ان کو طالبان نہیں ظالمان کہا جائے

گزشتہ منگل پیشاور میں جو درندگی کا واقعہ پیش آیا اس نے پتھردل انسانوں کے دلوں کو بھی درد اور کرب سے بھردیا اور بے اختیار آنکھیں بھرآئیں اور آنسورواں ہوگئے۔ ہزاروں لاکھوں زبانوں سے ایک ساتھ ان بدبختوں کے لئے بددعا نکلی جنہوں نے ایسی شیطانی حرکت کی جس کو دیکھ کرہلاکو،ہٹلراور فرعون مصر جیسے سفاک بھی شرمندہ ہوجاتے۔ ایسے لوگوں کو طالبان نہیں،ظالما ن کہا جانا چاہئے۔ان کا اسلامیت سے تو کیا انسانیت سے بھی کچھ واسطہ نہیں۔

ہمارے پاس اس سانحہ کی مذمت کے لئے مناسب الفاظ نہیں۔ ہمارے پاس ہی کیا، دنیا کی کسی بھی لغت میں ایسے الفاظ نہیں ہونگے ۔ ہم ظلم کے شکار خاندانوں اور سارے انسانوں کی خدمت میں اپنی تعزیت پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم ہند نریندرمودی نے جن الفاظ میں اورجس پرسوز انداز میں وزیراعظم پاکستان سے تعزیت کی ہے ،اس کی تائید کرنا ہم اپنا انسانی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ظالمان پاکستان کی اس طرح کی حرکتوں نے دراصل اسلام کے بہی خواہ ان ہزارہا انسانوں کی دعوتی کام پر منفی اثرڈالا ہے جو اپنی زبان ،قلم اور عمل سے اسلام کی سچی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے جس کو نہ انسان معاف کرسکتے ہیں اور نہ وہ ذات باری تعالیٰ معاف فرمائیگی جو غفارہے، رحیم اور کریم ہے ، مگر اس کا عدل وانصاف اس کی تمام صفات کی اساس ہے۔بیشک ان ظالموں کو اوران کے سفید پوش آقاؤں کو بخشا نہیں جاسکتا۔ بس یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ اﷲ ان بدطینتوں کو راہ راست دکھائے۔ آمین۔
جب قوم جواب دے گی

وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اس رائے کو مسترد کردیا ہے کہ مرکزی حکومت کے فیصلے آرایس ایس کے زیراثر ہورہے ہیں۔ اور دلیل اس کی یہ دی ہے کہ وہ خوداور وزیراعظم اور کئی دیگر وزیر آرایس ایس کے کارکن ہیں اس لئے زیراثر ہونے کا سوال کیا؟ مطلب اس کا یہ ہوا حکومت کے اعلا ترین ذمہ دار خود آرایس ایس کے نمائندہ ہیں اس لئے وہ خود ہی اس کے نظریات کو زیرعمل لارہے ہیں۔

وزیرداخلہ کے اس اعتراف کو پیش نظررکھا جائے تو ’لوجہاد‘، ’گھرواپسی‘جیسے موضوعات پر سنگھ سے وابستہ تنظیموں نے اور لیڈروں کی دھماچوکڑی، ’گوڈسے کی قوم پروریـ‘، ملکی باشندوں کی ’رام زادوں‘ اور ’حرام زادوں ‘میں تقسیم کا نعرہ لگانے چھوٹ سمیت جو کچھ ہورہا ہے، اس سب کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہے اور اس پر کانگریس نے خاموشی اختیارکرلی ہے۔ اس وقت سنگھی ذہنیت کی وہی حالت ہے جو اس چوہے کی بیان کی جاتی ہے جس کو ایک کہاوت کے مطابق ہلدی کی ایک گانٹھ مل گئی تھی اور وہ پنساری بن بیٹھا تھا۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ نے بڑے بڑے فرعون دیکھے ہیں، جب وہ نہ رہے تو دورکسی کا کیا رہیگا؟
ہلاکو رہا ہے، نہ ہٹلر رہا ہے
مسولنی کا نہ لشکر رہا ہے
سکندر بھی آئے، قلندر بھی آئے،
نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے۔

جن لوگوں کی قومی حالات پر نظر ہے، ان کو یہ اندازہ ہوگا کہ یوپی میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ’لو جہاد‘ کا فتنہ خود بخود ختم ہوگیا ہے۔ گھرواپسی کا جواب آگرہ کے ان غریب مسلمانوں نے کھلے میدان میں باجماعت نماز کا اہتمام کرکے دیا ہے جن کو بزعم خود بجرنگ دل کے شاطروں نے ہندو دھرم میں داخل کرلیا تھا۔ علی گڑھ میں یہ تحریک دم توڑ چکی ہے۔

بھولے بھالے اوردین سے ناواقف لوگوں کے مذہب تبدیل کرانے کی یہ تدبیر نئی نہیں ہے۔ ایک آریہ سماجی لیڈرشردھانند نے1923میں ’’بھارتیہ ہندوشدھی مہا سبھاـ‘‘ قائم کرکے شمالی ہند میں شدھی کی تحریک چلائی تھی، جس کے زیراثر موجودہ ہریانہ کے خطہ میوات میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے تھے۔ اسی کے بعد شاہ محمدالیاس ؒ نے، جو نظام الدین کے ایک مدرسہ میں مدرس تھے اورمیوات کے کچھ مسلمان ان کے حلقہ اثر میں تھے، اصلاحی کام شروع کیا۔ یہ کام خاموشی سے بغیر کسی سیاسی مداخلت کے شروع ہوا اورجلد ہی اس کے ثمرات ظاہر ہونے لگے۔جو مرتد ہوگئے تھے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، جو صرف نام کے مسلمان تھے وہ باعمل ہوگئے ۔آگرہ میں بھی یہی ہوتا نظرآتا ہے۔

اس تحریک کے پس پشت سرگرم بجرنگ دل اور وی ایچ پی کی تو حیثیت کیا ہے، عیسائیوں نے ہرحکمت آزما کر دیکھ لی، نہ قرآن میں تحریف کرسکے، نہ اہل ایمان کو ان کے ایمان سے ڈگا سکے ۔ رہے چند نادان اور طالع آزما تو وہ ہرزمانے میں رہے ہیں۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی کچھ لوگوں نے انحراف کیا۔ اس لئے اس بات سے پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ مودی کا سورج بلند ہوتے دیکھ کر کچھ نام نہاد علماء اور رہنما آرایس ایس اور بی جے پی کے گن گانے لگے اور ان کو ملک ، قوم اورملت کے لئے بے ضرر بلکہ رحمت قراردینے لگے ۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اورآپ بے خبر اور بے فکر ہوکر بیٹھ جائیں۔دیکھنے کی بات یہ ہے وہ کس طبقہ کے مسلمان ہیں جو اس طرح کے مواقع پر پھنس جاتے ہیں؟ یہ بیچارے وہ غریب ہیں جن کے صرف نام مومن اورمسلم ہیں، ان کو نہ ایمان کا کچھ پتہ ہے اور نہ اسلام کا۔ ان کی عقیدت مندی لے دے کربس اتنی ہے کہ مزاروں کے طواف لگالیں اور مکار مجاوروں کے آگے اپنی جیبیں جھاڑ دیں۔ ان کی غربت کا یہ عالم ہے دو وقت کی روٹی نصیب نہیں، رہنے کے لئے گھر نہیں، جسم ڈھکنے کے لئے صاف ستھرا کپڑا نہیں ۔

اسلام میں زکوٰۃ ایسے لوگوں کا حق ہے۔ مگر اس کا کوئی موثرنظام نہیں ۔ ایسا نہیں کہ صاحب حیثیت مسلمان زکوۃ و صدقات سے جی چراتے ہیں۔ لوگ خوب دیتے ہیں، مگر اس کا صحیح جگہ خرج نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ کا بڑا حصہ پیشہ ور زکوٰۃ خور مختلف بہانوں سے ہڑپ جاتے ہیں اور عیش کرتے ہیں۔اب تو زکوٰۃ فنڈ سے سیاست بھی ہونے لگی اورسیاسی اغراض سے اشتہارات بھی چھپنے لگے ہیں۔ کچھ رقم نادار بچوں کی دینی تعلیم پر ضرور خرچ ہوتی ہے، مگر صحیح مصرف زکوٰۃ کی چند فیصدسے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ کا درست مصرف یہ نہیں کہ بھیک کی طرح تقسیم کردی جائے، بلکہ یہ ہے کہ غر یب مستغنی ہوجائے ، بے یار مددگار باروزگار ہوجائے، جیساکہ اسلام کے صدر اول میں ہوتا تھا۔ آج ہماری تعداد زیادہ ہے، دولت کی فراوانی خوب ہے،زکوٰۃ دینے والے کافی بڑی تعداد میں ہیں، مگر اس کے جائز ثمرات حاصل نہیں ہورہے ہیں۔ جو لوگ بقول ہمارے ایک دوست زکوٰۃ کی رقم پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، ان کو خبردارہوجانا چاہئے کہ وہ اﷲ کے گھر پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے اور یہ جو فقہی حیلے بنا رکھے ہیں وہ کچھ کام نہ آئیں گے کہ اﷲ دلوں کا حال دیکھے گا، مفتی صاحب کا فتوٰی نہیں۔

یکساں سول کوڈ
کانگریس ممبرراجیو شکلا کے ایک سوال کے جوا ب میں مرکزی وزیرقانون سدانند گوڈا نے کہا ہے بھاجپا یونیفارم سول کوڈ کے لئے پابند عہد ہے اور مودی سرکار کے نزدیک یہ کام ’’انتہائی اہمیت ‘‘کا ہے۔لیکن وزیرقانون کے پورے بیان پر غورکیا جائے اس کا لب لباب یہ نکلے گا کہ بھاجپا کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہے۔دراصل یکساں سول کوڈ کا شور تو صرف اقلیتی فرقہ کو چڑانے کے لئے کیا جاتا ہے، ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ملک میں سارے باشندوں کے لئے ایک عائلی قانون بنادیا جائے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ خود ہندوؤں میں کئی فرقے ہیں،کئی مندرجہ فہرست قبائل ہیں، جن کے اپنے رسمی ورواجی قوانین ہیں اور وہ کسی حال ایک نہیں ہوسکتے ۔ جین ، سکھ ، پارسی، عیسائی مذاہب کے پیروکاروں کے لئے الگ الگ عائلی قانون ہیں۔ سکھوں کا بھی مطالبہ کہ ان پر ہندوکوڈ بل کی دفعات نافذ نہ کی جائیں۔ ہندوکوڈ بل میں خود بہت سے تضادات ہیں۔ بہت سی خامیاں ہیں، مثلایک زوجگی کا قانون ہندو رواج کے منافی ہے۔ لاکمیشن یہ سفارش کرچکا ہے کہ اس قانون میں اصلاح کی جائے اور گنجائش نکالی جائے کہ بعض حالات میں پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی جاسکے۔ مثلاً بیوی دائمی مریضہ ہے، یا وہ ماں نہیں بن سکتی، ایسی صورت میں یہ انتہائی سفاکی اور شقاوت ہے دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے علیحدگی کو مشروط کیا جائے۔ علاوہ ازیں حکومت 1854میں سول میرج ایکٹ پاس کرچکی ہے جس کے تحت کوئی بھی دوبالغ عورت مرد شادی رچاسکتے ہیں۔ یہ ایکٹ دراصل یکساں سول کوڈ کا پیش خیمہ ہے مگر اس کی مقبولیت کتنی ہے؟

مسٹرگوڈا نے اپنے بیان میں آئین کی دفعات 25و 26کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یکساں سول کوڈ کا رہنمااصول ان دفعات سے ٹکراتا ہے۔ یہ دفعات اقلیتوں کے ان حقوق کی گارنٹی دیتی ہیں جن کا ہمارا ملک یواین چارٹر کی رو سے پابند ہے۔ رہی آئین کی دفعہ 370جو ہند کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی بنیاد ہے۔

مودی سے ایک سوال
اس پر بھاجپا نے فی الحال خاموشی اختیار کرلی ہے۔ لیکن بہرحال ایک سوال اپنی جگہ ہے جو مودی کی ایک ازلی مداح، بھاجپا کے ہمدرد معروف صحافی محترمہ تلوین سنگھ نے کیا ہے:
پارلیمانی الیکشن میں وزیراعظم کو عوام کی جو تائید حاصل ہوئی،آر ایس ایس اس کو کیوں اچک رہی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں عوام کا ووٹ ہندتووا کے نام پر نہیں ، بلکہ مثبت تبدیلی اور ترقی کے نام پر تھا۔ اگر مودی کو آگے نہ کیا ہوتا تو بھاجپا اس کی آدھی سیٹیں بھی حاصل نہیں کرسکتی تھی جو اس کو ملیں۔ اگر یہ الیکشن آرایس ایس کی وجہ سے جیتا گیا تو گزشتہ دو انتخابات میں اس کا جلوہ نظرکیوں نہیں آیا؟‘
وہ مزید لکھتی ہیں:’ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ دہائیوں کے بعد جو انتہائی مضبوط وزیراعظم چن کرآیا ہے اس نے پارلی منٹ کے اندر اور باہرجنونی ہندو لیڈروں اور تنظیموں کو اپنے چہرے پر کالک پوتنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔کیوں؟‘‘

ممکن ہے تلوین سنگھ کے اس سوال کا مسٹرمودی جواب نہ دیں کہ جوکچھ ہورہا ہے وہ ان کے عین اس نظریہ کے مطابق ہے جوآرایس ایس کے ایک پرچارک کا ہونا چاہئے۔ لیکن سنہ 2019دور نہیں جب عوام پوچھیں گے، کہاں ہے وہ کالا دھن، کہاں ہیں اچھے دن، کہاں ہے کرپشن سے پاک سرکار، خوشحالی، روزگار اور عالمی برادری میں بلند قد بھارت؟اور بیلٹ باکس اس سوال کا جواب دیں گے۔

پس نوشت: ان سطور کی تحریر کے بعد خبرآئی ہے کہ مودی نے اپنی پارٹی کے ممبران کو اشتعال انگیز بیانات کے خلاف متنبہ کیا ہے اور آرایس ایس نے علی گڑھ میں ’’اپنا گھرواپسی ‘‘ کا پروگرام منسوخ کردیا۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.