بستی اجڑ گئی ہے مگر پاسباں تو ہے

تبدیلی آچکی ،تحمل و برداشت کی سیاست ہے نہ اصول پسندی کا نام و نشان،بے گناہوں اور معصوموں کی قیمتی جانیں سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی ہیں،تصادم کی راہ ہموارکی جا رہی ہے،ملک بند کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں،چھوٹے کی تمیز ہے نہ بڑے کا احترام،تبدیلی کی یہ ہوا گلی محلوں سے ہوتے ہوئے گھروں میں داخل ہو چکی ہے ،بحثیں طول پکڑ رہی ہیں،چیلنجز دیئے جا رہے ہیں ،بات گریبانوں تک پہنچ گئی ہے،وہ رکھ رکھاؤ،احترام اوربڑوں کے سامنے پست آواز میں بات کرنے جیسی روایات قصہء پارینہ بن چکی ہیں ،بات ''شکوہ'' تک محدود رہتی تو قابل فہم تھی مگر یہاں تو جواب شکوہ اس سے بھی زیادہ سنگین ،غیر مہذب اور اشتعال انگیز ہے،'' بے باک ترجمان'' اپنی '' ذمہ داریاں'' پوری ایمانداری کے ساتھ نبھا رہے ہیں،ان کی کمانوں میں ترکش ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے،ایک دوسرے کو للکارنے کے وہ ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں کہ بڑے بڑے اکھاڑے بھی ان سے محروم ہیں۔

قارئین : آئیے گزشتہ ایک ماہ کی خبروں پہ نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ'' سیاسی انتہا پسندی '' کے نتیجے میں کس قسم کا ماحول پنپ رہا ہے ،اور کیسی زبان استعمال کی جا رہی ہے -

2 دسمبر کو ایک بڑے سیاسی لیڈر کا بیان اخبارات کی زینت بنا '' زرداری کے لئے بھیڑیا ہی ہوں،سڑکوں پر ڈیزل پھینکا گیا'' 30 نومبر کو فرمایا گیا '' لاہور ،فیصل آباد اور کراچی کے بعد 16 دسمبر کو پورا ملک بند کردیں گے،اس کے بعد پلان ڈی آئے گا پھر جو ہو گا نواز شریف برداشت نہیں کر پائیں گے،ایک اور سیاسی رہنما کہتے ہیں '' حکومت نالائق اوربے ایمان ہے،کرپٹ نظام کو جلا دو،آگ لگا دو'' ،28نومبر کو ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے ارشاد کیا '' عمران کان کھول کر سن لیں ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے،وہ اپنی موت آپ مرے گا،میرا چور نواز شریف نہیں عمران ہے،کالا باغ ڈیم اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے '' 27 نومبر کو ایک رہنما کا بیان چھپا'' عمران خان ماڈرن طالبان ہیں ،انہوں نے بدتمیزی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے'' ایک لیڈر کہتے ہیں'' بدمعاشی کا جواب بدمعاشی سے دیں گے'' 25نومبر کو ایک قومی لیڈر نے اپنے رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا'' خونی انقلاب کے دروازے کھل سکتے ہیں،خود غرض آدمی زرداری اور نواز شریف تو بن سکتا ہے بڑا انسان نہیں بن سکتا '' 24 نومبر کو مٹھیاں بھینچ کر ،چہرے پر تناؤ لا کر گفتگو کرنے والے لیڈر کا کہنا تھا'' پی ٹی آئی کے ٹائیگرز پولیس اور ن لیگ کا مقابلہ کریں گے ،پولیس حکومت کے فیصلے نہ مانے '' 23 نومبر کو گجرانوالہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا '' نواز شریف اور چوہدری نثار سن لیں میرا صبر ختم ہو گیا '' اسی دن ایک اور انقلابی لیڈر نے بھکر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا '' اٹھو اور اس نظام کو جلا کر راکھ کر دو'' 19 نومبر کو ایک صوبے کی اسمبلی میں ایک قومی رہنما کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور اس میں کہا گیا کہ '' کالا باغ ڈیم کے حامی کو بنی گالا سے نکلنے نہیں دیں گے '' 18 نومبر کو کہا گیا ـ" لاڑکانہ ضرور جاؤں گا زرداری روک کر دکھائیں'' 17نومبر کو ایک سیاسی لیڈر نے کہا '' عمران کو کینٹینر میں رکھ کر ٹکٹ لگا دینا چاہیے '' 16 نومبر کو کپتان نے جہلم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا'' گجرانوالہ میں پونی اور گلوؤں سے نمٹ لیں گے ،30 نومبر کو فیصلہ کن جنگ ہو گی ،دھرنا ناکام بنانے کے لئے آئی بی کو 270 کروڑ روپے دئیے گئے،حکومت نے صحافیوں،کالم نگاروں،تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کا ضمیر خریدنے کی کوشش کی '' 15 نومبر کو ایک سابق ممبر قومی اسمبلی کا بیان اخبارات کی زینت بنا '' عمران کوکین کے نشے میں بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں '' ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا اندازتخاطب ملاحظہ فرمائیے '' عمران کو گرفتار کیا گیا تو ملک میں آگ لگا دیں گے ،گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو کنستر کاٹنا پڑتا ہے '' 12 نومبر کو موصوف نے ارشاد فرمایا '' کرپٹ اور بے ایمان حکومت سے نجات کے لئے ماریں،مر جائیں،جلاؤ گھیراؤ کریں'' -

قارئین اب فیصلہ آپ کیجئے ،کیا مذکورہ بالا بیانات کسی مہذب معاشرے کی لیڈر شپ کی عکاسی کر تے ہیں ؟اس دھینگا مشتی سے نسل نو کیا اثر لیتی ہو گی ، ہماری قوم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ ان '' سیاسی انتہا پسندوں سے کوئی نہیں پوچھنے والا کہ وہ قوم کو کس ڈگر پہ لے جا رہے ہیں ،انہوں نے ہماری اقدار و روایات کا تیا پانچا کر کے رکھ دیا ہے، لیڈر قوم کے لئے آئیڈیل ہوتا ہے ،اس کی گفتگو قوم کی زبان ہوتی ہے ،اس کی عادات و اطوار عوام کے اخلاق پر اثر انداز ہوتے ہیں،راہنما تو راہنمائی کے لئے ہوتے ہیں ،کیا قوم کی یہی راہنمائی کی جا رہی ہے؟اس ملک کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگ یقینا اس صورتحال سے نا لاں ہیں ،وہ نجی محفلوں میں کڑھتے ہیں ،انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر دامن گیر ہے ،خدا را اس قوم کے حال پر رحم کیجئے ، سیاسی انتہا پسندی ایک ناسور ہے،جس کے سامنے ابھی سے بند باندھنا نا گزیر ہے ،ورنہ پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا تو پھر لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ،اور دہشت گردی کی طرح '' سیاسی انتہا پسندی'' کے نا سور سے جان چھڑانے کے لئے بھی قوم کو ایک بار پھر بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ابھی اس قوم میں درد مندوں کی کمی واقع نہیں ہوئی،اچھائی اور نیکی کا سمبل ایک آدمی بھی زندہ رہے تو یہ آواز نقارۂ خدا بن کر آتی رہے گی ، بقول منیر نیازی:
ممٹی پہ ایک چیل بھی بیٹھی کہے دھوپ میں
بستی اجڑ گئی ہے مگر پاسباں تو ہے
Abdul Rauf Muhammadi
About the Author: Abdul Rauf Muhammadi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.