صدقہ و خیرات کرنے کی فضیلت

ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ)’’جو لو گ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انکی کہاوت اس دانہ کی سی ہے جس سے سات بالیں نکلیں ، ہر بال میں سو دانے اور اللہ جسے چاہتے ہیں زیادہ عطا فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور بڑے علم والے ہیں‘‘(البقرہ:۲۶۱) ان آیات کریمہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ثواب اور اسکی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے مثلاً کسی شخص نے اگر اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کیا تو اس کے ثواب کو اس دانے سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس کو زمین میں بونے سے اس سے سات ٹہنیاں نکلتی ہیں اور ہر ٹہنی میں سو دانہ ہوتا ہے یعنی ایک روپیہ خرچ کرنے کا ثواب سات سو گنا بیان کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس ثواب کو اس سے بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔سبحان اللہ ! یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بے پایاں جود و کرم کی ایک ادنی مثال گویا ایک سمندر ہے کہ جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں اور پھر قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ہمارے خرچ کئے ہوئے مال کا اللہ کی ذات اقدس کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا اسے ہمارے مال و اسباب کی ضرورت ہے؟ ہر گز نہیں، بلکہ اسکا فائدہ ان غرباء ومساکین کہ پہنچتا ہے جن کے پاس ضروریات زندگی کے وسائل کم ہیں اور وہ تنگی معاش کا شکار ہیں۔

دراصل اسلام ہمدردی و غمخواری کا دین ہے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت اس مذہب کا خاصہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے لوگوں کی معیشت کو انکے درمیان تقسیم کر دیا ہے‘‘(القرآن) یعنی دنیا میں رزق کی کمی یا زیادتی کا نظام اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور کسی شخص کے پاس رزق کی کمی یا اسکا زیادہ ہونا اسکی ذاتی صلاحیتوں کی دلیل نہیں بلکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے۔
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھیں کاروباری سوجھ بو جھ نہیں ہوتی، یا وہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر کام نہیں ملتا اور بعض لوگ ویسے ہی مفلس اور نادار ہوتے ہیں یا وہ مقروض اور دو وقت کی روٹی سے بھی تنگ ہوتے ہیں، تو ایسے لوگوں کیلئے یہ حکم ہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے انکی مدد کی جائے۔ اور عقیدہ کی بات یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے اور اس میں برکت پیدا ہوتی ہے۔

اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں یہ ضروری ہے کہ اس میں ریا کاری نہ ہو یعنی وہ مال خالص اللہ کی رضا کی نیت سے خرچ کیاجائے اگر مال ریاکاری یعنی دوسروں کو دکھانے کیلئے خرچ کیا جائے گا تو اس سے بجائے ثواب کے ا لٹا عذاب ہوگا او ر اللہ کی ناراضگی حاصل ہوگی۔پہلے زمانے کے لوگوں کا دستور تھا کہ اگر کسی کو کچھ دینا ہوتا تواسے چپکے سے کسی پوٹلی میں باندھ کر اسکے راستے میں ڈال دیتے یا اسکے گھر کی دیوار سے اندر گرا دیتے تاکہ اسے پتہ نہ چلے کہ کون دے گیا ہے۔کیونکہ جس کی راہ میں خرچ کیا جارہا ہے وہ تو جانتا ہے کہ کون خرچ کر رہا ہے اور کس نیت سے خرچ کر رہا ہے کیونکہ وہ دلوں کے بھید کو جاننے والا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو احسان جتا کر اور ایذا دے کر اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے ا پنا مال لوگوں کے دکھاوے کو اور یقین نہیں رکھتا اللہ پر اور روز قیامت پر سو اسکی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اسپر پڑی کچھ مٹی پھر برسا اس پر زور کا مینہ تو کر چھوڑااسکو با لکل صاف، کچھ ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کو ثواب اس چیز کا جو انھوں نے کمایا‘‘(البقرہ:۲۶۴)آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص محض اللہ کی رضا کیلئے کھجور کاایک دانہ خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اسکے ثواب پہاڑوں کے برابر دیتے ہیں اور اسکے برعکس اگر کوئی شخص ریاکاری سے احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو اسکو کوئی ثواب نہیں ملتا بلکہ الٹا عذاب ہوتا ہے۔(المشکوٰۃ)

بہرحال ایک مخلص مومن مسلمان کو چاہئے کہ وہ صدقہ و خیرات کا اہتمام کرے کہ اس سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور گھر میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 184 Articles with 283350 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More