پشاور سانحہ: …… معصوم کلیاں مرجھاگئیں…!

پشاور سانحہ : جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے… حملہ جس کسی نے بھی کیا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ اسلام میں جنگ کی حالت میں بھی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر حملہ کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ اور جو بھی اس امر کی مخالفت کرے گا اس کا اسلام سے تعلق بالکل ٹوٹ سا جاتا ہے۔ پشاور میں جو کچھ بھی ہوا وہ سراسر اسلامی امر کی مخالفت تھی، کتنی مائوں کی گودیں سونی ہوگئیں… پھولوں کے شہر میں معصوم کلیاں مرجھاگئیں… بستہ اٹھانے والے کندھے کندھوں پر چڑھ گئے۔… دھماکوں کی گونج قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرنے لگی… آخری سال کا جشن منانے والے طلبہ اپنے آخری مقام کو پہنچ گئے… افراتفری کے عالم میں مائیں اپنے لخت جگر کو ڈھونڈرہی تھیں… اور ان سب سے پڑے ظالم درندے انسانیت سے عاری … یہود ونصاریٰ کی پیداوار خود ساختہ مجاہد … جھوٹی جنت کے طلب گار معصوموں کی قبر وں کو روند کر پتہ نہیں کس جنت کی طرف جارہے تھے… معصوموں کو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے چھلنی کرکے اپنی بدبختی کا مظاہرہ کررہے تھے۔ اس صبح ان معصوموں کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ یہ امتحان ان کا امتحان آخرت ثابت ہوگا۔ رات بھر امتحان کی تیاری کرنے والے یہ معصوم اپنا امتحان نہایت کامیابی سے پاس کرکے جان جاں آفریں کے سپرد کردی اور جنت کے حقدار ہوگئیں۔لیکن ان بچوں کی شہادت پر واویلا مچانے والی میڈیا… لیڈران… دانشوران دنیا …ڈرون حملوں کو نہ بھولیں وہاں روزانہ کتنے بچے اپنی مائوں کی گودیں سونی کرتے ہیں۔ وہ بھی اپنی مائوں کے لخت جگر ہیں۔ ان کی بھی مائیں ہیں جو تڑپتی ہیں جس طرح پشاور حملے میں تڑپی ہیں۔ ان پے بھی ذرا آنسو بہالیں۔ ان پر بھی ذرا نوحہ کرلیں وہ بھی جنت کے پھول ہی ہیں۔ یہ دوہرا معیار نہ اپنائیں۔ عمران خان صاحب ان کی مائوں سے بھی پرسہ کرلیں جبھی حق برابر ہوگا وہ بھی مسلمان ہی ہیں جس طرح اس سانحہ پر آپ کی آنکھیں اشکبار ہوئی ہیں ان کی لاشوں پر بھی دو آنسو ٹپکا لیں۔ ضرب غضب کو ختم کریں… متحدہ قوم بن جائیں پھر نہ کسی اسکول پر حملہ ہوگا نہ ہی لال مسجد کے مینار گریں گے اور نہ ہی محرم کی مجالسوں پر کوئی دھماکہ کرے گا۔

ایک بات ذرا سوچنے کی اگر ہندوستان میں کوئی حملہ ہوتا ہے تو حملے کے فوراً بعد انڈین مجاہدین حملے کی ذمہ داری قبول کرلیتی ہے فوراً ہی انٹلی جینس کو ان کی طرف سے ای میل موصول ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں حملہ ہو تو فوراً ہی تحریک طالبان اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں …؟ پشاور سانحہ میں ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا جیسے ہی اسکول پر حملہ ہوا 148کے قریب بچے شہید ہوئے فوجی آپریشن ختم ہوا … فوراً بی بی سے کے نمائندے طالبان کا انٹرویو نشر کیا جس میں انہوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ لشکرطیبہ کے بانی حافظ سعید نے بیان جاری کیا کہ یہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے۔ جیش محمد کے امیر مسعود اظہر نے بیان جاری کیا کہ اس حملے کی ہم پر زور مخالفت کرتے ہیں یہ اسلامی امر کے منافی ہے… افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے اعلامیہ میں فرمایاکہ یہ سانحہ اندوہناک سانحہ ہے اس حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں یہ مجاہدین نہیں کرسکتے۔ جمعیۃ علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے بھی اس حملے کی پرزور مخالفت کی۔ اب ذرا غور کرنے والی بات ہے تحریک طالبان بھی افغان طالبان کی ضمنی تنظیم ہے تو پھر آخر وہ ایسا کیوں کر کرے گی۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے… یا تو پاکستانی حکومت نے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے یہ ڈرامہ رچا ہواور عوام کا رخ اس سانحہ کی طرف موڑا ہوزرخرید بمباروں کو اس امر پر اکسایا ہو تاکہ ان کی حکومت سلامت رہے۔ یا پھر کچھ اور ہی ہے جو بدلہ کی آگ بھی ہوسکتی ہے…؟ جیسا کہ پاکستانی میڈیا اچھال رہے ہیں۔ یا پھر تحریک طالبان نے ہی حملہ کیا ہے لیکن انہوں نے اسکول میں موجود ان فرنگیوں کو نشانہ بنانے کی غرض سے کیا جو امریکہ سے آرمی اسکول میں پدھارے تھے اور ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے جو فوج میں اپنی خدمات انجام دینے والے تھے کہ کس طرح اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو تمہیں ڈرون میں ہلاک کرنا ہے۔ اور ایسا ہی ہے ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ حملہ تحریک طالبان نے ہی کیا ہے لیکن انہوں نے ان فرنگیوں کو نشانہ بنایا جو اسکول میں آئے ہوئے تھے لیکن پاکستان آرمی نے حملہ کا رخ موڑنے کے لیے قوم کو دھوکہ دے کر بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوا غلط ہوا ۔ لیکن افسوس میڈیا کے دوہرے معیار پر زیادہ ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سرابرہان مملکت کے دوہرے معیار پر جس طرح انہوں نے اس سانحہ کی مذمت کی لائق تحسین ہے یہ امر لیکن ہم ان معصوموں کی جان پر بھی مذمت کرنے کی دعوت دیتے ہیں جو وزیرستان کے علاقوں میں آئے دن رونما ہوتے ہیں…بارک حسین اوبامہ نے بھی اس سانحہ پر اپنی آنکھیں رومال سے پوچھی لیکن اپنے دامن میں عراق وافغانستان، شام وفلسطین، چیچنیا وبوسنیا، فلسطین وغزہ کے لہو کا دھبہ نہیں دیکھا جو چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے کہ ہم بے قصور تھے ، معصوم تھے۔ اس سانحہ کی ا یک اور شخصیت نے مذمت کی لیکن انہوں نے 2500مسلمانوں کے قتل عام کو یکسر بھلا دیا جو ان ہی کی سرپرستی میں عمل میں آیا تھا۔ کاش اس پر مذمت کرلیتے۔

خون بہانا کسی بھی مذہب میں جائز نہیں اور معصوموں کا خون اس کا تصور ہی محال ہے جس طرح عالمی میڈیا اس منظر کو اجاگر کرکے اپنے فرائض تندہی سے انجام دی ہے …جس طرح عالمی رہنمائوں نے اس سانحے کی مذمت کی ہے کاش…! وہ وزیرستان کے معصوموں کی جانوں سے کھلواڑ کرنے والے کی بھی مذمت کرتے… کاش وہ بشارالاسد کی حمایت نہ کرکے معصوم بچوں ، عفت نشیں مائوں مجبور وبے کس بوڑھوں کو بچا لیتے… وہ افغانستان کو اپنے انا کی جنگ نہ بنا کر افغانستان آج جو پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے آج ترقی یافتہ ملک میں شمار ہوجاتا، کاش عراق ولیبیا کی صورتحال کو نہ بگاڑتے… امن عالم کے نام پر افراتفری پھیلانے والا امریکہ اگر اسرائیل کی حمایت نہ کرتا تو غزہ تباہ وبرباد نہ ہوتا، کاش ان عالمی رہنمائوں کو سمجھ آجائے اور سب سے بڑھ کر مسلمان خود آپس میں ایک دوسرے کو طعن وتشنیع کرنا چھوڑ کر متحدہ قومیت پر آماد ہوجائے تو یقینا یہ خون خرابہ ختم ہوجائے گا… پھر یہودونصاریٰ مشرکین کی تمام تر سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔ پھر نہ غزہ جلے گا… نہ کشمیر کسمپری کے عالم میں تڑپے گا… نہ لیبیا وشام میں شام جنگ بپا ہوگی… نہ ہی پشاور میں کوئی سانحہ پیش آئے گا… نہ ہی لال مسجد سرخی اگلے گی… اور نہ ہی محرم کی مجالسوں کی حرمت پامال ہوگی۔ کاش مسلمان واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا پر عمل پیرا ہوجائے تو پھر انشاء اللہ نظام عالم ہی بدل جائے۔
nazish huma qasmi
About the Author: nazish huma qasmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.