ان دہشت گردی کے واقعات کی وجوہات اور ان کا حل

ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں بحیثیت قوم اور حکومت پاکستان کو بغیر وقت ضائع کیے کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہیں جس سے اس ناسور سے ہم نجات حاصل کر سکیں آج پوری دنیا میں ہم پاکستانی مذاق بن کر رہ گئے ہیں اور ہم اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ تصور کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں اسلام نام کی کوئی شئے نہیں پائی جاتی ہم نے اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی بجائے اسلام کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا شروع کردیا ہے اور اسلام کا نام دے دیا ہے جن باتوں سے اسلام نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے آج انہیں باتوں کی ہماری زندگیوں میں بھرمار ہے کیا ہم اسلام کی اس بات پر عمل پیرا ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقوں میں نہ بٹو؟آج ہماری زبانوں پر تقسیم جیسے پنجابی سندھی مہاجر بلوچی پشتو کشمیری سرائیکی اور ہر ایک ایک دوسرے کا دشمن ہر ایک ایک دوسرے کے خون کا پیاسا اور ہماری فرقہ وارانہ تقسیم سنی شیعہ دیوبندی بریلوی اہل حدیث ہر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج سمجھتا ہے اور دوسرے کا خون بہانے کے لیے تیاراور ہماری سیاسی تقسیم کوئی لبرل کوئی مذہبی کوئی کوئی کیا تو کوئی کیا اور کیا ہمارے ہاں بزرگی کا معیار وہ ہے جو اسلام نے بیان کیا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہے اور ہمارے ہاں تعلیمی طور پر تقسیم کہ یہ جو مذہبی تعلیم حاصل کرلے وہ کسی دوسرے کو تعلیم یافتہ ماننے کو تیار ہی نہیں اور جو دنیاوی تعلیم حاصل کر لے وہ مذہبی تعلیم والے کو بھی تعلیم یافتہ ماننے سے انکاری اور یہ آپس میں ایک دوسرے کو جاہل جاہل کہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیا ہم اس اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل کر رہے ہیں جو اوپر ذکر کیا گیا ہے جب ایک قوم کے اندر اتنی تقسیم پائی جائے تو کیا وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں کر سکتی تو اس تقسیم کو ختم کرنا جہاں حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں عوام الناس کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے اندر مذہبی رواداری کو قائم کرنے کے لیے ایسے سخت اقدامات اٹھائے تاکہ ملک کے اندر سے فرقہ واریت اور مذہبی تقسیم کا خاتمہ ہو سکے حکومت کو پہلی فرست میں پاکستان میں ایک داراالافتاء قائم کرنا چاہیے اور اس کی برانچیں ہر ضلع میں ہوں اور اس کے علاوہ کوئی بھی فتوی نہ دے سکے اور اس دارالافتاء کی بھی نگرانی کی جائے اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ فرقہ واریت سے چھٹکارہ ملے گا وہیں رواداری اور میانہ روی کو فروغ ملے گا اور حکومت کو چاہیے کہ پوری دنیا میں جو جو دارالافتاء قائم ہیں ان سے مدد لے کر یہ کام پہلی فرصت میں کرے اور اس دارالافتاء کا فتوی ہر جگہ پر لاگو ہو اور اس دارالافتا ء میں کسی ایک جماعت کی منا پلی نہ ہو اور دوسرا کام یہ کیا جائے کہ اسلامی نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے ہر کسی کو ٹیلی ویژن کی سکرین میسر نہ آئے اور تمام ٹی وی چینلز کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ کسی بھی تشدد پسند کو یا فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث جماعتوں اور تکفیری گروپوں کو اپنے کسی پروگرام میں نہ بلائیں اور ان علماء کو بلایا جائے جو معتدل اور وسطیت پر مبنی سوچ کے مالک ہوں اوراسلام کی صحیح تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں اور جو بھی علماء ان پروگرامز میں شریک ہوں ان کے سامنے یہ باتیں رکھیں جائیں اور ان کو بھی واضح پیغام دیا جائے کہاگر آپ نے یہاں کوئی ایسی بات کی جو امت کے اندر تفرقے کا باعث بنے تو آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور ہمارے میڈیا میں بیٹھے تمام اینکرز کو بھی لگام دینی چاہیے کہ وہ بھی ملک کا امن تباہ کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور ہمارے تمام چینلز کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ ان میں موجود کسی بھی اینکرکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہو میرے خیال میں اگر ان باتوں پرصدق دل سے عمل کیا جائے تو ہم اس تفرقہ بازی سے مکمل چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ہم پشاور جیسے سانحات سے ہمیشہ کے لیے بچ سکیں گے وگرنہ ہمیں کسی اور سانحہ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
Muhammad Aslam Raza Al-Azhari
About the Author: Muhammad Aslam Raza Al-Azhari Read More Articles by Muhammad Aslam Raza Al-Azhari: 7 Articles with 4716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.