معاشی ترقی میں عوام کا حصہ کیوں نہیں ؟

’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوہزار سے دوہزار ساتھ تک کا زمانہ پاکستان کی معیشت کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا جب پاکستان کی مجموعی پیداواراپنی بلندیوں کو چھو رہی تھی ۔پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی کا اوسط 5.6 فیصد سالانہ تھا۔جو دوہزار دو اور دوہزار ساتھ کے درمیانی عرصے میں سات فیصد سالانہ تک جا پہنچا تھا۔ اس دور میں ہونی والی شرع نمو کا تناسب نہایت وسیع بنیادوں پر تھاجس کے 12.4فیصد۔ 4.7 فیصد اور 6.6 فیصد سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ دراصل وسیع پیمانے پر سازو سامان کی تیاری، پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔اگر ہم اوسط ترقی کی اس شرع کو دیکھیں جو بالترتیب سن 1980,1970,1960 اور 1990کے دوران 9.9 فیصد۔5.5فیصد۔8.2فیصد اور 3.6 فیصد رہی تھی تو ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ دوہزار دو اور دوہزار ساتھ کے درمیان شھ سالوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی مینوفیکچرنگ کی ترقی کی رفتار12.4فیصد اور 11فیصد سالانہ تک تھی۔‘‘
اس کے بعد دوہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آ گئی تو اس کے اقتصادی اور معاشی ماہرین ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا اور شوکت ترین نے اپنی پیشرو حکومت کی اس بے مثال کارکردگی اور درج بالا حقائق کا اعتراف کرنے کی بجائے دوہزار دو سے دوہزار ساتھ تک کے درمیانی عرصے میں ہونے والی بے مثال اقتصادی ترقی اور معاشی پیش رفت کو ناکام اور بے معنی بنانے رکھنے کا فریضہ سرانجام دیا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ذمہ دار حکمران اور تمام دنیا معیشت میں اس بہتری کے معترف رہے ۔اسی طرح موجودہ مسلم لیگی حکومت کے معاشی و اقتصادی ماہرین بھی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں معیشت اور اقتصادیات کی ترقی کے لیے کئے جانے والے اقدامات کا اعتراف کرنے اور انہیں بنیادوں پر ملکی ترقی اور معاشیات کے پہئے کو اور تیز کرنے کی بجائے انہیں ٹھپ کرنے کی ناکام سعی کر رہے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں2010ء تک بجلی کی لود شیڈنگ کے نتیجے میں پورے ملک میں صنعتی اور تجارتی حلقوں کو دو ارب روپے روزانہ کا پیداواری نقصان ہوتا رہا ہے۔اور دس ہزار سے زائد مزدور بے روزگار ہوئے۔بے رحمانہ لود شیڈنگ ہنوز جاری ہے تو اسکی تباہ کاریاں بھی یقیننا ہو رہی ہوں گی۔ اور صنعتی و تجارتی حلقوں کو اسی طرح اربوں روپے کا روزانہ پیداواری نقصان برداشت کرنا پڑا رہا ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے فوری نجات کے لیے اقدامات اٹھائے، ایران سے 220 میگاواٹ بجلی 6 سینٹ فی یونٹ کے نرخوں پر خریدنے کی بجائے نجی پاور ہاؤسز سے 27/26 سینٹ فی یونٹ بجلی خریدی جا رہی ہے۔

قومی خزانے کواربوں روپے کا یہ نقصان پہنچانے اور عوام پر مسلسل عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے یہ کوئی راز راز نہیں ہے۔ ایسا محض اپنے کاروباری پارٹنرز کو نواز نے کا بندوبست ہے۔عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حیرت انگز ھد تک کمی واقع ہوئی ہے مگر حکومت محض چند روپے کی کمی کرکے عوام کو باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ اس پر احسان عظیم کر رہی ہے۔ حکومت کے لیے لمحہ ء فکریہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کے باوجود دیگر اشیا صرف کی قیمتوں میں کمی کا نہ ہونا عوام سے سراسر زیادتی ہے۔ نہ تو ٹرانسپورٹرز کرایوں میں کمی کرنے پر آمادہ ہیں بلکہ وہ مسافروں کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سرکاری محکمہ جات کی صورت حال ہے۔ ملک میں ہونے والی معاشی اور اقتصادی ترقی اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کے ثمرات متسوط طبقہ اور غریب عوام کو ملنے چاہئیں ، اور عوام کو ملکی ترقی میں حصہ دار بنایا جائے ،اگر ایسا نہیں ہوگا تو عوام ملکی معاملات سے الگ تھلگ ہوتے جائیں گے جو کہ ملکی و قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143777 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.