رنگ برنگے انڈے اور گندے انڈے

میں نے اس کے بہت قریب ہو کر آہستہ سے پوچھا ’’کیا گندے انڈے بھی مل سکتے ہیں؟‘‘ وہ ہنسا اور کہنے لگا گندے انڈوں کی کیا ضرورت ہے؟ عام انڈے کون سے بہت مہنگے ہیں؟ انہی سے کام چلالیں۔ پھر مجھے غور سے دیکھا اور کہنے لگا آپ لگتا ہے کہ فلاں سیاسی پارٹی کے لیڈر ہیں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ کو انڈے کیوں درکار ہیں؟ مگر فکر نہ کریں آپ ہی کی پارٹی کے ایک اور لیڈر دو دن پہلے ہم سے سو درجن انڈے خرید کر لے گئے ہیں۔ انڈوں پر انہوں نے کچھ لکھوانا تھا۔ ہماری بیکری کے قریب ہی کچھ پیچھے ایک غریب آبادی ہے۔ وہاں کے بچوں سے ہم نے ۲۰ روپے درجن لکھائی بھی کروا دی تھی۔ آپ کو جتنے انڈے چاہئیں وہ بتا دیں کیا لکھوانا ہے، کاغذ پر لکھ دیں۔ باہرکسی کتابوں کی دکان سے دو تین مارکر لا دیں جتنا مال چاہئے تین چار گھنٹوں میں تیار ملے گا۔ میں نے ہنس کر کہا بھائی تمہارا اندازہ غلط ہے تم نے انڈوں کی اس قدر ورائٹی رکھی ہے جسے دیکھ کر میرا خیال تھا کہ آپ کے پاس گندے انڈے بھی ہوں گے اس لئے پوچھ لیا۔ ویسے تو پورے معاشرے میں اس قدر گندے انڈے دستیاب ہیں کہ اچھے کہاں گئے سمجھ نہیں آتا اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر گندہ انڈہ خود کو اچھا انڈہ سمجھتا بھی ہے اور اگر کوئی دوسرا اسے اچھا نہ سمجھے تو اسے سمجھانا بھی جانتا ہے۔

یہ ایک پوش علاقہ ہے۔ میں اپنے ایک دوست سے ملنے یہاں آیا تھا۔ چائے کے ساتھ بسکٹ تھے جو مجھے اچھے لگے۔ تعریف کر بیٹھا تو میرا دوست بتانے لگا کہ قریب ہی ایک نئی بیکری کا چند دن پہلے افتتاح ہوا ہے۔ ہر چیز کی بہت ورائٹی ہے اور پیکنگ میں انتہائی جدت ہے۔ بیکری میں چلے جاؤ تو خواہمخواہ کچھ نہ کچھ خریدنے کو جی چاہتا ہے۔ واپسی پر میرا ذوق تجسس مجھے اس بیکری میں سے آیا۔ بہت صاف ستھرا ماحول۔ ہر چیز چمکتی ہوئی۔ پیکنگ بہت دلفریب۔ یقینا اس کا مالک کوئی انتہائی باذوق آدمی ہے۔ یہی سوچتا چاروں طرف نظر دوڑا رہا تھا کہ اچانک آواز آئی۔
’’ماما آج پنک انڈے لیں گے۔‘‘

پنک (گلابی انڈے)۔ میں نے حیران ہو کر پیچھے نظر ڈالی۔ کاؤنٹر کا ایک حصہ انڈوں کے لئے مخصوص تھا اور اس پر بہترین پیکنگ میں کئی رنگوں کے انڈے موجود تھے۔ گلابی انڈے، سبز انڈے، نیلے انڈے، کئی رنگ تھے۔ ایک پیکنگ مکس انڈوں کی بھی تھی جس میں کئی رنگوں کے انڈے موجود تھے۔ پوش علاقے کی عورتیں عام طور پر بہت متحرک ہوتی ہیں کیونکہ ان میں سے زیادہ ترکے میاں کاروباری ہوتے ہیں اور اپنی مصروفیت کی وجہ سے بچوں کو وقت کم دیتے ہیں۔ چنانچہ گھر کے کاموں اور بچوں کی ذمہ داری خواتین پر آ جاتی ہے۔ خواتین گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے علاوہ بچوں کو سکول چھوڑتی اور سکول سے گھر واپس بھی لاتی ہیں۔ واپسی پر سبزی، گوشت، بیکری کی اشیاء اور دیگر چیزیں خریدتی ہیں۔ چونکہ بچے ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہ کلاس بچوں کی فرمائش کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ یہی جانتے ہوئے بیکری والے نے انڈوں کو کئی رنگ دے دئیے تھے۔ بچے کی خواہش پر ماں کو کچھ زیادہ قیمت دینے میں عار نہیں ہوتا۔ اس لئے بچے کسی دن گلابی، کسی دن پیلے، کبھی نیلے اور کبھی سبز انڈے خریدنے کی فرمائش کرتے ہیں اور بیکری کی فروخت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے انڈوں والے کاؤنٹر کے انچارج لڑکے کو کہا کہ یار میں انڈے تو حسب ضرورت تم سے لے لوں گا لیکن یہ کون کون سے انڈے تمہارے پاس ہیں اور ان کی قیمت کیا کیا ہے ذرا تفصیل سے بتا ہی دو۔

تعارف شروع ہوا۔ عام انڈے صرف ایک سو پندرہ روپے درجن۔ رنگین انڈے ایک سو پچاس روپے کے دس۔ خوبصورت پیکنگ کے ساتھ۔ بڑے انڈے ان انڈوں میں ڈبل زردی ہوتی ہے پیکنگ کے ساتھ دو سو پچاس روپے درجن۔ دیسی انڈے صرف دو سو روپے درجن۔ بہت خوب میں نے کہا آپ نے تو انڈوں کی بہت ورائٹی اکٹھی کی ہوئی ہے۔ اس نے کہا جناب ان انڈوں کے علاوہ ہمارے پاس کچھ خاص انڈے بھی ہوتے ہیں جو شاید آپ کو کہیں اور سے نہیں ملیں گے۔ یہ انڈے صرف ہمارے فارم پر ہماری مرغیاں ہی دیتی ہیں اور وہ مرغیاں ہم نے آسٹریلیا سے خصوصی طور پر ان انڈوں کے لئے امپورٹ کی ہیں۔ پھر اس نے دراز سے ایک سرٹیفکیٹ نکالا جو کسی آسٹریلوی فرم کا تھا، لکھا تھا کہ ان کی مرغیاں انتہائی صحت مند اور اچھے ماحول میں پرورش پائی ہوتی ہیں اور سالانہ تین سو انڈے دیتی ہیں۔انڈوں کا یا ان مرغیوں کا پاکستان سے بھی کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا بیکری سے کیا تعلق ہوتامگر وہ اس کاغذسے کمال دکھا رہا تھا۔ اب اس نے نیچے سے ایک عام انڈوں کا پیکٹ نکالا اور کہا جناب یہ ان مرغیوں کے انڈے ہیں۔ صرف دو سو پچاس روپے درجن۔ مگر یہ تو عام انڈے ہیں۔ ایک سو پندرہ سے دو سو پچاس کیوں ہو گئے؟ جواب ملا جناب یہ عام انڈے نہیں یہ کولیسٹرول فری انڈے ہیں۔ یہ صرف ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ ہماری امپورٹڈ آسٹریلین مرغیوں کے انڈے۔ مرغیاں چونکہ محدود ہیں اس لئے انڈے بھی محدود ہوتے ہیں اس لئے ہم آپ جیسے با ذوق اور اچھے گاہکوں کے سوا کسی کو نہیں دیتے۔ ان کا ذائقہ ہی اپنا ہے۔ کولیسٹرول کے بغیر انڈہ آپ کو عام مارکیٹ میں کہیں نہیں مل سکتا۔ آپ لے جا کر استعمال کریں بار بار لینے آئیں گے۔ یہ انڈہ کھانے کا مطلب بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہنا ہے۔ آج کے چند زیادہ خرچ کئے گئے روپے آپ کو باقی تمام عمربہت سی دواؤں کے خرچ سے نجات دلائیں گے۔

لڑکا واقعی بہت اچھا سیلزمین تھا۔ جس انداز میں اس نے انڈوں خصوصاً کولیسٹرول فری انڈوں کا تعارف کرایا اس کے دام سے بچنا مشکل تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ لوگوں کا باشعور یا بے شعور ہونا شاید کوئی معانی نہیں رکھتا۔ لوگوں کو لوٹنے کے لئے اس سائیکالوجی کو جاننا بہت ضروری ہے کہ جس کی بدولت وہ آپ کے ہتھے چڑھ جائیں اور یہی پورے معاشرے میں ہو رہا ہے۔ غریب کو اس کی محرومیوں کو اجاگر کر کے بتانے اور امیر کو اس کی کمزوریوں کے حوالے دے کر آسانی سے لوٹا جا سکتا ہے۔ کولیسٹرول فری انڈے کیسے ممکن ہیں مگر امیر آدمی کو شوگر، کولیسٹرول اور ایسی بے پناہ بیماریاں پریشان رکھتی ہیں،ا س کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں خود بخود لٹ جائے گا۔غریب کی حسرتوں کا ذکر کر دو، وہ آپ پر سب کچھ لٹا دے گا۔ لوگ جب تک لٹنے سے بچنا نہیں سیکھیں گے ہماری حالت نہیں بدلے گی۔ اس ملک کے حالات نہیں بدلیں گے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442894 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More