مسلمانوں میں ارتداد کی فرقہ پرستانہ مہم

مسلمانوں میں ارتداد کی فرقہ پرستانہ مہم: پُرانا منصوبہ ہے جسے آگرہ میں پریکٹکل کیا گیا

جمہوری ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم کرنے کے لیے آرایس ایس، بجرنگ دل اور ان کی حلیف جماعتیں جس طریقے سے منافرت پھیلا رہی ہیں، اس سے امن پسند ہندی اضطراب میں ہیں۔ فرقہ پرست عناصر؛ اسلام کی مقبولیت سے مدت سے ہی بے چَین ہیں۔ غریب نواز علیہ الرحمہ و دیگر اولیائے کرام نے یہاں کی سرزمین پر اپنے اخلاق و کردار سے اسلام کی عملی تبلیغ کی اور دینِ فطرت کی طرف لوگوں کو بلایا، اس سے یہ مدت دراز سے خائف و پریشاں ہیں۔ مغلوں کی منصفانہ طرزِ حکومت بھی انھیں خار لگتی ہے، اس لیے گاہے بگاہے ان کے خلاف بھی زہریلے بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں۔ جب کہ سلو پوائزن پہلے ہی بچوں کو نصاب میں دیا جارہا ہے، جس میں مسلم حکمرانوں کو غاصب اورظالم بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔اولیائے کرام کی خدمات سے نصابی مواد اسی لیے خالی ہے۔

حالیہ سانحہ آگرہ کا سامنے آیا۔ جس میں حقیقت یہ تھی کہ آگرہ میں غریب الوطن مسلمانوں کی معاشی مجبوریوں اور مفلوک الحالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر دباؤ بنا کر بعض شرکیہ مراسم کروائے گئے اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ اپنے سابقہ مذہب ہندو پر لوٹ آئے۔ جب کہ علمائے اہلِ سنت کا ایک وفدبشمول سربراہ رضااکیڈمی الحاج محمد سعید نوری ابھی آگرہ ونواحی علاقوں کے دورے پر ہے اس نے یہ وضاحت دی کہ وہ سبھی افراد برأت ظاہر کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے توبہ بھی کی ہے جب کہ انھیں پتا نہ تھا کہ ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انھیں اسلام سے متنفر کرنے کا منصوبہ ہے۔ دراصل یہ یہودی ٹیکٹ ہے کہ مسلمانوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے خوف زدہ کیا جائے اور مسلمانوں کی کم زوریوں بالخصوص معاشی تنگیوں کا فائدہ اٹھا کر دین سے دور کیا جائے۔انھیں پتا ہے کہ حقائق تک پہنچنے کی کوشش تو کم ہی کرتے ہیں، اکثر پروپیگنڈے میں آجاتے ہیں۔ اس طرح نفسیاتی وار مسلمانوں پر آگرہ ایشو سے ہوا۔

۱۹۲۰ء میں بھی پورے ملک میں شردھانند سرسوتی کے ذریعے ’’شدھی تحریک‘‘ چلائی گئی تھی، جس کے مراکز آگرہ، ہریانہ،راجپوتانہ راجستھان وغیرہ علاقے تھے، لاکھوں مسلمانوں کی غربت، جہالت، مجبوریوں کا فائدہ اُٹھا کر مرتد بنایا گیا تھا، ایسے حالات میں مفتی اعظم علامہ مصطفی رضاخان نوری، محدث اعظم کچھوچھوی، علامہ نعیم الدین مرادآبادی، مولانا عبدالعلیم میرٹھی رضوی،پروفیسر سلیمان اشرف بہاری اور ان کے رفقا نے کل ہند جماعت رضائے مصطفی کے بینر سے تحریکِ ارتداد کا سر کچل دیا تھااور مرتد ہونے والوں کو واپس اسلام میں داخل کیا تھا، مہینوں تک پنڈتوں کی شورش کا دیہات دیہات، قریہ قریہ جا کر مقابلہ کیا، مناظرہ کیا، منحرف ہونے والوں کو اسلامی تعلیمات بتائیں۔ اس تحریک کا آغاز بڑی چالاکی سے کیا گیا تھا،ہندومسلم اتحاد کے لیے پنڈت موہن دتیہ مالویہ نے جو ہندومہاسبھا کا قائد تھا، گاندھی کے توسط سے ہندومسلم اتحاد کے ایجنڈے کے ساتھ تحریکِ ترک موالات چلا کر مسلمانوں کی جائز نوکریاں چھڑائیں، مسلم یونی ورسٹی کے ہزاروں طلبا کا تعلیمی نقصان کروایا، ایسے میں ہندویونی ورسٹی بنارس پھلتی پھولتی رہی، مسلمان کم زور ہوتے گئے اس کے فوراً بعد مسلمانوں پر شدھی تحریک کی ضرب لگائی، امام احمد رضا ایسے اتحاد کے خلاف تھے جن سے ہندوانہ شرکیہ مراسم مسلمانوں میں رائج ہوں اور دین خطرے میں آئے، آپ نے ترکِ موالات کی مذمت کر کے مسلم یونی ورسٹی کے تعلیمی وقار کے تحفظ کی کوشش کی جس میں آپ کے معاون ڈاکٹر لیفٹننٹ کرنل سر ضیاء الدین وائس چانسلر مسلم یونی ورسٹی و پروفیسر سید سلیمان اشرف شعبۂ علوم اسلامیہ تھے ، اور شدھی تحریک کے انسداد کے لیے اپنے شاگردوں کو سرگرم کیا۔ مولانا نعیم الدین مرادآبادی جو آپ کے شاگرد تھے، نے جگہ جگہ شردھانند کومناظرے کا چیلنج دیااورشدھی تحریک کوناکام بنایا۔ آج اسی کا اجرا نئے روپ میں ہوا ہے۔ جس کا بیداری کے ساتھ عملی انسداد قومی ذمہ داری ہے۔

مسلمانوں کا ان حالات میں اپنی اسلامی روایات پر استقامت سے جم جانا لازمی ہے۔ اگر یہی ہماری بے حسی رہی تو پھر فرقہ پرستوں کے حوصلے اور بلند ہوجائیں گے۔ جب کہ مسلمانوں فی الحال کئی محاذ پر مصروف ہیں، ایک طرف تو اسلام کی غلط شبیہ سپاہِ صحابہ، جمعیۃالدعوۃ، لشکر طیبہ، ISIS،القاعدہ، بوکوحرام جیسی نام نہاد توحید کی دعوے دار دہشت گردانہ تنظیموں کی بتائی جارہی ہے دوسری طرف بھگواوصہیونی تشدد ودہشت گردی۔ ان حالات میں اولیائے کرام جنھوں نے اصل اسلام کی نمائندگی کی ان کی تعلیمات اجاگر کرنا ہی ہمارے حق میں مفید ہوگا، اس لیے کہ اسلامی اخلاق کا نمونہ اسلاف نے پیش کیا۔پروپیگنڈے کی جنگوں کو بموں سے نہیں اخلاق، محبت رسول، دین پر استقامت، احکامِ اسلامی پر پابندی سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔ اسی کی آج ضرورت بھی ہے۔اور بھگوا شدت پسند جماعتوں کو مقابلہ عزیمت سے ہی ممکن ہے۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 252673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.