رزلٹ کارڈ

میرا اصل نام تو گلفام ہے لیکن پیار سے سب لوگ مجھے گلو کہہ کر پکارتے ہیں۔مجھے یہ نام بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ لیکن جب میر ی محبت نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے اس نام سے پکارا تو مجھے بھی اپنے اس نام سے محبت ہو گئی۔ آج میرا بی اے کا رزلٹ آنے والا ہے۔ اور میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ اس دفعہ نتیجہ میرے حق میں ہی ہو گا۔ کیوں کہ یہ میرے لیے آخری چانس ہے۔ اگر میں اس دفعہ بھی فیل ہو گیا تو میری ساری کیتی کترائی پر پانی پھر جائے گا۔ میرے فیل ہونے کی خبر سن کر یا تو ابے کو ہارٹ اٹیک ہو جائے گا یا پھر وہ مجھے قتل کر دے گا۔۔۔بے بے کی خیر ہے اُسے میرے فیل یا پاس ہونے کی اتنی پروا نہیں ہے۔ وہ تو بس یہی چاہتی ہے کہ میں ہر وقت اُس کی نظروں کے سامنے رہوں۔۔۔ پتا نہیں ابے نے مجھے اعلیٰ تعلیم دلوا کر کیا کرنا ہے۔ کہتا ہے کہ پتر جب تو بی اے کر لے گا تو میں سارے پنڈ میں اعلان کرواؤں گا۔خوشیاں مناؤں گا ۔ مٹھائیاں بانٹوں گا۔ اور پھر دیکھنا کہ شریکے برادری میں میری پگ کتنی اونچی ہوتی۔۔۔ بس اس پگ کا ہی مسئلہ ہے جو مجھے بار بار بی اے کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ میں نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اس دفعہ بی اے کر کے ہی رہوں گا۔ مجھے اس بات بڑی بے قراری سے انتظار تھا اس لیے میں صبح سویرے ہی گاؤں کے اُس راستے پر جا کر بیٹھ گیا تھا جہاں سے ڈاکیا ہمارے گاؤں میں داخل ہوتا ہے۔ تا کہ میں راستے میں ہی اُس سے اپنا رزلٹ کارڈ حاصل کر لوں ۔۔۔ اگر پاس ہو گیا تو چھلانگیں لگاتا ہوا گھر پہنچوں گا اور ابے کو اپنے بی اے فتح کرنے کی خبر سنا کر حیران کر دوں گا اور اگر حسب عادت فیل ہو گیا تو۔۔۔۔۔ !!!لیکن نہیں۔۔۔! مجھے پورا یقین ہے کہ اس دفعہ تو میں ابے کی پگ اونچی کر کے ہی رہوں گا ۔
ڈاکیے کو میں نے دور سے آتے دیکھ لیا تھا اس لیے اُس کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اور اپنی جیبوں کو ٹٹول کر اُس کو انعام کرام دینے کے لیے رقم کی موجودگی کا یقین بھی کر لیا ۔ میں اس کام کے لیے پورے پچاس روپے اماں کے بٹوے سے نکال کر لایا تھا۔آخر بی اے کا رذلٹ ہے کوئی چھوٹی موٹی بات تھوڑی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میرا پانچواں میٹرک کا رزلٹ آیا تھا تو میرے ابا نے ڈاکیے کو پورے بیس روپے منہ میٹھا کرنے کے لیے دیئے تھے۔وہ تو لے ہی نہیں رہا تھا ۔کہتا تھا کہ اتنی دفعہ رزلٹ کارڈ لے کر آچکا ہوں اب تو آپ لوگ اپنے اپنے لگنے لگے ہو۔لیکن ایف اے میں نے دوسرے حملے میں ہی طے کر لیا تھا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ محلے کے ایک لڑکے کے ہاتھ تمام پرچوں کے گیس پیپر لگ گئے تھے جو اُس نے دو سو روپیہ فی مضمون کے حساب سے آگے بیچے تھے۔۔۔میں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ہائی تھرڈ ڈویژن سے پاس ہو گیا ۔پورے دو دن ہمارے گھر میں مبارکیں دینے والوں کا تانتا بندھا رہا تھا۔۔۔ڈاکیا مجھے اچھی طرح جانتا تھا اس لیئے مجھے دیکھ کر رک گیا اور تھیلے میں سے ایک لفافہ نکال کر میرے آگے بڑھا دیا۔ میں نے لفافہ لیااور دیکھ کر تسلی کر لی کہ یہ میرے ہی نام ہے۔۔۔وہ یقینا رزلٹ کارڈ ہی تھا۔میں نے لفافہ کھولے بغیر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس روپے کا نوٹ نکال کر ڈاکیے کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ۔۔ "یہ لو تمہارا انعام"۔۔۔ میں نے بڑے فخر سے سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ "گلو میاں پہلے اسے کھول کر تو دیکھ لو۔۔۔ کہیں تمہارے پچاس روپے ضائع ہی نہ چلیں جائیں۔۔۔ہا ہا ہا"۔۔۔ ڈاکیا طنزیہ لہجے میں ہنسا۔۔۔ "نہیں نہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس دفعہ میں نہ صرف پاس ہوا ہوں بلکہ میری پوزشن بھی آئی ہو گی"۔میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔۔۔"چلو اﷲ کرے ایسا ہی ہو"۔۔ وہ مجھے دعائیں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

میں بہت خوش تھااور سوچ رہا تھا کہ اپنا رزلٹ کارڈ یہیں کھول کر دیکھ لوں یا ابے کے سامنے جا کر اُسے سرپرائز دوں۔۔۔لیکن میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیئے میں نے اپنے رزلٹ کارڈ کا لفافہ کھولااور یہ دیکھنے کے لیئے کہ میری کون سی پوزیشن آئی ہے اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔ رزلٹ کارڈ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ میرا ہی رزلٹ کارڈ ہے۔ میں نے اُس پر درج نام اور رول نمبر کو ایک دفعہ پھر سے پڑھا ۔۔۔نام گلفام اصغر ولد اصغر علی رول نمبر32946 ۔۔۔ نام بھی میرا تھا اور رو ل نمبر بھی وہی تھا جس کے تحت میں نے امتحان دیا تھا۔اب میری آنکھوں میں باقائددہ طور پر اندھیرا چھانے لگا تھا میرا سر چکرا رہا تھا اور مجھے سردی کے موسم میں بھی پسینہ آنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اب کیا ہو گا۔۔۔؟؟؟ میں نے یہ سوچااور دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا۔ کیونکہ میں نے ابے کی پگ ایک دفہ پھر سے اپنے پاؤں کے تلے روند ڈالی تھی۔۔۔۔۔

میں نے ڈرتے ڈرتے گھر کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ میرے قدم وہیں رک گئے جب میری نظر گھر کے صحن میں بیٹھے ابے پر پڑی۔ اس کے ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے میں اخبار تھا ۔۔۔ میں نے ہمت کر کے اپنے پیروں کی مٹی چھوڑی اور کسی فاتح کی طرح آگے بڑھ گیا اور ابے کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔"ابا میں پاس ہو گیا ہوں"۔۔۔ ابے کے کانوں میں میرے یہ الفاظ کسی بم دھماکے کی طرح پڑے۔ وہ اُچھل کر موڑھے سے گرتے گرتے بچا ۔۔۔ہیں۔۔۔ !!! واقع ہی۔۔وہ خوشی سے اچھلا اور مجھے زور سے گلے لگا لیا۔۔۔ اوہ شیر لگا ایں میر یا پترا۔۔۔اوہ خوش کیتا ای۔۔۔ مجھے یقین تھا اس دفعہ میرا پتر ضرور میری پگ اونچی کرے گا۔۔۔ابا کو زندگی میں پہلی دفعہ مجھ پر پیار آرہا تھااور آئے ہی جا رہا تھا۔۔۔پھر اچانک ابا کی نظر میرے لٹکے ہوئے چہرے پر پڑی۔۔۔اوئے تجھے کیا ہو گیا ہے۔ اتنی اچھی خبر سنا کے خود پریشان کھڑا ہے۔تجھے خوشی نہیں ہوئی کیا۔۔۔؟؟؟خو۔۔۔خوشی۔۔۔ کک ۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔کیوں نہیں خوشی ہوئی مجھے ۔۔۔ مجھے تو بہت خوشی ہوئی ۔۔۔ میں نے زبردستی ہونٹوں پر مصنوئی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔۔۔تو پھر خوش ہو ۔ بھنگڑے ڈال۔۔۔ تو تو چہرہ ایسے لٹکا کر کھڑا ہے جیسے تیری سائیکل چوری ہو گئی ہو۔۔۔ ابا نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں ابا جی۔۔ وہ بس نمبر کچھ کم آئے ہیں ۔۔۔ اصل میں میرا ارادہ اس دفعہ کوئی پوزیشن لینے کا تھا ۔۔۔میں نے اپنا جھوٹ چھپا تے ہوئے کہا۔ اوہ پتر چھڈ پوزیشن کو ۔۔۔ تو پاس ہو گیا ہے تیرے لیے یہی بہت بڑی پوزیشن ہے۔۔۔ ابا نے مجھے حوصلہ دینے کے انداز میں کہا۔۔۔اچھا توجا اپنی بے بے کوبتا جاکے تاکہ وہ بھی خوش ہوجائے ہر وقت بُسی رہتی ہے۔ میں ذرا چوہدری اکبر کو یہ خوشخبری سنا کر آیا۔ تا کہ تمہارے رشتے کہ گل پکی ہو سکے۔۔۔۔ ابا یہ کہہ کر اپنی مونچھوں کو بل دیتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔ اب مجھے سمجھ آئی تھی کہ ابے کو میرے بی اے کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں تھی۔ میں سوچ کر ڈرنے لگا کہ اگر میرا جھوٹ پکڑا گیا تو پھر کیا ہو گا۔۔۔؟؟؟
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99835 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.