کیا ہماری دنیا میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں؟

یہ سوال ہے میرے پانچ سال کے معصوم بیٹے کا جس نے ٹی وی پر جب سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی فوٹیج دیکھی تو مجھ سے پوچھا ۔مگر میرے پاس تو کیا کسی کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ۔ کیونکہ یہ چھوٹا سا بچہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ صرف ڈراموں اور فلموں میں ہی ہوتا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ ڈرامے اوریہ فلمیں تو اصل میں اس سفاک معاشرے کی ہی عکاسی کرتے ہیں ۔ اسے کیا پتہ کہ ہمارے معاشرے میںاس سے بھی بد تر لوگ ہیں جن کے پاس انسانیت نا م کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔ اسے کیا پتہ کہ انسانوں کا خون بہانا اب دہشت گردوں کے لئے ایک مشغلہ بن چکا ہے۔

یہاں بات صرف بے گناہ لوگوں کا خون بہانے کی نہیں ہے ، بلکہ ان معصوم بچوں کا خون بہانے کی ہے جو کہ اپنی زندگی کے ابتدائی دور سے گزر رہے تھے۔ یہ بات ہے ان کلیوں کی جنہوں نے کھل کر ابھی پھول بننا تھا۔یہ ذکر ہے ان معصوم معماروںکاجنہوں نے کل بڑے ہو کر ڈاکٹر ، انجینئر ،فوجی اور سیاست دان بننا تھا۔اور ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی تھی اور یہ ذکر ہے ان معصوم ہستیوں کا جن کو تو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ طالبان کون ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں ۔اور ان معصوم بچوں کا خون بہا کر وہ اپنے کس تمنا کی تسکین چاہتے تھے۔وہ کونسی جنت ہے جو ان معصوموں کا خون بہا کر انہیں ملے گی۔ وہ کونسا شہادت کا درجہ ہے جو ان پھولوں کے کچلنے سے انہیںملے گی ےا پھر بے گناہ انسانیت کا خون بہانے سے ملے گی۔ وہ کونسا سکون ہے جو مسلمان ہوکر مسلمان کا خون بہانے سے ملتی ہے۔ان معصوموں کوتو ہی بھی نہیں پتا تھا کہ یہ اسکول انکے لئے درس گاہ کے بجائے مقتل بن جائے گا۔اوران کی والدین زندگی بھر ان کی راہ تکتے رہ جائیں گے۔کاش ہی سب حقیقت نہ ہوتااور کہانی ہوتی
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

یہ ہمارے سامنے پہلا واقع نہیں ہے ۔ تقریبا ہم لوگ گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردوں کی ظلم وبربرئت کا شکار بن رہے ہیں ۔ملک کا کوئی کونہ بھی ایسا نہیں جو دہشت گردی کی لپیٹ میں نہ رہا ہو۔کبھی خون کی یہ ہولی مذہبی منافرت کے نام سے کوئٹہ، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں کھیلی جاتی ہے اور فرقہ ورانہ فسادات کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ تو کبھی انتہا پسندی اسلام آباد اور پشاور میں مسلمانوں کو مسلمانوں کا خون بہانے پر مجبور کرتی ہیں ۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسے عوامل اور وجوہات ہیں جو انسان کو انسانیت کا خون بہانے پر مجبور کر رہے ہیں اور دہشت گردی کی کی ہوا کو فروغ دے رہے ہیں اور وہ چاہے فرقہ ورانہ دہشت گردی ہو یا پھر انتہا پسندانہ ۔

جس طرح دہشت گردی کی فزا دن بدن بڑھ رہی ہے اور مختلف قسم کے دہشت ناک اور سفاک واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔اس کی اصل وجوحات اور متحرکات کیا ہیں ۔ کیا ہمارے بڑوں کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے بھی ان دہشت گردوں کی نذر ہونگے ،کبھی اسلام آباد میں مدرسے کی طالبات کی صورت تو کبھی پشاورآرمی پبلک سکول میں طلباءکی صورت ،کبھی کوئٹہ میں ہزارہ ماﺅں کی صورت،اور کبھی نسلی بنیادوں اور تعصبات کو بنیاد بنا کر خضدار میں اجتمائی اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت ۔ اور کبھی بلوچستان اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی صورت
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
ایک بستی جسے لوگ پاکستان کہتے ہیں

کیا یہ سب یہیں تک رہ جائے گا ۔ نہیں یہ خون کی یہ سونامی اب رکنے والی نہیں دہشت گردی کا یہ ناسور بری طرح پھیل چکا ہے۔کیونکہ دہشت گردوں کی اصل طاقت ان کا اسلحہ ہے اور وہ بھی غیر ملکی ۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اسلحہ ایسے آرہا ہے جیسے کہ فروٹ وغیرہ اور ان کو چیک کرنے والا کوئی نہیں ۔ایک عام بندہ جب اپنی گاڑی میں سفر کرتا ہے تو پچاسوں جگہ پر اس کی چیکنگ ہوتی ہے مگر اسلحہ سے لیس بڑی بڑی گاڑیا ں بغیر کسی روک ٹوک کے آتی جاتی ہیں ہمارے پاس کوئی پلان نہیں کہ اس اسلحہ کو ملک کی سرحدوں پر ہی روکا جائے۔کیونکہ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں اتنی زیادہ دہشت گردی ہو ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں قانو ن ا نصاف اور سزائیں موجود ہیں اور وہاں کی سرحدیں محفوظ ہیں مگر ہمارے یہاں انصاف تو دور کی بات قانون نام کو نہیں ہمارے ہاں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں رہا جو لا قانونیت کی زد میں نہ ہو ۔جب تک لا قانونیت ختم نہیں ہوتی دہشت گرد تو کیا ہم عام سٹریٹ کرائمز کو بھی ختم نہیں کر پائیں گے ۔

ہم پاکستانی آج اس نہج پر کھڑے ہیں جہاںپوری دنیا میں ہمیں ہمارے منفی امیج کی وجہ سے پہچانا جا تا ہے۔اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان تمام منفی چیزوں نے ہمیں پوری دنیا میں نمبر ایک بنا دیا ہے۔ ایک طرف پولیو نے ہماری کمر توڑ دی ہے اور پولیو میں پاکستان کا گراف دن بدن بڑھ ہا ہے۔دوسری طرف کرپشن میں پاکستان نمبر ایک ہے۔اور تیسری جانب دہشت گردی میں ہم نے سب کو مات دی ہے
پاکستان کے لیے یہ بھی افسوس ناک بات ہے کہ آنے والا ہر سال اپنے اندر کئی اندوھناک حادثے لے کر آتا ہے۔کبھی قدرتی آفات کی صورت جیسے کہ کشمیر میں زلزلہ ، یا آواران میں زلزلہ یا پھر سیلا ب ، اور کبھی انسان نما شیطانوں کی پیدہ کردہ واقعات کی صورت اور یہ سال بھی جاتے جاتے ہمیں بچوں کی لاشوں کا تحفہ دے گیا ۔اور ہمارے ارباب اختیار اور سیاست دانوں کے لئے ایک پیغام چھوڑ گیا کہ ہم کب تک کرسی کی لالچ میں پارٹیوں کے نام پرپاکستانی عوام کو آپس میں لڑاتے رہیں گے اور نفرتوں کو فروغ دیں گے اور انہی باتوں کا فائدہ بیرونی قوتیں اٹھائیں گی اور پشاور جیسے سفاک حادثے کروا کر ہمیں اندرنی طور پر کمزور بنائیںگی کیا یہ نہیںہو سکتا کہ ہم اپنے اندر پنپنے وا لی اس منفیت پر قابو پالیں۔تاکہ ایک پاکستانی کی صورت ہم اس معاشرے میں سر اٹھاکر چلنے کے قابل ہو سکیں ۔

آج ہمارے ارباب ا ختیار کو صرف ان معصوم بچوں کی غائبانہ نماز جنازہ کروا کر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنا حق ادا کر رہے ہیں بلکہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا چاہئے کہ آیا یہ سب ان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟