کافی دیر تک یہ منظر دیکھتا رہا۔کچھ لوگ ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ بچے چلا رہے تھے۔ خواتین بھی بے چینی کے عالم میں مبتلا تھیں۔جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ اپنی باتوں میں اتنے مگن تھے کہ اُنہیں اپنے ارد گرد کی کوئی خبر نہیں تھی۔

میں کافی دیر وہاں کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا۔ میں واپس اپنے کمرے میں مڑنے ہی والا تھا کہ میرے کانوں میں ایک مانوس سی آواز پڑی۔" تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔۔۔؟؟؟ "تیار ۔۔۔!" میں نے بڑی حیرانی سے پوچھا تھا۔ "ہاں جلدی سے تیار ہو جاؤ سب لوگ تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ یہ لو ۔۔۔یہ لباس پہن لو اور جلدی سے تیار ہو کر آ جاؤ ۔ تاکہ جس مقصد کے لیے یہ سارے لوگ جمع ہوئے ہیں اُسے پورا کیا جا سکے"۔ اُس نے حکم دینے کے سے انداز میں کہا تھا۔ میں نے حکم کی تعمیل کی ، وہ مخصوس لباس لیا اور کچھ ہی دیر میں تیار ہو کر دوبارہ اُن لوگوں کے درمیان آ گیا۔ مجھے دیکھ کر کچھ لوگوں کے چہروں پر مسرت کے آثار نمودار ہوئے ۔ کچھ لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔"چلو ۔۔۔ کہیں دیر نہ ہو جائے"۔ ایک دفعہ پھر سے وہی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔"کہاں ۔۔۔؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔"تم چلو بس ہمارے ساتھ"۔ اُس نے مجھے بازو سے پکڑ کرآگے دھکیلتے ہوئے کہا۔" نہیں میں ہر گز تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا"۔ میں یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگنے ہی والا تھا کہ دو تین لوگوں نے مجھے زبردستی پکڑا اورگھسیٹ کر گھر سے باہر لا کھڑا کیا۔میں بہت چیخا چلایا لیکن کسی نے میری ایک نہ سنی گئی۔

میں آگے آگے چل رہا تھا اور پورا ہجوم میرے پیچھے۔مجھے کہاں لے جایا جا رہا تھا اور اس کا مقصد کیا تھا مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔میں بار بار پوچھ رہا تھا کہ مجھے کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والاہے۔مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔لیکن میری بات کا کوئی بھی جواب نہیں دے رہا تھا۔آگے بڑھتے ہوئے ہر قدم کے ساتھ میرا دل پہلے سے زیادہ دھڑک رہا تھا۔میں بار بار اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کر رہا تھا۔اپنے خشک ہونٹوں پر بار بار زبان پھیر رہا تھا۔میں گھبرایا ہوا تھا لیکن میرے ساتھ موجود سارا ہجوم خوش تھا ۔ کچھ منچلے تو خوشی سے ناچ بھی رہے تھے۔چلتے چلتے ایک ایسا مقام آیا جہاں پہنچ کر ہمیں رکنا پڑا۔کسی ایک نے کہا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم نے پہنچنا تھا۔ دوسرے نے اُس بات کی تائید کی۔ تیسرے نے کہا چلو ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔اور یوں مجھے ایک بڑے سے ہال میں دھکیل دیا گیا۔ کچھ لوگ پہلے سے وہاں موجود تھے۔اور وہ یقینا میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔

مجھے ایک طرف تھوڑی سی اونچی جگہ پر بٹھا دیا گیا اور باقی ہجوم میرے سامنے بیٹھامجھے دیکھ رہا تھا۔ میرے ساتھ کیا ہونے والا تھا میں ابھی تک اس بات سے بے خبر تھا۔میرے کچھ دوست بھی وہاں پر موجود تھے۔ جو وقفے وقفے سے میرے پاس آکر میری پریشانی اور گھبراہت کے بارے میں پوچھنے کی بجائے میرے کان میں سرگوشی کرتے کہ آج میں بہت خوش نظر آرہا ہوں۔میں اُنہیں اپنی حالت کے بارے میں کیا بتاتا۔ کوئی میرے دل میں میں اُتر کر دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ میں کس کرب سے گذر رہا ہوں۔اس کے باوجود میں ہر کسی کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔تاکہ کوئی مجھے بزدل ہی نہ سمجھ بیٹھے۔

میں بڑی مشکل سے اپنی گھبراہٹ اور پریشانی پر قابو پا کر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک صاحب میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔اُن کے پاس ایک بڑا سا رجسٹر تھا۔انہوں نے وہ رجسٹر کھولا ، چند اوراق اُلٹے اور اس پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔آخر میں دو تین جگہوں پر میرے دستخط بھی لے لیے۔ وہ صاحب اُٹھ کر گئے ہی تھے کہ ایک مولانا صاحب تشریف لے آئے۔ اُنہوں نے مجھ سے دو تین سوال کیے، منہ میں کچھ پڑھا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔ دعا کے ختم ہوتے ہی مبارک ہو مبارک کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ میرے عزیز اور دوست مجھے گلے مل کر مجھے مبارک باد دینے لگے۔میں ابھی تک حیران تھا اور اپنے ایک دوست سے جو مجھے گلے ملنے اور مبارک دینے کے لیے آگے بڑھا تھا پوچھ لیا کہ آخر یہ سب کیا ہے۔ یہ سب لوگ کیوں یہاں پر جمع ہیں۔ اور مجھے مبارک باد کیوں دے رہے ہیں۔اُس نے مجھے جھنجوڑ کر کہا " ابے او بدھو۔۔۔۔ تمہاری شادی ہو رہی ہے"۔ میرا دوست مجھے یہ بات بتا کر وہاں سے چلا گیا لیکن میں وہاں کھڑا اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ کر مزید پریشان ہو رہا تھا۔ کیونکہ یہ میری آزادی کا آخری دن تھا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99918 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.