پشاور سانحہ

 آڈیٹوریم میں موجود تمام بچوں کو مار دیا ہے، اب کیا کریں؟یہ ان سفاک دہشت گردوں کے الفاظ تھے جن کے ہاتھ معصوم بچوں کے خون سے رنگے ہیں۔سانحہ پشاورجس نے ہر آنکھ کو آشکبار کیا وہ کب اور کیسے ہوا ، آڈیٹوریم میں موجود تمام بچوں کو مار دیا ہے، اب کیا کریں؟۔ ’فوج کا انتظار کرو، خود کو بم سے اڑانے سے پہلے انہیں مار دو‘۔یہ دہشت گردوں کی جانب سے کی جانے والی آخری گفتگو تھی ۔جن کے اس بربریت پر نہ تو ہاتھ لرزے اور نہ ہی دل کانپا۔۔۔پشاورسکول میں ساڑھے سات گھنٹے تک محاصرے کے دوران حملہ آوروں کے درمیان ہوئی گفتگو کا مکمل ریکارڈ فوج کے پاس ہے۔ 7 دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کیا جس میں سے پانچ نے انتظامی بلاک جبکہ دو نے باہر دھماکے سے خود کو اڑا یا۔حملہ آور خاردار تاریں کاٹ کر سیڑھی کی مدد سے عمارت کے پچھلے حصے سے داخل ہوئے۔ وہاں پڑے خون سے پتا چلا کہ وہاں موجود چوکیدار اس حملے کا پہلا نشانہ بنا۔جس کے بعدانہوں نے آڈیٹوریم کی طرف رخ کےا۔پچھلا دروزہ بند ملنے پر مرکزی دروازوں کی راہ لی اور یہیں پر اصل قتل عام ہوا۔آڈیٹوریم میں ہر طرف انسانی جانوں کے ڈھیر لگے تھے جن میں سے اکثر مردہ جبکہ کچھ زندہ تھے۔ایک ایک انچ پر بکھراخون اور اس میں لت پت اساتذہ اور بچوں کے جوتے پڑے تھے،معصوم اور بے گناہ بچوں نے اپنی طرف بڑھتی موت سے خودکو بچانے کےلئے سیٹ کے پیچھے پناہ لی لیکن وہاں بھی ظالموں نے نہ چھوڑا اور ایک ایک کوسر میں گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا ۔وہ آنکھیں جو ابھی خواب دیکھنا بھی نہ پائی تھیں انھیں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے  بند کر دیا گیا۔۔۔ ہال کے اندر 100 سے زائد لاشیں پڑی تھیں ۔آڈیٹوریم کے اسٹیج پر موجود خاتون استاد نے رحم اور بچوں کو چھوڑنے کی درخواست کی جسے گولی مارنے کے بعد آگ لگا کرپتا نہیں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔حالانکہ معصوم بچوں کا خون بہا کران بزدلوں نے انسانیت کی تزلیل تو پہلے ہی دی تھی ۔۔۔فوج کے پہنچتے ہی شدت پسندوں نے انتظامی بلاک کی راہ لی۔جب چار دہشت گرد گھیر لیے گئے تو  انہوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔1حملہ آور نے اسکول ہیڈ مسٹریس کے کمرے میں خود کواڑا لیا ،جبکہ دو بمباروں نے فوجی کمانڈوز کی جانب راہ لی، اور باری باری خود کو دھماکے سے اڑا کر پاک فوج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جس سے7 فوجی زخمی ہوئے۔اس طرح یہ حملہ اختتام پذیر ہوا لیکن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا۔جن جواب مل بھی جائیں تو وہ اس نقصان کی بھر پائی نہ کر پائیں گے جو ننھی جانوں کے جانے سے ہو چکاہے۔۔۔
یوں تو سید بھی ہو ،مرزا بھی ہو ،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاﺅ تو مسلمان بھی ہو ؟؟؟
Faseeha khan
About the Author: Faseeha khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.