یہی ان کا اسلام،یہی ان کا جہاد

یوں توپاکستان میں دہشت گردی،قتل و غارت، لوٹ مار،اغوا برائے تاوان، کوئی نئی بات نہیں۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کے عبادت خانوں کو عبادت گزاروں سمیت بے دردی سے ختم کرنا ،دھماکے سے اُڑانا بھی پرانی بات بن چکی ہے۔شروع شروع میں عوام کے اندر ایک خوف طاری تھا کہ وہ کہیں دہشت گردی کا شکار نہ بن جائیں۔جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا تدارک مشکل ہوتا نظر آرہا ہے تو اس چیلنج کو حکمرانوں نے صحیح معنوں میں قبول ہی نہیں کیا،مرناا تو ویسے بھی ہے تو یہ سوچ کر بے خطر ہوگئے اس نظام میں ویسے بھی جان ،مال محفوظ نہیں کب تک فاقوں میں رہیں گے لہٰذا روزی روٹی تو چاہئے اگر رزق کے حصول میں مارے بھی جائیں تو ممکن ہے خدا ہماری کوتاہیوں کو بخش بھی دیگا۔ اب ملک میں مردو زن سب کے دلوں سے مرنے کا خوف ختم ہوچکا ہے۔واقعی جس ملک میں ساٹھ ہزار کے قریب جیتے جاگتے انسانوں کو وادی موت میں سلا دیا جائے،اور ان کو بھی ذبح کیا جائے جو عوام کے محافظ ہیں۔ایسے حالات میں انسان مایوس ضرور ہوتا ہے جب چار سو اندھیرا چھا جائے تو انسان بے بس اور لا چار ہوتا ہے۔مگر زندگی کی گاڑی کو چلانے کی خاطر خطرات کو خاطر میں لائے بغیر جان ہتھیلی پر رکھ کرکود پڑتا ہے۔در حقیقت ماضی کے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتا جارہا ہے۔ پشاور آرمی اسکول کے بچوں کو دہشت گردوں نے فورس کی وردی پہن کر معصوم پھولوں کو،کلیوں کو جس بے دردی سے مارا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔آٹھ سے دس دہشت گرد باوردی اندر داخل ہو کر جس کے سامنے جو کمرہ نظر آیا اندر گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرکے قوم کے مستقبل کے معماروں،ماؤں کے جگر کے ٹکڑوں کو بھائیوں سے بہنوں کو، بہنوں کو بھائیوں سے چھین لیا گیا۔ہم تو دو چار جملے لکھ کر فارغ ہوئے مگر دل پر ہاتھ رکھ کر زرا غور کریں،وہ کیسا خوفناک منظر ہوگا،معصوم بچوں کی چیخ و پکار کتنی کربناک ہوئی ہوگی، بلک بلک کر روئے ہونگئیں جان بچانے کے لئے ایک دوسرے پر گر پڑے ہونگئیں،وہ کیا عالم ہوا ہوگا، بس قیامت کا ،منظر، کربلا کا منظر ہوگا۔ماؤں نے بہنوں نے اپنے بچوں کو کس طرح بنا سنوا ر کر اسکول بھیجا ہوگا، انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ ان کا اخری بننا سنورنا ہے۔ان ماؤں پر ان والدین پر کیا گزر رہی ہوگی جب ان کے پھول جیسے لخت جگر خون میں لت پت جنازے کی شکل میں گھر پہنچایا جائے تو۔خدا گواہ ہے مجھ سے اپنے سابقہ کالموں کی طرح نہیں لکھا جارہاہے۔یہ ماتم ہے پوری قوم نوحہ کناں ہے۔پاکستان کی تاریخ میں بلکہ گزشتہ اور موجود صدی کی تاریخ میں سانحہ پشاور اپنی نوعیت کا دل ہلادینے والا واقعہ ثابت ہوا ہے۔ہر آنکھ اشک بار ہے۔ظلم کی انتہا ہوگئی،پپھول جیسے معصوم بچوں،بچیوں کو جس بیدردی اور بے رحمی سے مارا یہ رہتی دنیا تک داستان ظلم میں لکھا اور پڑھا جائے گا۔دہشت گردوں نے چنا بھی تو آرمی پبلک اسکول کو یقینا زیادہ تر آرمی والوں کے ہی بچے ہونگئے۔ یہ ایک طرح کا پاکستان آرمی کے لئے ایک چیلنج ہے۔شدت پسند کالعدم تحریک طالبان نے اس وحشیانہ کارروائی کو دیدہ دیلری سے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرب عضب میں ہمارے ساتھیوں کو مارا ہے یہ اسی کا بدلہ اس کا انتقام ہے۔اسے دنیا ئے تاریخی بزدلی کا نام دیتی ہے۔ تمہارے ساتھیوں کو اسکول کے بچوں نے تو نہیں مارا تھا،ان سے مقابلہ کرو جو تمہیں مار رہے ہیں۔بے غیرتی کی انتہا ہوچکی معصوم بچوں کو مار کر بدلہ لیا جارہا ہے۔حال ہی میں کینیا کا ایک جنگجو،جس نے صومالیہ میں شدت پسندوں کے ساتھ مل کر دو سال لڑائی لڑی،آخر میں اس نے بی بی سی کو اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ یہ قطعی جہاد نہیں بلکہ یہ ایک کاروبار ہے۔یہی لوگ استعمار کے اصل حبشی غلام ہیں ان کا کھاتے ہیں ان کی دولت سے پلتے ہیں اور ان ہی کے اشاروں پر دم ہلاتے ہیں۔جبکہ خود کو اصل مسلمان اور اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو اصل اسلامی جہاد کا نام دیتے ہیں۔یہ ہے ان کا اسلام اور یہ ہے ان کا اصل جہاد۔حال ہی میں کراچی میں القاعدہ سے منسلک اہم کمانڈر گرفتار ہوا ہے۔اس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ حال ہی میں جنوبی ایشیاء کے لئے القاعدہ کی بننے والی شاخ کا کراچی میں کمانڈر ہے جو اس شاخ کے سربراہ عاصم عمر کے زیر نگرانی کام کر رہا ہے۔یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر صوبے میں ان کے بندے موجود ہونگئے اور ان کا ایک تیز نیٹ ورک ہوگا جہاں کہیں موقع ملے یہ خون کی ہولی کھیلنے میں دیر نہیں کرتے۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پشاور میں سب سے زیادہ دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں اس کے باوجود بھی سیکورٹی ناقص ہونا یہ بھی ایک سوال اُٹھتا ہے۔ کہ وہ فورس کی وردی پہن کر اندر داخل ہوتے ہیں اور آرام سے کارروائی کر ڈالتے ہیں۔سیکورٹی کا یہی سلسلہ رہا تو وہ پھر کسی اور جگہ کارروائی کر ڈالیں گے۔نہ قوم محفوظ، نہ قوم کے رکھوالے محفوظ اور نہ قوم کے نونہال محفوظ جائیں تو جائیں کہاں۔واقعی سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کھل کر بات کی ہے کہ یہ لوگ نہ باہر کے ہیں نہ کافر ہیں،نہ ہندو ہیں، نہ کوئی یہود ہیں۔ یہ ہمارے اندر کے لوگ ہیں،مسلمان ہیں، ان کا بھی ہماری طرح خدا اور رسولﷺ پر ایمان کا دعویٰ ہے یہ کوئی غیر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان بیاناات کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے ہم میں ہی کچھ لوف حکیم اﷲ اور بیت اﷲ محسود کو شہید قرار دیتے ہیں یوں شدت پسندوں نے پاکستانی سیاست میں داخل ہونے کی راستے بنالیے ہیں۔ غلام احمد بلور نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ نہ ہندو نہ یہودی ہمارے اندر رہنے والے مسلمان افراد ہیں جو نہایت ہی شرمناک ہے۔سراج الحق نے کہا یہ واققعہ آٹھارہ کروڑ عوام کے لئے ایک بڑا پیغام ہے۔جبکہ وزیر اعظم پاکستان نے اس واقعہ کے وجہ سے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر کے اسے قومی سانحہ قرار دیا ہے۔میں تو یہ کہنا چاہوں گا یہ دنیا بھر کے انسانوں کے لئے انسانی المیہ ہے۔امریکی سفیر انے اس واقعہ کو ناقابل فہم اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ دشمنی ہے تو آدمیوں سے لڑو بچوں کو کیوں مارا جارہا ہے۔میڈٰیا سے گفتگو کے دوران عمران خان نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ کوئی انسان ایسا سوچ بھی سکتا ہے، انہوں نے واضع کیا کہ یہ کسی ایک کی ناکامی نہیں بلکہ ہم سب کی ناکامی ہے۔ہمیں نہ سیاست کرنا چاہئے نہ سیاسی بیانات دینا چاہئے بلکہ ساری قوم اکھٹی ہو اور ایک آواز میں ایک سوچ میں صوبائی ،وفاقی حکومت اور فوج سب مل کر یہ سوچنا ہے کہ ہم نے یہ جنگ کیسی جیتنی ہے۔اسی طرح ہندوستان کے وزیر اعظم، فرانس کا صدر اور عالمی برادری نے بھی اس ظالمانہ کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ جبکہ بھارتی اسکولوں میں بھی اس سانحہ کے خلاف طلباء نے چند منٹ کی خاموشی اختیار کر کے دنیا بھر کے بچو کو یہ پیغام دیا کہ بحیثیت انسان ہم ایک ہیں۔مگر بہ باطن دیکھا جائے تو باہر کے لوگوں کی ہمارے متعلق نفرت میں مذید اضافہ ہوا ہے ہم ان طالبان کی وجہ سے نفرت کی پہچان بن گئے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان نے ہمت کا ،مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ’’اچھے طالبان یا برے طالبان‘‘ کی تمیز نہیں رکھی جائے گی۔وزیر اعظم پاکستان نے سانحہ پشاور کے بعد منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس سے قبل دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث دہشت گردوں کو دی جانے والی سزائے موت پر عمل در آمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔قوم کے نونہالوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد بھی ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ درست کیا ہے۔بی بی سی نیوز کے مطابق ظالمان کا کہنا ہے کہ تم بھلے کچھ بھی کہتے رہو مگر ہم نے قتال فی سبیلاﷲ کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ کام کیا ہے۔ یہ قصاص ہمارے بچوں کو مارنے والے یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ اور بچے کے بدلے بچہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تم لوگوں کو زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہم نے اپنے علماء سے فتویٰ لینے کے بعد کیا ہے، ہمیں صرف ان بچوں کو مارنے کی ہدایت دی گئی تھی جن کے زیر ناف بال ہیں اور وہ جو ہم سے بر سر پیکار گمراہ فوجیوں کی اولادیں ہیں۔آخر میں طالبان کا یہ پیغام بھی نشر ہوا ہے ،وہ کہتے ہیں ہماری مذمت کرنے والے اے مٹھی بھر گمراہو! اپنے گریبانوں میں جھانکو، خدا تمہیں معاف کرے اور تمہاری خطاؤں اور بے اعتدالیوں سے در گزر فرمائے اور تمہیں اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس راستے پر ہم چل رہے ہیں،خدا کی قسم اس زمین کو سات ارب بھیڑ بکریوں کی ضرورت نہیں صرف سات ہزار راست انسانوں کی ضرورت ہے، کیا تمہیں اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں نہیں آتی ہم پر الزام دھرنے والو۔یہ دھمکی آمیز نصیحت طالبان نے پورے دنیا کے لوگوں کو ایک طرح کا چیلنج کرکے کیا ہے،اور ان کا جہاد لنکاح بھی عین اسلامی ہے۔ اب یہ نوٹ کرنا ہوگا کہ آیا وہ کون ہے جو اس سانحہ کی کھل کر نفی کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ساتھ ہمیں اس خدشہ کا بھی اظہار کرنا ضروری ہوگا کہ گلگت جیسے شہر میں داعش کی چاکنگ کرنے والوں کے بھی عزائم ٹھیک نہیں کوئی سانحہ رونما ہونے سے قبل انہیں روکنا ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ ان درندوں کے بارے میں دل میں زرہ برابر بھی جھکاؤ خدا نخواستہ کسی کا پیدا ہوجائے تو وہ کیسا انسان ہوگا؟ان یزیدیوں کے خلاف جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اب مسلمانوں کو اپنا مستقبل درخشاں بنانے ہے، اپنی اولادوں کو اور اپنی ناموس کو بچانا ہے تو تمام تعصبات کو یکسر ختم کرکے ان ظالمان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا تاکہ ہم محفوظ رہ سکیں۔یہ تھا ان کا اسلام اور یہ ہے ان کا جہاد۔آخر مین ہم دعا گو ہیں ان معصوم بچوں کے لواحقین کو خدا صبر جمیل عطا فرمائے، وہ شہید بچے تو یقینا جنتی ہیں۔
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23545 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More