سانحہ مشرقی پاکستان-یہ فوجی نہیں سیاسی شکست تھی

16دسمبر1971پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین دن ہے ۔اس دن ارض پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا ۔تاریخی حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے مشرقی حصے میں نفرت اور بغاوت کے بیج قیام پاکستان کے فورا بعد ہی بو دیے گئے تھے ۔ایک سازش کے تحت بنگالی مسلمانوں کے دلوں میں احساس محرومی اور استحصال کے تصّور کو پروان چڑھایا گیا۔بہت سے اپنوں کی لاپروائی اور معاملات حل کرنے میں تساہل اور بے دلی نے ان زہریلے خیالات کو ہوا دی۔1970تک یعنی قیام پاکستان کے 25سال بعد ڈھاکہ اور کئی بڑے شہروں میں ہندواساتذہ کے زیر اثر ایک ایسی نسل تیار ہو چکی تھی جو قیام پاکستان سے بالکل بے گانہ تھی۔1970کے عام انتخابات کے نتائج نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے حصے کے عوام کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو مزید گہراکر دیا ۔معاملات بگڑتے گئے۔مارچ1971میں جیسے ہی افواج پاکستان نے شر پسند گروہوں پر قابو پانے اور فسادات روکنے کے لیے مشرقی پاکستان کا کنٹرول سنبھالا تو شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں 26مارچ 1971کو بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ مسلسل 9ماہ تک مشرقی پاکستان میں شر پسند عناصر نے فسادات برپا کیے رکھے۔بھارتی فوج کی جانب سے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہزاروں بنگالیوں کو پاکستان کے ساتھ وفاداری کے جرم میں شہید کر دیا۔بھارت نے اس دوران بغاوت کی اسلحہ اور وسائل کے ذریعے بھرپور مدد کی۔تین دسمبر کو بھارتی افواج کھلم کھلا مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوگئیں ۔پانچ لاکھ بھارتی فوجی اور ہزاروں مکتی باہنی کے غنڈے اس سازش اور جنگ میں برسر پیکار تھے۔چنانچہ دفاعی افواج بے بس ہو کر رہ گئیں۔ طویل مسافت کے باعث مغربی پاکستان سے تیز ترین کمک پہنچانا بھی ممکن نہ تھا اور بالآخر 16دسمبر 1971کو پاکستانی کمانڈر جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔اور پوری قوم ذلت و رسوائی کے عمیق سمندر میں ڈوب گئی۔اگر حالات و واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی شکست تھی۔دو بڑے سیاستدانوں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان دونوں حالات کو بگاڑنے کے ذ مہ دار تھے ۔اور ہوس اقتدار میں مبتلا تھے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتے تھے اور دونوں اپنی ضد پرقائم اور ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہ تھے ۔1970کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ حکومت بنانا اس کا آئینی حق تھا لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدان بالخصوص الیکشن میں دوسرے نمبر پر آنے والی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی حکومت کی راہ میں حائل ہوگئے اگر اسے آئینی حق دے دیا جاتا تو شاید بعد میں پیش آنے والے واقعات رونمانہ ہوتے ۔شیخ مجیب کواس کا جائز آئینی حق نہ ملاتو وہ مغربی پاکستان کے دشمن ہوگئے اور اس نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جا سکتاتھایہ پراپیگنڈہ کیا گیاکہ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کا استحصال کر رہاہیاور مشرقی حصے کی تمام دولت اسلام آباد پر خرچ ہو رہی ہے۔پاکستان کا ازلی دشمن بھارت تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا اس نے شیخ مجیب کی اس کے مذموم مقاصد کے حصول میں سیاسی و فوجی مدد کی۔اگر مجیب الرحمان کو حکومت سونپ دی جاتی تو بقول تجزیہ نگاروں کے وہ شاید چند سال بھی حکومت نہ کرسکتے کیونکہ اپوزیشن مضبوط ہوتی تو شیخ مجیب کوئی غلط قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ نتیجتاً دوبارہ انتخابات ہوتے اور دوسری پارٹی اقتدار میں آجاتی یوں ملک ٹوٹنے سے بچ جاتا ۔افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں میں بصیرت کی کمی تھی وہ معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھاتے رہے۔مشرقی پاکستان کی صورت حال کو سمجھنے اور ہیجانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جس تدبر اور فراست کی ضرورت تھی بھٹو سمیت کوئی بھی لیڈر اس پر پورا نہ اتر سکا۔کڑے وقت میں یہ ہمارے لیڈروں کی آزمائش تھی جس میں وہ بری طرح نا کام ہوئے۔ بعض مبصرین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ َـؔ’’ادھر ہم اور ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگانے والے مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ ہی نہ تھے ان کو اکثر یتی پارٹی کا آئینی حق تسلیم کرنے پر اقتدار کے حصول کا اپنا خواب چکنا چور ہوتا نظرآتا تھا اس لیے انہوں نے ہر حال میں عنان حکومت سنبھالنے کے لیے ملک کو داؤ پر لگانے سے بھی دریغ نہ کیا۔

افواج پاکستان نے مشرقی پاکستان میں ہر محاذ پر بہادری کے جوہر دکھائے جس کا ایک زمانہ معترف ہے لیکن قدم قدم پر اپنوں کی غداری ان کی کامیابی کی راہ میں حائل رہی۔مکتی باہنی اور اس کے ایجنٹ پاک فوج پر چاروں طرف سے حملہ کرتے تھے۔ ان حملوں میں انہیں بھارتی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی ۔ان دگر گوں حالات میں دیدہ اور نادیدہ دشمن کے سامنے بے سروسامانی کی حالت میں9ماہ تک ڈٹے رہنا نہایت دلیری اور جرات کا کام تھا ۔استقامت وپامردی کا ایسا شاندار مظاہرہ پاک فوج کے افسر اور جوان ہی کر سکتے تھے کوئی اور فوج ہوتی تو شاید چند ہفتے بھی نہ لڑ سکتی۔کیونکہ اپنوں میں غدار پیدا ہو چکے تھے اور جس قوم میں غدار پیدا ہونے لگیں اس کے مضبوط قلعے بھی ریت کے گھروندے ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے سیاستدانوں نے مشرقی پاکستان کے عوام میں جو احساس محرومی پیدا کر دیا تھا اس کے باعث بنگالی عوم مغربی پاکستان کے سخت خلاف ہو گئے تھے۔ ان کی غداری عروج پر تھی پورا عالمی میڈیا بھارت کا ہم نوا بن چکا تھا اور پاکستان کے حق پر مبنی موقف کو کوئی وقعت نہ دیتا تھا۔بھارتی جارحیت سب کے سامنے عیاں تھی اس کے باوجود ہنود اور یہود گٹھ جوڑ اتنا مستحکم تھا اور سلام دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکا تھا کہ پاکستان کے بعض دوست بھی اس کے جھانسے میں آگئے اور کھل کر اس کی حمایت سے کترانے لگے بھارتی خفیہ ایجنسی اور اس کی دست راست مکتی باہنی کے ہاتھ دس لاکھ پاکستانیوں کے خون سے رنگین ہو چکے تھے لیکن پاکستان دنیا کے سامنے ان مظالم کو لانے میں ناکام رہا جو اس کی وزارت خارجہ کی واضح ناکامی تھی ۔وزارت اطلاعات و نشریات کا سیکریٹری ایک بنگالی تھا۔1971کے واقعات کے عینی شاہد اور مورخ قطب الدین عزیز اپنی کتاب ’’خون اور آنسو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عوامی لیگ کے جنگ جوؤں نے بغاوت کے پہلے چند دنوں کے دوران ہی مشرقی پاکستان میں ذرائع مواصلات پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا ۔وہ غیربنگالیوں کو بے دریغ قتل کرتے لوٹ مار کرتے اور گھروں کو آگ لگا دیتے لیکن اس کی خبریں بنگالی سیکریٹری کبھی منظر عام پر نہیں دیتا تھا۔ نہ وہ مغربی پاکستان کے پریس اور پرائیویٹ ٹیلی گرام اور سمندر پارملکوں کے میڈیا تک یہ خبریں نہیں پہنچنے دیتا تھا۔مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور منظم تشدد کی خبریں مغربی پاکستان میں ان لوگوں کے توسط سے پہنچتی تھیں جو عوامی لیگ کی غنڈہ گردی سے بھاگ کر ہوائی اور بحری جہازوں کے ذریعے یہاں پہنچتے تھے۔یہ لوگ مظالم کی لرزہ خیبر داستانیں سناتے لیکن مغربی پاکستان کے کسی اخبار میں یہ جرات نہیں تھی کہ غیر بنگالیوں پر مظالم کی خبریں چھاپ سکے۔وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات اسلام آباد کے بنگالی سیکریٹری نے ان اخباروں کو سخت سزا دینے کی دھمکی دی تھی جنہوں نے وزارت کے حکم سے روگردانی کی کوشش کی تھی۔

بعض ایسی شخصیات بھی تھیں جو پاکستان کو دو لخت کرنے کے ’’را‘‘کے منصوبوں میں براہ راست ملوث تھیں ،اور ایسے جانے پہچانے عناصر بھی تھے جنہوں نے قلیل المیعادسیاسی مفادات کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر ملک دشمنوں کو پیش کر رکھی تھیں۔شیخ مجیب الرحمان کی ملک دشمن سرگرمیاں کھل کر سامنے آچکی تھیں اور یہ بھی انکشاف ہو چکاتھاکہ وہ 1960سے را کی سر پرستی میں ہیں اور اقتدار کے خواہش مند ہیں۔اسٹیبلشمنٹ را کے پروردہ بنگالی رہنما منصوبوں کو ناکام بنا سکتی تھی لیکن جب بھی مجیب کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیااقتدار کے بھوکے سیاستدان آڑے آگئے۔اگر تلا سازش میں مجیب الرحمان کی بریت انہی سیاست دانوں کے دباؤ کا نتیجہ تھی ۔حالانکہ صدر ایوب انہیں رہا کرنے کے حق میں نہ تھے وہ اگر تلاسازش کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے تھے ، اگر مجیب الرحمان کو غداری کے جرم میں اس وقت پھانسی کی سزا دے دی جاتی تو ملک دو ٹکرے نہ ہوتا۔مشرقی پاکستان میں خواتین کی بے حرمتی کے جو الزامات پاک فوج پر لگائے جاتے ہیں وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ہو سکتا ہے اکادکا چند واقعات رونما ہوئے ہوں اور چند فوجیوں سے کچھ لغرشیں سر زد ہوئی ہوں۔ لیکن بحثیت مجموعی پاک فوج کا دامن ان آلائشوں سے پاک ہے۔خواتین کی آبرو ریزی کرنے والے مکتی باہنی اور بنگال رجمنٹ کے آدمی تھے یہ لوگ پاک فوج کی وردیاں پہن کر کاروائی کرتے تھے اور بدنام فوج کو کرتے تھے۔ انھی شرپسندوں نے 80ہزار سے ایک لاکھ بہاریوں اور مغربی پاکستان کے باشندوں کو تہہ تیغ کیا۔ 16دسمبر1971کے بعد بنگالی اور بھارتی پریس نے پاک فوج کے خلاف خوب پراپیگینڈاکیا اور مکتی باہنی کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہ بہاریوں اور پاکستانیوں کی ذمہ داری بھی پاک فوج پر ڈال دی اور قبروں پر کتبے لگا دیے کہ یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جو فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

شیخ مجیب نے23مارچ1971کے فوجی آپریشنسے دوسال پہلے پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ 1969میں تیار کیا تھا یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ مکتی باہنی کی فوج تیار کرنے کے لیے 80ہزار ہندو بھرتی کیے گئے۔اور انکو پاکستان آرمی کی یونیفارم پہنائی گئی تھی۔یہی لوگ بنگالی خواتین کی آبرو ریزی کے مرتکب ہوئے یہ لوگ سویلین افراد کے لباس میں ملبوس ہوتے تھے اور تخریبی کاروائیاں کرتے تھے۔

اس طرح کی صورت حال ہم بلوچستان میں بھی دیکھ رہے ہیں جہاں ایف سی کی وردیاں پہن کر شر پسند عناصر لوگوں کو اغوا کرتے اور پاک فوج کو بدنام کرتے ہیں ۔ہمارے میڈیا کا بھی عجیب رویہ ہے یہ شرپسندوں اور دہشت گردوں کی سفاکیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے ایف سی کے نام نہاد مظالم کا پرچار کرتے نہیں تھکتا۔بعض عدالتیں بھی میڈیا کے دباؤ کے تحت افواج پاکستان کو لاپتہ افراد کے مسئلہ پر مورد الزام ٹھہراتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جن افراد کو لاپتہ قرار دیا جارہا ہے ان کو ایف سی کی وردیوں میں ملبوس دشمن کے ایجنٹوں نے غائب کر رکھا ہے اب میڈیا کے ان ایجنٹوں کے بہکاوے میں آکر پاک فوج پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔اوراس کے پس پردہ جوسازش کار فرماہے اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ پاک فوج ہمارا دفاعی حصار ہے اس کے افسروجوان ملک و قوم کی خاطر دن رات قربانیاں دے رہے ہیں۔سرحدوں کے انہی محافظوں کی بدولت اہل وطن رات کو سکھ کی نیند سوتے ہیں ۔پاک فوج کا ہر سپاہی دفاع وطن کے لیے مستعداور چاق و چوبند ہے۔ان کے ہوتے ہوئے کوئی پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔اب بھی وقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہم سے جو کوتاہیاں ہوئیں ان سے سبق سیکھیں ملک دشمنوں کا متحد ہو کر مقابلہ کریں جو پاکستان کو بلوچستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے اسے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ان کی نظر میں بلوچستان کی گوادر بندرگاہ پر لگی ہوئی ہیں۔اگر بلوچستان میں اسلحہ کی آزادانہ سمگلنگ اور بیرونی فنڈ کا راستہ روک دیا جائے تو نام نہاد بلوچ قوم پر ستوں کو کہیں جائے پناہ نہ ملے گی۔

سقوط ڈھاکہ کا المناک حادثہ ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ ملک کا تحفظ اور بقا عصبیت علاقائی اور انفرادی مفادات کو بھلا کر اسلام کے سنہری اصولوں کے تحت بھائی بھائی بن جانے اور اجتماعیت کو پروان چڑھانے میں ہے۔ضروری ہے کہ اغیار کی سازشوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ملک و قوم کے کسی بھی حصہ میں احساس محرومی کو نہ پیدا ہونے دیا جائے تاکہ ارض پاک تحفظ و دفاع کے حصار میں رہتے ہوئے تعمیر و ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر سکے۔
 
Bashir Ahmed
About the Author: Bashir Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.