کراچی چلیں

فجرکے بعد ڈائیوو ایکسپریس کی کراچی جانے والی بس جب دوبارہ عازم سفر ہوئی تو نہ جانے کس لمحے میری آنکھ لگ گئی۔ جب دوبارہ آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہوچکا تھا۔ باہر ہر چیز دھوپ میں نہائی نکھری نکھری سی دکھائی دی رہی تھی۔ذرا حواس بحال ہوئے توپتہ چلا کہ بس ابھی تک جنوبی پنجاب کے لامحدود میدانوں میں واقع گائوں قصبوں میں محوسفر ہے۔ ان زرخیز ،وسیع و عریض میدانوںمیںتاحدِ نگاہ لہلہاتی فصلیں، جھومتے درخت ،آوارہ پنچھی ، کہیں کہیںسبزہ زاروں میں چرتے مویشی اور کھیتوں میں جتے کسان دیکھ کر عجب فرحت کا احساس ہوا۔ پنجابی دیہات کے اس روایتی منظر نے کچھ ایسا سماں باندھا کہ پس منظر سے مجیدامجد گنگناتے محسوس ہوئے :
ہری بھری فصلو
جگ جگ جیو پھلو
ہم تو ہیں بس دوگھڑیوں کو اس جگ میں مہمان
تم سے ہے اس دیس کی رونق اس دھرتی کا مان
دیس بھی ایسا دیس کہ جس کے سینے کے ارمان
آنے والی مست رتوں کے ہونٹوں پر مسکان
جھکتے ڈنٹھل، پکتے بالے، دھوپ رچے کھلیان
ایک ایک گھروندہ خوشیوں سے بھرپور جہاں
شہر شہراور بستی بستی جیون سنگ بسو!
چندن روپ سجو
دامن دامن پلو پلو، جھولی جھولی ہنسو
ہری بھری فصلو
جگ جگ جیوپھلو

میں ایک دن قبل ١٩ستمبر ٢٠١١ء کو نیٹکو کی بس میں گلگت سے راولپنڈی پہنچا اور چند گھنٹے ایک عزیز کے گھر پر سستانے کے بعد اسی دن رات نوبجے بذریعہ بس کراچی کیلئے روانہ ہوا۔یوں دو دن سے مسلسل سفر میں تھا۔مجھے یاد آرہا تھا کہ روانگی سے قبل بعضہمدردوںنے پنجاب میں تباہی مچانے والے ڈینگی مچھر ،ملک بھر اور خصوصاًکراچی میں تسلسل سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے واسطے دیکر دیکر اس سفر کو مئوخر کروانے کی ناکام کوشیشیں کی مگر میراجواب تھا ،'نے ہونی روکیاں رکدی نئیں'۔اور اﷲکا نام لیکر روانہ ہوگیا۔گلگت سے راولپنڈی تک کے سفر کی تھکن ابھی جسم سے محو نہیں ہوئی تھی ،اسلئے رہ رہ کر نیند آرہی تھی۔کافی دیر تک اس جگہ کا نام معلوم نہ ہوسکا۔ گمان غالب تھا کہ ہم پنجاب کے کسی سرحدی علاقے میںسفر کررہے ہیں۔ میرا ندازہ صحیح ثابت ہوا، کچھ دیر سفر کے بعد ہم ضلع رحیم یار خان کی حدود میں داخل ہوگئے۔بس میں میری ساتھ والی نشست پربراجمان سوات کا پٹھان نوجوان بھی کراچی جارہا تھا،جہاں وہ ایک بحری جہاز پر ملازم تھا۔یہ خاصا دلچسپ آدمی ثابت ہوا۔ دورانِ سفر ان سے اچھی گپ شپ رہی۔ اتفاق سے بائیں طرف والی نشستوںمیں سے ایک پر کھنر چلاس سے تعلق رکھنے والے جام شورو یونیورسٹی کا ایک طالب علم بھی ہمارا شریک سفر تھا۔ یہ میرے واقف کارایک سرکاری آفیسر کے فرزند نکلے۔ ان صاحب سے اس اتفاقیہ ملاقات اور تعارف کا احوال خاصا دلچسپ رہا۔ہوا یوں کہ راولپنڈی ڈائیوو ٹرمینل سے جب میں نے ٹکٹ لیا تو مجھے بتایا گیاکہ رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ ایبٹ آباد سے بس آرہی ہے جس میںکراچی جانے والے مسافرسوار ہوںگے۔ میرے ٹکٹ پر سیٹ نمبر ٢٨درج تھا۔ روانگی کے وقت جب میں بس میں داخل ہوا اوراپنی سیٹ پر بیٹھنا چاہا توایک نوجوان کو پہلے سے تشریف فرما پایا۔میرے استفسار پر وہ آگ بگولہ ہوگیا اور نہایت رکھائی سے بولا،میں ایبٹ آباد سے اسی سیٹ پر سوار ہوکر آیا ہوں یہ سیٹ آپ کو کیسے الاٹ ہوگئی۔مجھے خاصا اچنبھا ہوا کہ آن لائن کمپیوٹرائز ٹکٹنگ سسٹم کے باوجود ڈائیوو والوں سے یہ غلطی کیونکر ہوئی۔میں نے بس ہوسٹس سے رابطہ کیا۔ انھوں نے مجھے ٹکٹنگ کلرک کے پاس بھجوا دیا۔ کلرک میری عرض سن کر اطمینان سے بولا ایسا نہیں ہوسکتا، میں خود آکر چیک کرتا ہوں آپ بس میں تشریف لے جائیں ۔ میں دوبارہ بس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میری سیٹ خالی پڑی تھی اور نوجوان ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
'مسلہ حل ہوگیاکیا؟'میں نے نوجوان سے دریافت کیا ۔

'میری سیٹ کا نمبر ٢٦تھا مگر پرنٹنگ مسٹیک کی وجہ سے ٹکٹ پر ٢٨ پڑھاجا رہا تھا۔بس ہوسٹس نے ٹکٹ دیکھ کر مجھے بتایا۔' نوجوان معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا۔

یوں خوش اسلوبی سے یہ مسلہ حل ہوگیا۔ اس مکالمے کے دوران مجھے اس نوجوان کا لہجہ کچھ اپنا اپنا سا لگا ، مگر میںنے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ تھوڑی دیر بعد رات تقریباًنو بجے بس کراچی کیلئے روانہ ہوگئی ۔ راستے میں دوران ِ سفر اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری جانب اس کا کوئی دوست تھا۔ علیک سلیک کے بعد ان صاحب نے شنا میں اپنے مخاطب سے باقاعدہ تبرا بازی شروع کر دی۔میرا اندازہ درست ثابت ہوا۔خوشی بھی ہوئی کہ اس لمبے سفر میں کوئی ہم وطن تو ملا۔میں نے ان سے شنا میں پوچھا ، اچھا! تو جناب کا تعلق گلگت سے ہے تبھی تو سیٹ نمبر پوچھنے پر لڑنے مارنے پر تل گئے؟انہوںنے بھی بڑی خوشگوار حیرت کا اظہار کیا اور اپنی خجالت مٹانے کے لئے میرا تعارف اور کراچی جانے کا سبب دریافت کیا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اپنی پھوپھی کی رحلت پر تعزیعت کیلئے کراچی جارہا ہوںاور کراچی کا میرا یہ پہلاسفر ہے۔ یہ نوجوان حیدر آباد تک میرا رفیقِ سفر رہا ۔ دوران سفر ان سے گفتگو کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔جس سے وقت بتانے میں بڑ ی مدد ملی۔

راولپنڈی تا کراچی اس طویل سفر کے قابل برداشت ہونے میں موٹر وے کے ساتھ ساتھ ڈائیوو کی باسہولت بس سروس بھی بڑی معاون ثابت ہوئی ۔ میری معلومات کے مطابق راولپنڈی تا کراچی زمینی سفرکیلئے یہ سب سے بہترین اور پرآسائش ذریعہ ہے۔اسکا کرایہ تو عام بسوں سے ہزار بارہ سو روپے زائد ہے۔مگر جو اضافی سہولیات یہ سروس دے رہی ہے اس کے مقابلے میں یہ اضافہ کچھ زیادہ نہیں لگا۔یہ بس تقریباً٢٤گھنٹوں میں کراچی پہنچا دیتی ہے ، راستے میںجابجا سواریا ںاتارنے بٹھانے کی جھنجھٹ بھی نہیں ہے ۔ دوران سفر بس میں مسافروںکیلئے پانچ چھے دفعہ لائٹ ریفرشمنٹ کا بندوبست کیاجاتا ہے۔ہر دوتین گھنٹے کے سفرکے بعد مخصوص اسٹاپس پر ریفریشمنٹ ، نمازاور دیگر حوائج ضروریہ سے فراغت کیلئے باقاعدہ انائونسمنٹ کے بعد پندرہ سے بیس منٹ تک بس روکی جاتی ہے۔ان مقامات میںوسیع پارکنگ ، جائے نماز، فاسٹ فوڈریسٹورنٹ، ٹک شاپ اور صاف ستھرے لیٹرین کی سہولت موجود ہوتی ہے۔یہ سٹیشن اکژجگہوں پر صرف ڈائیوو کی بسوں کیلئے مخصوص ہیں۔ صوبہ پنجاب کی حدود تک ان سٹیشنوں کا معیا ر بیحد اچھا ہے مگر سندھ کی حدود میں واقع سٹیشنوں پر معیاری سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے جس سے خاصی کوفت ہوئی۔بسیں آرام دہ ہیں اور ریفرشمنٹ کے علاوہ وقت گزاری کیلئے ٹی وی دیکھنے، موسیقی اور نعتیں سننے کی سہولت بھی میسرہے۔جبکہ مسافروں کی رہنمائی ،انھیںریفریشمنٹ کرانے اورپانی پلانے کیلئے ایک عدد چاک وچوبند اور سمارٹ بس ہوسٹس ہمہ وقت موجود ہوتی ہے۔کراچی پہنچنے تک تین خواتین نے یکے بعد دیگرے بس ہوسٹس کے فرائض سرانجام دیے۔ اب کوئی 'روشن خیال 'اسے ہماری بدذوقی قرار دے یا رجعت پسندی مگر ڈائیو ایکسپریس کی یہی بات کھٹکتی ہے، کہ عورت کو شمع محفل بنانے والی ڈیوٹی کے لئے نوجوان خوبرولڑکیوں کوتعینات کیا گیا ہے جو میرے نزدیک عورت کوشوپیس بنانے اور انکی تذلیل کے زمرے میں آتا ہے۔مغربی تہذیب کی پیروی کا یہ پہلو کوئی حوصلہ افزا امر نہیں ہے۔اس روش کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ مغرب کی بے حیا عورت تو اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹیں سجا کر ساقی گری کا یہ کام با آسانی کرلیتی ہیںکیونکہ انکا معاشرہ اس کا عادی ہے۔مگر یہاں کی خواتین مغرب کی تقلید یا پھر کسی مالی مجبوری کی وجہ سے یہ پیشہ اختیار کرلیتی ہیں۔یکے بعد دیگر ے ہماری میزبانی کافریضہ سرانجام دینے والی ان لڑکیوں کے چہرے پرمسکراہٹ کا شائبہ تک نہیں دیکھا۔ بلکہ وہ بڑی ناگواریت ، بے زاری اور ڈری سہمی نہایت رسمی انداز میں اپنے فرائض نبھاتی رہیں۔بس مکمل ائر کنڈیشنڈ تھی، مگر گھٹن کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔راستے میں مطالعے کیلئے تازہ اردو اور انگریزی اخبار بھی مہیا کیا گیا۔

ہم دن بھرپنجاب کے طولانی اور وسیع وعریض میدانی علاقے میں محو سفر رہنے کے بعد ضلع رحیم یار خان سے ہوتے ہوئے صوبہ سندھ کی حدود میں داخل ہوگئے۔سندھ کی زرعی زمین بھی خوبصورتی اور افادیت کے لحاظ سے پنجاب سے کسی طور کم نہیں ہے۔یہاںکے باغات ،میدان، کھیت کھلیان اورکہیں کہیں کھجور کے درخت ماحول کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں۔بعض علاقوں میں وسیع رقبے پر پچھلے ماہ کی تباہ کن بارشوںسے جمع ہونے والا سیلابی پانی ا ب بھی کھڑا تھا۔ دن بھرکے سفر میں سندھ کے دلکش مناظر سے خوب محظوظ ہوئے۔روہڑی، گھوٹکی ، سکھر ، مورو سے ہوتے ہوئے آخر کار ہماری بس حیدرآباد کے مضافات سے گزرتے ہوئے کوٹری بیراج پر قائم طویل انڈس ریور پل جامشورو حیدرآبادپر پہنچ گئی۔یوں صوبہ سندھ کے مشہور شہر حیدرآباد کی ایک جھلک دیکھنے سے محروم رہے۔یہ طویل پل کراس کرنے کے بعد کچھ امید بندھی کہ اب ہماری منزل عروس البلادکراچی آیا ہی چاہتی ہے، مگر :
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بس ایک ایسے وسیع وعریض ویرانے میں داخل ہوگئی جہاں تاحد نگاہ اونچی نیچی گھاس اور اور خودروجھاڑیوں کے سواکچھ بھی نہ تھا۔اس ویرانے کے بیچوں بیچ گزرنے والی شاہراہ پر ہماری بس نے سر پٹ دوڑنا شروع کردیا ۔ شام کا ملگجا اندھیرا رات کی سیاہی میں بدل گیا ۔اب بس سو کی سپیڈ پکڑ ے گھنٹے سے زیادہ ایک ہی سیدھ میں دوڑے چلے جارہی ہے، مگر یہ ویرانہ تو ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔ لحظہ بہ لحظہ میرا اشیتیاق بڑھتا ہی جارہا تھا۔ مگر دور دور تک روشنیوں کے شہر کراچی کے آثار نہ دارد۔ آخر تنگ آکر میں نے اپنے ہم سفر سواتی پٹھان سے دریافت کیا 'یارا یہ کونسی شاہراہ پر ہم دوڑے جا رہے ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟'

' یہ کراچی سپر ہائے وے ہے ،تھوڑی دیر بعد آپ کو کراچی کے آثار دکھائی دینے لگیں گے۔ ' انکا جوا ب تھا۔
اورواقعی تقریباًپونے دو گھنٹے اپنی پوری رفتا رسے چلنے کے بعد بس کراچی کے مضافاتی علاقے میں داخل ہوگئی ۔چند تعمیرات اور روشنیاں دائیں بائیں سے گزرنے لگیں ۔ گویا ہم ایک کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ،سینکڑوں مربع کلومیڑپر پھیلے،پاکستان کے سب سے بڑے بندرگاہی شہر میں داخل ہوچکے تھے ۔ جسے زمانہء قدیم میں کولاچی جو گوٹھ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
'یہ کراچی کا انڈسٹریل ایریا ہے۔' میر ے ہمسفر پٹھان بھائی کی آواز آئی۔
شہر میں داخل ہونے کے تھوڑی ہی دیربعد ہم ڈائیوو ایکسپریس کے اڈے پر پہنج گئے۔ یہاں اندرونِ شہرکے مسافروں کی سہولت کے لئے ڈائیوو ایکپریس سروس والوں کی جانب سے شٹل سروس بھی چلتی ہے۔ میری منزل نیپا چورنگی کے قریب گلشنِ اقبال میں واقع ایک فلیٹ تھا ۔ جہاں میرے چھوٹے بھائی ارسلان احمد اپنے طالبعلم ساتھیوں عمر اور حسنین سمیت رہائش پزیر تھے۔ یہ سب نوجوان انجنیئرنگ کے مختلف شعبوں کے سٹوڈنٹس تھے۔ نیپا چورنگی شٹل سروس کے روٹ سے کافی دور واقع تھی اسلئے میرے پٹھان ساتھی نے مشورہ دیا کہ آپ یہاں سے ٹیکسی کرکے جائیں تو بہتر ہے۔ وہ شٹل سروس سے جارہا تھا ۔ ان سے الوداع لے کر میں بس ٹرمینل سے باہر آیا اور باہر کھڑے ایک رکشے پر سوار ہوکر ڈرائیور کو نیپا چورنگی پہنچانے کو کہا۔ رکشا چل پڑا اور کچھ دیر سفر کے بعد ایک مصروف بازار میں پہنچے تو آگے ٹریفک بلاک تھی، پتہ چلاکہ کوئی احتجاجی مظاہرہ ہورہا ہے۔ رکشا ڈرائیور بڑا تجربہ کار نکلا اس نے بغلی گلیوں سے رکشے کو دوڑاتے دوڑاتے مجھے منزل ِ مقصود پر پہنچا کر ہی دم لیا۔نیپا چورنگی کے قریب عمر نے میرا استقبال کیا اور گلشن اقبال کے ایک پلازے کی چوتھی منزل پر واقع دوکمروں، باتھ روم، کچن اور ایک مختصر بالکونی پر مشتمل اپنے فلیٹ میں پہنچا کر تھوڑی دیر آرام کا مشورہ دیا ۔اس فلیٹ کے باسی یہ تینوں طالب علم ساتھی بھی تعلیم اور روزگار کے متلاشی گلگت بلتستان کے ان دیگرسینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کی صف میںشامل ہیںجنہوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے کراچی جیسے دوردارز شہر کا انتخاب کیا ۔ مگراپنے علاقوں میں ماضی کی نسبت بہترتعلیمی سہولیات کی فراہمی اور کراچی میں امن وامان کی روز افزوں بگڑتی صورتحال کے باعث یہاں بتدریج گلگت بلتستان کے نوجوانوںکی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ گلگت بلتستان سے کراچی کا رخ کرنے والوں کا زیادہ تر نوجوانوںکا مقصد عموماً تعلیم یا روزگار کا حصول ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں کی اکثریت غریب یامتوسط گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے یہ یہاں چھوٹی موٹی ملازمتیں کرکے تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھتے ہیں۔ ان میں سے جن کو تعلیم کا حقیقتاًشوق ہوتا ہے وہ توپارٹ ٹائم ملازمت کرکے بھی اپنی تعلیم پوری کرلیتے ہیں اور یہاں سے بہت کچھ حاصل کرکے جاتے ہیں ۔ ایسے لاتعداد نوجوان آج اچھی پوسٹوں پر فائز نظر آتے ہیںاور زندگی کے دیگر شعبوں میں باعزت مقام رکھتے ہیں۔ مگر کچھ نوجوان محض ڈگری کے حصول کے شوقین ہوتے ہیں ،حصول علم سے انکا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ ڈگری کے حصول کیلئے پیسے دیکر اپنی جگہ دوسرے سنیئر طلبہ کو امتحان میں بٹھاتے ہیںیا امتحانی عملے کو خرید کر نقل لگاتے ہیں ۔ اور ان میں سے چند ایک سر پھرے مختلف لسانی ، مذہبی ، سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر اپنے تعلیمی اداروں اور محلوں میں دادا گیری کرتے ہیں اور ان جماعتوں کی اشیر باد سے اپنے کام نکالتے ہیں اور اکثر مالی مشکلات کی وجہ سے غیرقانونی اور غیراخلاقی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں۔ایسے کئی سپوت ماضی میں دادا گیری کے حوالے سے کافی شہرت کے حامل رہے ہیں۔فلاں ٹی ٹی، فلاںلنگڑا،فلاں٣٠٢،فلاںداداجیسے نام ایسی ہی وجہ تسمیہ رکھتے ہیں ۔بہرحال ایسے نوجوانوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ کراچی پلٹ چند مقامی بدقسمت نوجوا ن ایسے بھی ہیں جواپنے قیامِ کراچی کے دوران ڈھنگ سے پتلون باندھنے کے سوا کچھ بھی نہ سیکھ پائے۔

اگلے دن ناشتے کے بعد ارسلان اور میںپھوپھی مرحومہ کی تعزیت کیلئے ایک ٹیکسی کرکے کلفٹن میں واقع پھوپھا کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہمارے پھوپھا ایک ریٹائرڈ بنک آفیسر ہیںجن کو کراچی منتقل ہو ئے چالیس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ۔یہ تین تلوارچورنگی کلفٹن کے نزدیک واقع رہائشی علاقے میں اپنے ذاتی فلیٹ میںبمع اھل خانہ رہائش پذیر ہیں۔ جب ٹیکسی کلفٹن جانے کیلئے روانہ ہوئی تو دن کے اجالے میں کراچی کی وسیع شاہراہوں ،چورنگیوں ،فلائی اورز، کمرشل مارکیٹوں اور بلندو بالاعمارات کو دیکھنے کا موقع ملا۔ کراچی کی کشادہ روشن سڑکیں اور اونچی اونچی عمارات دیکھ کر راولپنڈی اور لاہور اسکے مقابلے میں روایتی شہر لگے۔ میڑوپولیٹین اور روایتی شہر کا فرق واضح ہوا۔ یہ بھی عجب حسن اتفاق تھاکہ پچھلے سال مجھے کسی نجی مصروفیت ہی کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا تھا اور اس دفعہ ایسی ہی وجہ سے کراچی آنا پڑا ۔ ان دونوں شہروں کے شہریوںکے مابین ایک روایتی رقابت پائی جاتی ہے ۔ اس حوالے سے اہل کراچی کی ایک دلچسپ کہاوت یہ ہے کہ ، 'لاہور ایک گائوں ہے جس نے کبھی شہر بننا ہی نہیں چاہا۔' مگرپچھلے سال لاہور میں ، ہم نے اپنے مشاہدات سے اخذ کیاکہ جیسے اسے ا ب خواہش ہونے لگی ہے۔جبکہ لاہوری اہل کراچی کو بدتہذیب ، مادہ پرست اور اپنی جدیدیت پر اترانے والے سمجھتے ہیں۔
انہی سوچوںمیں گم خود کلامی کے سے انداز میںنے سوال کیا ،'نہ جانے ایسے کھلے، وسیع اور خوبصورت شہر کے باسیوں کو کس چیز کی کمی نے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کردیا ہے اور اس شہر کی سڑکیں خون ناحق سے رنگین کیوں ہوتی رہتی ہیں ؟'

ٹیکسی ڈرائیور میر ی بات سن کر بولا'سرجی ! کمی تو یہاں کسی چیز کی نہیں بس صرف ایک دوسرے کی بالادستی اور وجود کوکوئی بھی گروہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں،اس گروہ بندی کی بنیاد لسانیت پر استوار ہے، یہی اس شہر میں بدامنی کی بڑی وجہ ہے۔'

بڑا مسکت جواب تھا، لسانیت کی جگہ اگر فرقہ واریت کو رکھا جائے تو ہمارے صوبائی دارالحکومت گلگت میںجاری شورش کی ایک اہم وجہ بھی یہی نظر آتی ہے۔

میں جب پھوپھاکے فلیٹ پر پہنچا تو تعزیت و فاتحہ سے فراغت کے بعد یہی سوال میرا ان سے بھی تھا ۔ انہوں نے تاسف سے کہاکہ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی، اب یہ شہر وہ پرانا پرامن کراچی نہیں رہا، اور یہ سب کچھ 80ء کی دھائی میںلسانی طاقتوں کے اُبھرآنے سے ہوا ۔ میرا سوال تھا کہ ' لسانی طاقتوںکا ایک دم کراچی میں اتنا سیاسی اثرونفوذ حاصل کرنے کی وجہ کیابنی ، کیا کسی مخصوص لسانی اکائی کے ساتھ اتنا ظلم ہواکہ وہ ردِعمل پر اتر آئی ۔ انکا کہنا تھا کہ یہ بات نہیںبلکہ اس ردِعمل کی بڑی وجہ 80ء کی دھائی میں حکومت ِ وقت کی وہ پالیسی تھی جسکا مقصد ایک ملک گیر سیاسی جماعت کے اثرورسوخ کو کراچی میں نقصان پہنچانے سے تھا ۔ جس کیلئے لسانی عنصر کو ابھارا گیا ۔ جو آگے چل کر شہر میں ان عناصر کی سیاسی بالادستی پر منتج ہوا ۔چونکہ لسانی جماعتوں کی بنیاد نفرت پر استوار ہوتی ہے اسلئے ان سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ چنانچہ وہی ہوا جسکا ڈر تھا ۔شہر میں موجود مختلف لسانی اکائیوں کے درمیان نفرت کا لاوا پھٹ پڑا اور چل سو چل ۔ بات سے بات نکلتے زلفی لیکس( سابق وزیر داخلہ سندھ، ذوالفقار مرزا کے انکشافات ) تک جا پہنچی ۔ ذوالفقار مرزا کی اس بے وقت کی راگنی کا سبب ان کے بقول یہ تھا کہ کراچی میں برسرِ اقتدار لسانی گروہ جناح پور منصوبے کی ناکامی کے بعد حیدر آباد اور کراچی پر مشتمل علاقے کو سندھ سے علحٰدہ کرکے ایک الگ صوبہ کو عملی جامہ پہنچانے کیلئے مصروف ِ عمل ہے۔ یہ طبقہ علحٰدہ صوبے کی آڑ میں پاکستان کے اس اہم ساحلی شہرکو سنگا پور اور ہانگ کانگ کی طرح ڈیوٹی فری پورٹ بنانا چاہتا ہے۔ جہاں سے کسی چیز یا شخص کے آنے جانے پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہوگی۔(واﷲاعلم)

مگر پاکستان کی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے یقیناً ان سب منصوبوں سے باخبر ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوںسے غافل بھی نہیں ہوںگے۔

ان دنوں پورے ملک پر ڈینگی وائرس کا خوف طاری تھا ۔اسی خوف کے تحت پورے ملک میں صفائی اور اور پانی کے فوری نکاس کے حوالے سے میڈیا پر حکومت کی جانب سے زبردست اشتہاربازی کی جارہی تھی۔ جب کہ میں باہردیکھ آیا تھا کہ اس محلے کی گلیوںاور سڑکوں پرابھی تک کچھ دن قبل ہونے والی تباہ کن بارش کا پانی گھٹنوں گھٹنوں کھڑا ہے ۔ میں نے انکل سے اس حکومتی غفلت کی وجہ دریافت کی ۔ انہوں نے بتایا،'اس ایریے سے برسرِ اقتدار پارٹی کو بہت کم ووٹ پڑے ہیں جس کی پاداش میں ذمہ داربلدیاتی ادارے یہاںکے مسائل سے جان بوجھ کر صرفِ نظرکر رہے ہیں ۔'

اس دن گھنٹوں انکل سے انکی ذاتی زندگی اورکراچی کے حوالے سے بڑی معلومات افزا اور دلچسپ گفتگو ہوئی ۔

سمندر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہمیشہ سے میری آرزو رہی تھی۔ اور ہنوز یہ آرزو تشنہ لب تھی۔ چنانچہ میرے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے رات گیارہ بجے میرے ایک اور عزیزجو کراچی میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیںاپنے ایک دوست کی گاڑی لے کر آگئے اور کلفٹن ڈیفنس ایریا کے قریب واقع سی ویو چلنے کی پیشکش کی ۔اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں ۔ میں فوراًان کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ راستے میں جو بھی قابلِ ذکر مقامات گزرتے جاتے تھے میرے ہم سفر انکا تعارف کرواتے جاتے۔

'یہ عبداﷲشاہ غازی کا مزار ہے جہاں کچھ عرصہ قبل بڑا خوف ناک خودکش دھماکہ ہوا تھا۔'
'یہ سابقہ وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی ذاتی کوٹھی ہے ۔'

اس کوٹھی کے با ہر پولیس کا بڑا سخت پہرا لگا ہوا تھا اور کوٹھی کی طرف جانے والی سڑک کورکاوٹیں کھڑی کرکے مکمل طور پربند کیا گیا تھا۔

مرزا صاحب ان دنوں ایم کیو ایم کے قائد الطات حسین کے خلاف بڑے تابڑ توڑبیانات دیکردبئی سدھار چکے تھے ۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ دفعتاً چہرے سے ٹکرانے والی سمندری ہوائوں سے اندازہ ہوگیاکہ ساحلِ سمندرکہیں قریب ہی ہے۔ باہر کا ذرابغور جائزہ لیاتو گاڑی ڈیفنس ایریا کی ایک ایسی ساحلی سڑک پر پہنچ چکی تھی جس کی ایک جانب سمندرتھا ، دوسری جانب اندھیرے میں کافی فاصلے پر ڈیفنس کالونی کی کوٹھیوں کے برقی قمقمے ٹمٹما رہے تھے۔ساحل سمندر کی اس رومان پرور فضا میں چندنوجوان جوڑے ویران گوشوں میںخاصے رومانٹک موڈ میںسرگوشیاں کرتے نظر آرہے تھے۔ میرے ساتھیوں کے بقول سی ویو پر ساحل سمندر کیساتھ یہ ٍ پہلے بالکل ویران علاقہ تھا اور یہاں ہر طرف جھاڑیاں نظر آتی تھیں ۔مگر اب وہاںقطار اندر ْقطار لکڑی کے خوبصورت ہٹ نظر آرہے تھے۔ ہماری منزل ان میں سے ایک ہٹ نوری ریسٹورنٹ تھا ۔ یہاں ہمارا استقبال ضلع دیامر کے گائوں تھک سے تعلق رکھنے والے ایک لمبے تڑنگے سمارٹ نوجوان زیب عالم نے کیا۔وہ یہاں رات کوبطور منیجر پارٹ ٹائم نوکری کررہاتھا اور دن کو حصول ِ تعلیم ۔ ہم سے مل کر بے حد خوش ہوا ۔تھک کے علاقے کی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے ہمیں فوری اوپری منزل پرلے جا کر ایک ایسی ٹیبل پر بٹھا دیا جہاں سے دو رتلک سمندر کانظارہ کیا جاسکتا تھامگر رات کی تاریکی میں ایسا ممکن نہ تھا ۔ یہ ریسٹورنٹ بالکل ساحل سمندر سے متصل تعمیر کیا گیا ہے۔ سمندر کی پرُشورلہریں اسکی بنیادوں سے ٹکرا رہی تھیں۔منیجر صاحب تو ہمیں کھانا کھلانے پہ تلے ہوئے تھے۔ مگر چونکہ ہم کھانا کھا آئے تھے لہٰذا ان کے تھمائے ہوئے لمبے چوڑے مینو میں سے ہم نے صرف کیلے کے ملک شیک کا انتخاب کیا ۔ کرسی پر براجمان ہوکر جب میں نے سمندر پر چھائے گھپ اندھیرے کی طرف نگا ہ دوڑائی تو دور دور روشنیاں سی ڈولتی نظر آئیں ۔ پتا چلا کہ یہ مچھیروں کی کشتیاں ہیں جو راتوں کو بھی مچھلیاں پکڑنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ کہیں کہیںسمندری پانی پر پڑنے والی ہلکی ہلکی روشنیوں سے سمندر کے پانی کا اندازہ ہورہا تھا ۔ سمندر کو بچشم ِ خود دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا مگر اندھیرے کی وجہ سے سمندر کی خوبصورتی کا اندازہ نہیں ہوپایا۔ ہمارے اس ریسٹورنٹ سے متصل اور بھی کافی ایسے ہی ھٹس اور کیفے بنے ہوئے تھے ۔ ہمار ے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ سارا علاقہ ڈی ایچ اے کی ملکیت ہے اور ان ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کیلئے جگہ لیز پر حاصل کی جاتی ہے ۔ ان ھٹوں کے مالک عموماً اعلٰی ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں۔ کافی دیر ہواخوری کے بعد ہم وہاں سے اٹھ آئے ۔ منیجر صاحب نے بل لینے سے صاف انکار کردیا اور ہمیں باہر پارکنگ ایریا تک آکر رخصت بھی کیا ۔

اس رات انکل کے فلیٹ میں ہی قیام کیا۔ اگلے دن منیجر انکل کے ساتھ انکی موٹرکار میں پھو پھو کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے ڈیفنس کے قبرستان جانا ہوا۔ یہ خاصا بڑا اور گنجان آباد قبرستان ہے ۔جس کے احاطے میں بے شمار قبریں موجود ہیں۔ ہمیں پھو پھو کی قبر تلاش کرنے میں خاصا وقت صرف کرنا پڑا ۔ میںچلتے چلتے قبروں پر لگے کتبے پڑھتا جارہا تھا۔ ان میں ہر عمر اورشعبئہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مردو زن مدفون تھے۔ یہ قبرستان کلفٹن ایریا میں ایک نسبتاً اونچی جگہ پر واقع ہے۔ یہاں سے وسیع وعریض کراچی شہر کا خوب نطارہ ہورہا تھا۔ دور بلندو بالاپرشکوہ عمارات، کشادہ سڑکیں اور گنجان آبادیاں دکھائی دی رہی تھیں اوروہاںنظامِ زندگی اپنی تمام تر چشر سانیوں کے ساتھ رواں دواں تھا ۔اس شہر خموشاں سے کراچی جیسے ہنگامہ پرور شہرکا نظارہ بے حد عبرت ناک تھا۔ دنیا کی زندگی کس قدر عارضی اور فانی ہے اس کا اندازہ قبرستان میں آکر ہوتا ہے۔ کسی دانانے کیا خوب کہا ہے کہ 'قبر سا واعظ کوئی نہیں۔پھو پھوکی قبر پر ہم نے فاتحہ پڑھی ، سورئہ ےٰسین کی تلاوت بھی کی اور تھوڑی دیر احتراماً کھڑے رہے۔برسوں پردیس میں زندگی کی گرم سرد رتوں میں ساتھ نبھانے والے وفادار جیون ساتھی کی جدائی انسان کو کس قدر گہرا گھائو لگاتی ہے یہ منیجر انکل جیسے مضبوط اعصاب والے شخص کے چہرے سے ہویدا تھا۔ ان کادرد میں سمجھ سکتا تھا۔مکررفاتحہ خوانی کے بعد ہم نہایت دلگیر کیفیت میںقبرستان سے گھر واپس ہولئے۔
کیوں خاک اوڑھ کر چپ چاپ سو گیا کوئی
دلوں پہ چوٹ لگی، اپنا کھو گیا کوئی

گھر آکرمیں نے انکل سے رخصت لینا چاہی مگر انہوں نے اجازت دینے سے صاف انکار کردیا ۔میں نے ہتھیار ڈال دیئے اوریوںد و دن انکل کی میزبانی کا خوب لطف اٹھایا ۔ان دو دنوںمیںگھر سے دوری کا احساس تک نہ ہوااور ہوٹل کے کھانوں سے بھی نجات ملی اور کراچی کی تمام اہم ڈشوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملا۔کھانوں میں تیز مرچ مصالحہ استعمال کرنے میں اھل کراچی پنجاب والوں سے کئی گنا آگے ہیں ۔یہ اشتہا انگیز کھانے کھا کر آدمی شعلہ جوالہ بن جاتا ہے او ر ہوٹلوں کی گندگی اس پر مستزاد۔کھائے پچھتائے نہ کھائے پچھتائے والی صورتحال ہوجاتی ہے ۔تیسرے دن بااصرارمیں نے انکل سے اجازت لی اور واپس گلشن اقبال آگیا۔

کراچی میں سٹریٹ کرائم کی شرح اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گن پوائنٹ پر سرعام لٹنا عوام نے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ سمجھ لیا ہے ۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب کسی میمن لڑکے کی دکا ن سے ایک موبائل فون سیٹ خرید ا ۔ پیسے ادا کرکے جب میں روانہ ہونے لگا تو میمنی لڑکے نے مجھے مشورہ دیا کہ نیا سیٹ پیکنگ سے نکال کر جیب میں رکھ لو اور خالی ڈبہ ہاتھ میں تاکہ کوئی اچکا راستے میں ٹکرائے تو کم از کم موبائل فون سیٹ سے ہاتھ دھونے نہ پڑیں۔ میں نے انکی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور من وعن عمل کیا ۔ مگر خیریت رہی کہ کسی اچکے سے بالمشافہ ملاقات کی نوبت ہی نہ آئی ۔اسی طرح ایک دو دفعہ جب کراچی میں اے ٹی ایم سے کرنسی نکالنے کاموقع آ یا تو دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہے ۔ اے ٹی ایم بوتھ میں داخل و خارج ہونے سے پہلے اچھی طرح اطمیان کرلیا کہ کوئی میری گھات میں تو نہیں۔مگر یہاں بھی نصیب اچھے رہے اورمیں بخیرو عافیت کرنسی نکالنے میں کامیاب رہا۔

چونکہ سمندر کو بچشم خود دیکھنے کی میر ی تمنا ابھی تشنہ لب تھی اسلئے رات کو فلیٹ میں اپنے میزبان لڑکوں کے مشورے سے اگلے دن صبح کیماڑی سے بذریعہ موٹر بوٹ جزیرہ منوڑہ جانے کا پروگرام بنایا۔صبح تیاری کے بعدہم قدرے تاخیرسے نیپاچورنگی کی طرف ٹیکسی لینے پیدل ہی روانہ ہوگئے۔راستے میں ایک چائے خانے پر استور فینہ سے تعلق رکھنے والے میر ے ایک دیرینہ مہربان دوست عاقل حسین سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی ۔ علیک سلیک کے بعد معلوم ہوا کہ تعلیم کی تکمیل کا شوق انھیں اپنی ملازمت سے بلا تنخواہ رخصت پر کراچی لایا اور گزشتہ ایک سال سے اسی مقصد کے حصول کیلئے کراچی یونیورسٹی کی سڑکیںمانپ رہے ہیں ۔وہ ہم سے اور ہم ان سے مل کر بے حد خوش ہوئے ۔ یہ ایک بڑا نفیس الطبع نوجوان ہے جسکا باطن اسکے ظاہر سے زیادہ خوبصورت ہے۔ان سے میری یہ ملاقات ذوق کے اس شعر کی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کرنے کے مترادف ثابت ہوئی:۔
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

انھوں نے اپنے فلیٹ آنے کی دعوت دی ۔ میں نے ان سے اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا اور گزارش کی کل میرا کراچی میں قیام کا آخری دن ہے ۔ لٰہذا کل ایک ہی دن میں سارا شہر گھومنا چاہتا ہوں ۔ انھوں نے بخوشی حامی بھر لی کہ کل میں اسی جگہ موٹرسائیکل لے کر آوئں گا اور آپ کی تمنا پوری کروں گا، بے فکر رہیں ۔ان سے اگلے روزملنے کا وعدئہ فرداکرکے ہم چار افرادایک ٹیکسی میں کیماڑی کے لئے روانہ ہوگئے ۔ راستے میں کراچی کے کافی مشہور مقامات ، مارکیٹیں اورنمایاں عمارات نظروں سے گزرتی رہیں ، ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠ ،ابو الحسن اصفہانی روڈ،ایم اے جناح روڈ، مکا چوک ، کراچی میوزیم ، حبیب بنک کی بلڈنگ ، آواری ہوٹل ، تاج محل ہوٹل ،ہوٹل پرل کا نٹیننٹل ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠ ۔

شہر کی گہماگہمی سے نکل کر ہم جوں جوں ساحل ِ سمندر سے قریب ہوتے گئے میں نے مشاہدہ کیاکہ دنیا کے دیگر ساحلی شہروں کی طرح یہاں بھی کئی کریکس (creeks (شہر کے اندر میلوں تک چلی آتی ہیں ۔مگر ان کریکس میں موجود پانیوں میں خوبصورت کشتیوں یا پرندوں کی بجائے جا بجا جھاڑیا ں اور دنیا جہاں کا کوڑا کرکٹ تیرتا نظر آیا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم کیماڑی میں واقع ملک کی سب سے بڑی اور اہم تجارتی بندرگاہ کراچی پورٹ پہنچ گئے۔ یہاںبڑی رونق لگی ہوئی تھی۔ سیاح، پورٹ کے ملازم اور کاروباری حضرات تواتر سے آجارہے تھے۔اس پورٹ کی انتظامی ذمہ داریاں کراچی پورٹ ٹرسٹ کا ادارہ نبھارہا ہے جو کہ 1887 ء میں قائم کیا گیا ۔ کیماڑی کے ساحلی پانیوں میںکروڈ آئل تیرتا نظر آیا۔ جیٹی پر کئی چھوٹے بڑے بحری جہاز اور لانچیںلنگر انداز تھیں ۔ایک بڑے بحری جہاز سے تیل منتقل کیا جارہا رہا تھا۔کیماڑی کے ساحل پر لاتعدادچھوٹی کشتیاں سیاحوں اور مسافروں کو منوڑہ لیجانے کے لئے ہمہ وقت تیارکھڑی ہوتی ہیںاور ان پر منوڑہ جانے والوں کا تانتابندھا رہتا ہے۔ ہم بھی ایک کشتی پر سوار ہوگئے ۔ ہمارے ساتھ ہی خواجہ سرائوں کا ایک گروپ بھی سوار ہوگیا ۔کشتی میں ہم سے قبل کچھ مسافر سوار ہوچکے تھے جن میں سبزپگڑیاں باندھے تنظیم دعوت اسلامی کے چند میٹھے میٹھے اسلامی بھائی ،کچھ موالی نمانوجوان اورقسماقسم کے چند اور مردو زن شامل تھے۔ ہمارے ساتھ سوار ہونے والے ہیجڑے عورتوں کے حلئیے میں تھے،جنکے سوار ہوتے ہی کشتی میں ایک مسخرانہ قسم کاماحول پیدا ہوگیا۔ ان میں سے ایک خوش شکل خواجہ سرا نے بھرپورمیک اپ کے ساتھ بڑا بھڑکیلا زنانہ لباس زیبِ تن کیا ہوا تھا۔ مرد تو مردکچھ خواتین بھی رشک اور طنز کی ملی جلی کیفیات سے اسے گھوررہی تھیں۔ایک منچلا بے شرم نوجوان اٹھ کر اس خوش شکل ہیجڑے کے پہلو میں چپک کر بیٹھ گیا اور اس طرح راز ونیاز میں مشغول ہوگیاگویا کوئی نیا نویلا جوڑا اپنے ہنی مون ٹرپ پہ ہو ۔ ہیجڑے کے شرمانے لجانے کی ایکٹنگ اس ڈرامائی سین میں حقیقت کا رنگ بھر رہی تھی۔سواریاں پوری ہونے پر ملاحوں نے کشتی کا لنگر کھول دیا اور اور موٹر سٹارٹ کردی ۔یوںبھان متی کے اس کنبے سمیت پندرہ بیس منٹ کے مختصر سمندری سفر کے بعد ہم جزیرہ منوڑہ پہنچ گئے ۔

منوڑہ میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT (کے مختلف دفاتر اور تنصیابات واقع ہیں۔ یہاں ایک اچھا خاصا چھوٹا سا بازار بھی ہے۔جہاں سیپیوں اور گھونگھوں سے بنائے جانے والے زیورات ، کھلونے اور ڈیکوریشن کی اشیاء خاصے کی چیز ہیں۔ جبکہ ریسٹورنٹس پہ سی فوڈ کی اچھی خاصی وارئٹی دستیاب ہے۔ ان ریسٹورنٹس میں صفائی کا معیار خاصا مایوس کن تھا۔ اس بازار اور کے پی ٹی کے دفاتر اور تنصیبات سے گزرتے ہوئے ہم نے کوئی آدھا گھنٹہ پیدل راستہ طے کیا اور منوڑہ کے ساحل سمندر پر پہنچ گئے ۔یہاں پہنچ کر بے کراں سمندر کو بچشم خود دیکھنے کی تمنا صحیح معنوں میںپوری ہوئی۔دور افق تک بحیرئہ عرب کا نیلگوں پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور اس کی بپھری موجیں ساحل سے ٹکریں ماررہی تھیں۔واقعی سمندر اﷲتعالٰی کی ایک عظیم لاثانی تخلیق ہے ۔ لامحدود سمندر کو پہلی بار اپنی آنکھوں کے سامنے پاکر دل کی جو کیفیت ہوئی اسکا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں۔برسوں پہلے راقم جب نانگا پربت کے دامن میں واقع فیری میڈوزپہلی بار پہنچا تو ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ میر ا گمان ہے کہ آج کی صنعتی دنیا میں فطرت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ یا تو ہمالیائی بلندیوںپہ نظر آتی ہے یا پھرزمین کی انتہائی پستی میںواقع کسی بے کنار سمندر کے ساحل پر۔

گلگت بلتستان کی فلک بوس چوٹیوں کے دامن میں مستنصر حسین تارڑ کو جب ایسی ہی کیفیت سے گزرنا پڑا تو انھوں نے ایک بڑے پتے کی بات کی تھی:
'انسان کے ہاتھوں سے وجود میں آیا ہوا ہر عجوبہ یاعمارت کسی نہ کسی طور بیان ہوسکتے ہیں ۔لیکن اس( اﷲ) کے ہاتھوں سے ترتیب شدہ جو خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے اسکا تخلیق کردہ کوئی بھی قدرتی منظر کبھی بیان نہیں کیا جاسکتا۔اگر وہ بیان ہوجائے تو وہ بھی بیان ہوجائے جس نے اسے بنایا ہے اور وہ تو کبھی بیان نہیں ہوتا ، کبھی عیاں نہیں ہوتا۔'

دور گہرے پانیوں میں ایک بڑا بحری جہاز رکا ہوا تھا اور بندرگاہ میں داخلے کے لئے اجازت کا منتظر تھا ۔ جبکہ اس کے اردگرد مچھیروں کی لاتعداد چھوٹی موٹی کشتیاں ڈول رہی تھیں۔ ساحل پر پہنچنے کے تھوڑی ہی دیربعد قریبی مساجد سے مغرب کی اذانیں گونجنیں لگیں۔ ایک مقامی شخص سے مسجد کا پوچھا تو اس نے ساتھ ہی واقع ایک عمارت کی جانب اشارہ کرکے بتایا کہ یہ شیعہ فرقے کی مسجد ہے جبکہ کافی دور نظر آنے والے مینار کی جانب اشارہ کرکے بتایا کہ وہ مسجد سنیوں کی ہے ۔میں نے اسکی تفریق سے اتفاق نہ کیا اور ساتھ والی مسجد میں جاکر نماز ادا کرلی ۔مسجد سے باہر نکلا تو خاصااندھیرا چھا چکا تھا ۔ ساحل پر لوگوں کی تفریح کے لئے دوربینیں تانے کھڑے حضرات اپنی دوربینیں فولڈ کرنے میں مصروف تھے اور شتربان بھی اپنے اپنے اونٹوں کی مہار تھامے گھر واپسی کی تیاریاں کررہے تھے۔ مجھے اونٹ کی سواری کا شوق چرایا اور ایک شتربان سے مول طے کرکے اونٹ کی انوکھی سواری کا لطف بھی اٹھایا۔ساحل ِ سمندر کا وہ منظر بھی قابل ِ دید تھا جب شام کی سیاہی پھیلنے پر دور گہرے پانیوں میںبندرگاہ میں داخلے کی اجازت کے منتظربحری جہاز کی کھڑکیاں روشن ہوگئیں، ایسے لگا جیسے سمندر کے بیچوں بیچ ایک کئی منزلہ عمارت ایستادہ ہو۔ شام کی سیاہی رات کے اندھیرے میں تبدیل ہونے پر ہم نے واپسی کی راہ لی۔ راستے میں سیڑھیوں اور ہتھ ریڑھیوں پرسجھائی گئی گھونگھوں اور سیپیوں سے بنی مختلف اشیاء کی ہلکی پھلکی شاپنگ بھی کی ۔

اگلے روزمیرا کراچی میںقیام کا آخری دن تھا ۔میرا واپس اسلام آباد جانے کے لئے فضائی سفر کا ارادہ بنا۔ علی الصبح میں نے راولپنڈی میں مقیم اپنے ایک کزن کو فون کرکے ان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ تحقیق کرکے سب سے سستی ائر لائن کا ایک عدد ٹکٹ خرید کر مجھے ای میل کردے۔جبکہ میں خود طے شدہ وقت اورمقررہ جگہ پر عاقل حسین سے ملنے پہنچ گیا۔وہ موٹر سائیکل لئے میرا انتظار کررہا تھا۔ موٹرسائیکل پر سوار ہوتے ہی میں نے مزار قائد چلنے کا حکم صادر کردیا۔انہوں نے سرتسلیم خم کیااور کچھ ہی لمحوں بعد ہم موٹر سائیکل پر کراچی کی مصروف ترین شاہراہوں میں داخل ہوگئے۔ آدھ گھنٹے مختلف سڑکوں سے گزرنے کے بعد ہم مزارِ قائد سے متصل ایم اے جناح روڈپر پہنچ گئے ۔جہاں سے مزارِ قائد کی خوبصورت عمارت دور ہی سے نظر آجاتی ہے۔ کراچی کی سڑ کوں پر گھومتے ہوئے مختلف مقامات پر کئی جلی ہوئی خستہ حال بسیں دیکھنے کو ملیں جو عوام کے منفی احتجاجی رویوں کا نشانہ بنی تھیں ۔مزارِ کے باہر روڈ پر بھی ایک ایسی ہی بس قوم کی ستم ظریفی پر قائد کی روح سے شکوہ کناں نظر آئی۔ مزار ِ قائد کے پارکنگ ایریا میں موٹر سایئکل کھڑا کرکے ہم مزار قائد کے وسیع و عریض احاطے میں داخل ہوگئے ۔ یہاں حسبِ معمول زائرین کا ایک اژدھام موجود تھا۔احاطے میں داخل ہوتے ہی ہمارے قدم بے اختیار مزار قائد کے اونچے چبوترے پر قائم سفید سنگ مرمر سے تعمیر شدہ اس نمایاں، منفرد اور خوبصورت عمارت کی طرف بڑھنے لگے جس کے اندر مسلمانان برِصغیر کے عظیم سیاسی قائد کی آخری آرام گاہ واقع ہے۔قائدکے مرقد پر فاتحہ خوانی کے بعد ہم دونوں مزار کے تہہ خانے میں واقع اس حصے میں داخل ہوئے جہاں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان شہید ،بیگم رعنا لیاقت علی خان،محترمہ فاطمہ جناح اور سردار عبدالرب نشتر سمیت پاکستان کے سابق نائب صدر نورالامین کی قبریںموجودہیں۔یہاں فاتحہ خوانی کی اور جلدہی باہر آگئے ۔ مزار کی بغلی جانب کے زیریں حصے میں ایوانِ نوادارتِ قائداعظم کے نام سے ایک میوزیم بھی قائم کیا گیا ہے ۔ مجھے اس میوزیم کو دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ میری خواہش پر عاقل میوزیم میں داخلے کے دو ٹکٹ لے آیا۔ اس میوزیم میں قائداعظم محمد علی جناح کی ذات سے متعلق ہر چیز کو نہایت محنت سے جمع کرکے بہت نفاست سے نمائش کیلئے رکھا گیاہے۔ یہاں بانی پاکستان کے زیرِاستعمال رہنے والی موٹر کا ر وں سے لیکر ان کاذاتی فرنیچر، لباس ،مختلف ڈیکوریشن پیس ،کاغذ قلم، کرنسی ،سکے، بٹوے اورمختلف مواقع پر ملنے والی یاداشتوں سمیت ان کی کئی نایاب تصاویر بھی زیرنمائش ہیں۔ اس میوزیم میںقائد اعظم کی ذاتی اشیاء کی زیارت سے اندازہ ہوا کہ بانی پاکستان ایک عظیم مدبر سیاستدان تو تھے ہی مگرساتھ ہی ساتھ نہایت باذوق، نفاست پسند اور خوش لباس انسان بھی تھے۔میوزیم کی سیر میں ہمارا کافی وقت صرف ہوا ۔ باہر آئے تو شام کی سیاہی پھیل چکی تھی۔ہم مزار کے وسیع لان کے ایک گوشے میں چند ساعت تھکن اتارنے کی نیت سے ایک بنچ پر جابیٹھے اور پاس واقع ٹک شاپ سے کچھ لائٹ ریفرشمنٹ کا آرڈر دیا ۔ یہاں بھی چند نوعمر جوڑے لان کے تنہا گوشوں میں محبت کی پینگیں بڑھانے میں مصروف تھے ۔مجھے خاصا ناگوراگزرا کہ ان نادان نوجوانوں نے اس بے شرمی کے لئے مزارِ قائد کو بھی نہ بخشا۔ ۔میرے احساسات بھانپ کر عاقل نے بتایا کہ ساحل سمندر کی چند مخصوص جگہوں کی طرح مزارِ قائد کا وسیع لان بھی کراچی کامشہور ڈیٹنگ پوائنٹ بن چکا ہے اور یہ سلسلہ صبح شام جاری رہتا ہے۔جب ہم مزارِ قائد کے احاطے سے باہر آکر دوبارہ موٹر سائیکل پر سوار ہوئے تو اندھیرا مکمل طور پر چھاچکا تھا اور کراچی واقعی روشنیوں کا شہر لگ رہا تھا۔ رات کا کھانا ہم نے شہر کے ایک پررونق ریسٹورنٹ میں کھایا ۔چاہت کے باوجود وقت کی قلت اور ناواقفیت کے باعث ہاکس بے، موہٹہ پیلس ، کراچی سٹاک ایکسچینج،پورٹ قاسم اور پی اے ایف میوزیم سمیت کئی ایک اہم جگہوں اورعلمی اداروں کو دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اسلئے میںنے فیصلہ کیا کہ آج رات گئے تک عاقل کی موٹر سائیکل پر کراچی کی خوب سیر کی جائے اور سرسری ہی سہی ، مگر بے لگام گھوما جائے ۔بقول ابنِ انشائ:
ہم جائیں کسی سمت کسی چوک پہ ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سودو زیاں کی

چنانچہ عاقل حسین کی موٹر سائیکل پر ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا۔اس دوران ہم ایک ایسی سڑک سے بھی گزرے (جس کا نام یاد نہیں آرہا)جہاں دونوں جانب رنگین آرائشی روشنیوں میں نہائے بہت سارے شادی ہال واقع ہیں۔ان شادی ہالوں کے استقبالیہ دروازوں پر زرق برق لباسوںمیں ملبوس مردو زن مہمانوں کے استقبال کے لئے کھڑے نظر آرہے تھے ۔کراچی کی مصروف شاہراہوں کی قیامت خیزٹریفک کے سیلاب میں ہمارا یہ مٹر گشت رات دیر گئے تک جاری رہا۔آخر میں عاقل چائے کی دعوت پرمچھے اپنے فلیٹ لے گیا اور اپنے چند ساتھیوں سے بھی ملوایاجنکا تعلق گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تھا ۔ یہ سارے نوجوان یہاں مختلف ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔اگلی صبح، اسلام آباد روانگی کیلئے مجھے سویرے ہی ایئرپورٹ پہنچنا تھا اور دن بھر کی بھاگ دوڑ کے سبب کافی تھکن بھی محسوس ہورہی تھی ، اسلئے رات گئے میں نے ان سے رخصت لی اور عاقل کو اپنے فلیٹ پہنچانے کا عندیہ دے دیا۔ فلیٹ پہنچ کرمیں نے شاہین انڑنیشنل ائر لائن کے ٹکٹ کی وہ ہارڈ کاپی نکالی جسکی سافٹ کاپی میرے کزن نے دن کو مجھے اسلام آباد سے ای میل کردی تھی اور جسکا پرنٹ میں نے احتیاطاًدن کو ہی نکلوا کے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ ٹکٹ پر دئے گئے فون نمبر پر کال کرکے صبح کی فلائٹ کی ٹائمنگ کنفرم کی تو پتہ چلا کہ متعلقہ فلائٹ دو گھنٹے لیٹ ہے ۔ یعنی جہاز نے صبح سات بجے کے بجائے نو بجے روانہ ہونا تھا۔فلائٹ لیٹ ہونے کا سن کر زندگی میں پہلی بار خوشی ہوئی کہ چلو صبح اطمینا ن سے ناشتہ کرکے تسلی سے ائر پورٹ جانا پڑے گا۔ اگلے روز صبح ٹھیک ساڑھے سات بجے جناح انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچا ۔ جہاں شاھین انٹرنیشنل کا انفارمیشن کوئنٹر تلاش کرنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں ہوا ۔ چیک ان کے بعد جب اندرونِ ملک روانگی کے لائونج میں داخل ہوا تو متعلقہ ائر لائن کے کائونٹر سے پتہ چلا کہ بریفنگ شروع ہونے میں دس پندرہ منٹ باقی ہیں ، لہٰذا تھوڑی دیر بریفنگ ہال میں انتظار کیا۔ اس بڑے ہال میں پی آئی اے، ائر بلیو، اور شاہین انٹرنیشنل کے الگ الگ بریفنگ کائونٹر بنے ہوئے تھے۔ بریفنگ شروع ہونے کے بعدمتعلقہ کائونٹر سے ٹکٹ اور سامان کی چیکنگ کروانے اور دیگر مراحل سے گزرنے میں مختصر وقت لگا جس کے بعد میں ڈیپارچر لائونج میں پہنچ گیا۔ جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ ملک کا سب سے بڑا اور جدیدترین ائرپورٹ ہے۔ ائرپورٹ کے اندر جدید نظام کو دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔ ائر پورٹ میں ہلکی پھلکی شاپنگ کیلئے ڈیوٹی فری شاپس، سنیک بار اور بینکنگ کی سہولیات موجود ہیں۔ ڈیپارچر لائونج میںبھی مسجد ، ٹی وی اور صاف ستھرے باتھ روم کی سہولت دستیاب ہے۔ میں نے سنیک بار سے کافی کا ایک مگ خریدا اور ایک بینچ پر بیٹھ کر چسکیاں بھرتے ہوئے جہاز کی روانگی کا انتظار کرنے لگا۔ لائونج میں بیٹھنا بھی ایک دلچسپ مشاہدہ تھا۔ یہاں پاکستان کے تمام علاقوں کے متوسط اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے مردوزن نظر آتے ہیں ۔ چند غیرملکی بھی تشریف فرما تھے۔یہاں بیٹھنے کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ چند ساعتوں کے لئے آپ اپنے ملک کی غربت کو بھول جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے انتظارکے بعد آخر خدا خدا کرکے فلائٹ کی روانگی کا اعلان ہوا۔تمام مسافر ٹکٹ پر درج نمبر والے گیٹ سے نکلے اور ایککینوپی لگے سرنگ نما راستے سے گزر کر سیدھے طیارے کے اندر پہنچ گئے۔ یہ سہولت مجھے صرف کراچی ائرپورٹ پر نظر آئی۔ طیارہ پرانا سا تھا اوراسکے اندر سیٹیں بھی تنگ تھیں۔تمام مسافروں کے سیٹوں پر براجمان ہونے کے بعد ٹھیک نو بجے طیارے کا انجن سٹارٹ ہوااورچند ساعت تھرتھرانے کے بعد رن وے پر پوری رفتار سے دوڑتے ہوئے کراچی ائر پورٹ سے ٹیک آف کرگیا۔ اس طیارے پرعملے کے دیگرارکان سمیت چار عدد ائر ہوسٹس خواتین موجود تھیں۔ طیارے کے فضا میں بلند ہوتے ہی ان خواتین نے میکانیکی انداز میں فلائٹ سیفٹی کے بارے میں بتایا۔ اس کام سے فارغ ہوتے ہی اتھوں نے ناشتے کی ٹرے مسافروں کے آگے دھرناشروع کردیں ۔ ناشتے کے لوازمات اچھے خاصے تھے۔ ہم نے بھی بھرپور انصاف کرنا شروع کردیا ۔ چائے اور کولڈ ڈرنکس بھی دستیاب تھے۔ میںبھی دیگر مسافروں کی طرح لذت کام ودہن میںمصروف تھاکہ اچانک پچھلی سیٹ سے کوئی ہنگامہ پرور شور سا سنائی دیا ۔پیچھے مڑکر دیکھاتوایک خاتون اپنے چارعدد بچوں سمیت گھر داری میںمصروف نظر آیئں ۔ ایک شیر خوار بچہ ان کی گود میں رو رہا تھا، جبکہ بقایا تینوں بچے کھانے کی اشیاء کے حصول اور کھڑ کی کی جانب بیٹھنے کیلئے زوروشور سے لڑ رہے تھے۔ بچوںکے اس قضیے کو نمٹانے میںبے چاری ماں بڑی الجھن کا شکار تھیں۔ میں یہ صورتحال دیکھ کر مسکرائے بنا نہ رہ سکا او ر انکو اپنے امور خانہ داری نمٹانے میں مشغول چھوڑ کر دوبارہ لذت کام و دہن میں جت گیا۔بھر پور میک اپ سے مزین ،سمارٹ وردیوں میںملبوس ،درازقامت فضائی میزبان خواتین پورے جہاز میں مسافروں کی خدمت گزاری کیلئے ایسے چوکڑیاں بھرتی پھر رہی تھیں جیسے کسی فیشن شو میں پر فارم کررہی ہوں۔ناشتے کا سامان سمیٹنے کے بعد ایک ائر ہوسٹس نے اعلٰی کاغذ وطباعت سے مزین اسلامی تعلیمات پر مبنی ایک کتاب کی مفت کاپیاں بھی مسافروں میں تقسیم کیں۔

جہاز اتنی بلندی پر پرواز کررہا تھا کہ کھڑکی سے باہر دھند کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک میں اس کتا ب اورتازہ اخبارات کی ورق گردانی کرتا رہا۔ پھر تھک کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی ۔جہاز کو کراچی سے ٹیک آف کئے ایک گھنٹے سے زائد وقت بیت چکا تھا۔ میرے تخیلات گلگت سے کراچی کے ساحل تک بیتے ہوئے لمحات کا احاطہ کرنے لگے۔ اتنے مشاھدات کے بعد میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ پاک سرزمین بے خد خو بصورت ہے۔ عظیم پہاڑ ، سرسبز وادیاں ، سدا بہنے والے دریا، وسیع وعریض میدان وصحرا ، لہلہاتی کھیتیاں ، درخت ، رنگ برنگے طیور ، موسموں کا حسین امتزاج ، تاریخی اورجدید شہر، بڑے بڑے ادارے، بہترین نہری نظام ٠٠٠٠
پاک سر زمین شاد باد ، کشور حسین شادباد تو نشان عزم عالی شان ارض پاکستان ٠٠٠ پرچم ستارہ وہلال رہبر ترقی و کمال ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠سائیہ خدائے ذوالجلال !!!!!!!!!
اچانک یوں محسوس ہوا گویا جہازنے تعظیماً نشیب کی جانب جھکنا شروع کردیا ہو، اور اس کے ساتھ ہی جہاز میںگوجنے والی ایک نسوانی آوار مجھے نیم غنودگی سے مکمل بیداری کی طرف کھننچ لائی : 'خواتین وحضرات! اب سے تھوڑی دیر بعد ہم اسلام آباد انٹرنیشنل ائر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں ،آپ سے التماس ہے کہ اپنی اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیں،شکریہ ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠۔ '
(ختم شُد)
ابن صابر
About the Author: ابن صابر Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.