انسان نما درندے

ظلم و بربریت کی داستان آج یا کل کی بات نہیں،یہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے انسان کی عمر ۔ قابیل کے قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی بڑی وجہ انسانی سرشت کو چھوڑ کرحیوانیت کو اپنا طرہ امتیاز بنانا ہے۔ کچھ قتل ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانیت کا سر جھکا دیتے ہیں بلکہ ایسے ظلم آنے والی نسلوں کو بھی لرزہ براندام رکھتے ہیں۔ ظلم، بربریت اور قتل عام کے الفاظ جیسے ہی ہماری سماعتوں ٹکراتے ہیں تو اس حوالے سے چند ایک نام ہمارے ذہنوں میں نمودار ہوجاتے ہیں۔

ان میں ایک عراق کا بادشاہ بخت نصر بھی ہے،جس نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کی 80ہزار سے زائد لوگوں کا قتل عام کیا ، پوری نسل کو غلام بنا کر عراق میں لے آیا پھر نسل در نسل ان پر ظلم کا سلسلہ دراز رکھا۔

ان میں ایک رومی بادشاہوں کا ظلم بھی ہے جو دشمنوں ،غلاموں اور سزایافتہ مجرموں کو درندوں کے آگے ڈال کر مرتے ہوئے انسانوں کی چیخوں سے لطف و اندوز ہوتے ۔

ان میں ایک چنگیز خان اور اس کی آل اولاد بھی ہے جو منگولیاکے صحراﺅں سے اٹھ کے ٓادھی دنیا پے کالی آندھی کی طرح چھا گئی۔یہ جس شہر کو بھی فتح کرتے اپنی حیوانیت کی تسکین کے لیے ہر سردار دوسرے سردار سے بڑھ کر انسانی کھوپڑیوں کے محلات تعمیر کرتا اور انسانی کٹے پھٹے جسموں پے جشن کا اہتمام ہوتا۔ کہاجاتا ہے کہ منگولوں نے کل آبادی کے 11 فیصد سے زائد انسانوں کا قتل عام کیا۔

چنگیز خان کے بعد بھی ظلم و ستم کی مزید داستانیںظالموں کی حیوانی جبلت کی تسکین کا باعث بنتی رہی البتہ جو ظلم و ستم بیسویں صدی میں کی ابتداءاور وسط میں کیا گیا شاید اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں ڈھونڈنا ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ایسالگا جیسے انسان مہذب اور ترقی یافتہ درندہ بن گیا ہواور اس کی بربریت میں ذبردست قسم کا اضافہ ہو گیا ہو۔یہ حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اتنی سرعت کیساتھ قتل عام نہ ہواجتناکہ ان دو عالمی جنگوں میں ہوا۔مہذب دنیا کی درندگی کی تسکین دو عالمی جنگوں سے تو پوری نہ ہوئی تو چھوٹی چھوٹی علاقائی جنگوں سے اپنی خون کی پیاس بجھانا شروع کر دی۔دور نہیں جاتے حال میں ہی امریکہ کا عراق اور افغانستان کو تاراج کرکے بیس سے پچیس لاکھ لوگوں کا قتل عام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اتنے اتنے بڑے مظالموں کے باوجود بھی کچھ ظلم ایسے ہیں کہ نرم سی نرم تو کیا پتھر دل لوگوں کو بھی جنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں وہ بھی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکتے ہوئے سوچتے ہیں کہ انسان بھی ایسا ظلم کر سکتا ہے کہ جیسے دیکھ کر شاید فرعون کو بھی اپنا ظلم ہیچ لگے۔

ایسا ہی بھیانک ، روح فرساں اور لرزہ خیز ظلم و بربریت کا مظاہرہ 16دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دیکھنے کو آیاجو ناقابل بیان ہے۔ ایسا ظلم جیسے بیان کرتے ہوئے زبان پتھرا جاتی ہے اور لکھتے ہوئے قلم لرکھڑا جاتی ہے۔ کیا ہم کبھی تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ہم جیتے جاگتے انسان ہیں ہماری عمر 12سے 16 سال ہے ۔ ہم اپنے لیے ہر کسی کی نظروں میں پیار اور محبت دیکھتے ہیں ۔ ہم صبح اٹھ کر تیاری کرتے ہیں ہمارا باپ یا ماں ہمیں سکول چھوڑکر آتی ہیں۔ ہم بہت خوش ہیں۔ پوری توجہ سے استاد صاحب کا لیکچر سن رہے ہوتے ہیں اچانک ہمیں شور کی آ واز سنائی دیتی ہے۔ کلاس میں انسان نما دندے داخل ہوتے ہیں ۔ پورا کمرہ گولیوں کے قہقہوں سے گونج اٹھتاہے۔ آپ دیکھتے ہیں کے گن کا روخ آپ کے ساتھ کھڑے جگری دوست انس کی طرف ہوتا ہے۔ آپ گن سے نکلتے ہوئے دو چار شعلے دیکھتے ہیں جو آپ کی آنکھوں کے سامنے تیزی سے اڑتے ہوئے انس کی طرف بڑھتے ہیں ۔ انس کی چیخ آپ کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔ وہ گر کر تڑپتا ہے اس سے پہلے کے اس کی جان نکلتی آپ کو بھی دو سلاخیں اپنے جسم میں جا تی محسوس ہوتی ہیں ۔پھر۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی سماعت آپ کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے ۔۔۔ سانس آپ کا اچانک حلق میں پھنس جاتا ہے ۔۔۔۔ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کہ جسم سے خون کا فوارہ نکل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فورا آپ کی نظروں سے یہ سارا منظر غائب ہو جاتا ہے۔آپ کے ذہن کی پردہ سکرین پر منظر آتا ہے کہ جب آپ کھلتے ہوئے یا سڑھیوں سے اترتے ہوئے گر کر لہولہان ہو جاتے ہیں ، سارے گھر میں کہرام مچ جا تا ہے ۔آپ کی امی آپ کو لہولہان دیکھ کر کچھ دیر کے لیے ہوش ہواس کھوہ بیٹھتی ہے، سخت مزاج والد کی آنکھوں میں محبت اورخوف کے جذبے سے بھرپور آنسو ہوتے ہیں ۔۔۔آپ کے ذہن کا آخری منظر۔۔ آپ کا بڑا بھائی جس سے آپ لڑتے رہتے تھے آپ کو خوف ذدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے۔آپ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ آپ پھر کلاس میں پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔۔خون کا فوارہ دیکھ کر آپ کے ذہن میں امی ، ابو،بھائی اور بہن کا خیال آتا ہے کہ جب وہ سب آ پکو اس حالت مین دیکھیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آ پ گر رہے ہیں انس آپ کے قریب تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا ہے۔آپ کے دوسرے دوست بھی آپ کے سامنے پڑے تڑپ رہے ہیں ، وہ دوست جن کے ساتھ آپ ایک ساتھ جینے مرنے کے عہد کر چکے تھے یقینا وہ مقبول لمحات تھے۔صبح تو سب کے چہرے خوشی سے دھمک رہے تھے ۔۔۔۔۔لیکن اب بھی سب کے چہرے چمک رہے ہیں خوشی سے نہیں بلکہ خون کی رنگینی سے۔ وہ درندہ صفت چہرے پھر آپ کی آنکھوں کے سامنے آتے ہیں بچ جانے والے کلاس فیلوز پر گولیا ں بر ساتے ہیں ۔ آپ کا ذہن گھومتے گھومتے ایک سوال چھوڑ جاتاہے ۔ آخر ہمارے ساتھ ہی کیوں؟

تاریخ مین بربریت کے بد ترین مظاہرے ہوئے ہیں ۔ مگر کیسی نے کبھی ایسا واقع بھی کسی سے سنا، پڑھا یا دیکھا کیا؟بڑے سے بڑا دشمن بھی بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا جو پشاور میں بچوں کے ساتھ کیا گیا۔ کاش مارنے والا یہی سوچ لیتاکہ ان میں کوئی اس کا بھی بیٹا اور بھائی ہو سکتا ہے۔ مگر کیوں سوچے ؟

جب انسان اپنی انسانیت چھوڑ کر درندہ بنتا ہے تو سب سے پہلے اپنے ہی بچوں کو چیر پھاڑ جاتا ہے۔ ایسے درندوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایمان۔یہ بس درندے ہوتے ہیں ، انسانوں کی شکل میں درندے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Muhammad Tahir
About the Author: Muhammad Tahir Read More Articles by Muhammad Tahir: 7 Articles with 9509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.