جب ڈاکٹر ڈاکو بن جاتے ہیں تو......

جب بھی میٹرک ایف اے یا بی اے کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو نمایاں پوزیشن لینے والے یہی کہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بن کے دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا لیکن جب ڈاکٹر بن جاتے ہیں تو دکھی انسانیت کو اپنی جگہ تڑپتا ہوا چھوڑ کر خود پیسوں کے ایسے پجاری بن جاتے ہیں کہ پھر اپنی بات کا بھرم رکھنے کی بھی انہیں فرصت نہیں ملتی ۔ بے شک شفا من جانب اﷲ ہے لیکن ڈاکٹر کو عقل و فہم مہارت اور تحقیق کی دولت عطا کرنے والا بھی تو اﷲ کی ذات ہے ۔میں سمجھتا ہوں وہ شخص نہایت خوش نصیب ہے جس کو اﷲ اپنی مخلوق کی شفا کے لیے منتخب کرتا ہے لیکن وہ شخص انتہائی بدقسمت ہے جو ڈاکٹر بننے کے باوجود انسانوں پر رحم نہیں کھاتا ۔ سرکاری ہسپتالوں میں درجنوں کے حساب سے جونئیرڈاکٹر موجود ہوتے ہیں ۔یوں سرکاری ہسپتالوں میں جانے والے غریب لوگوں کو جونئیر اور سٹوڈنٹس ڈاکٹروں کے سپرد کردیا جاتا ہے جو اپنی پریکٹس کا آغاز کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ اگر کوئی بچ گیا تو ٹھیک ورنہ قبرستان تو آباد ہو گا ہی ۔جبکہ پروفیسر حضرات سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہ لینے کے باوجود اپنا زیادہ وقت انتہائی مہنگے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہی دیتے ہیں جہاں صرف ایک مریض کا آپریشن کرنے کی فیس ایک لاکھ اور چیک کرنے کی فیس 2000 روپے انہیں ملتی یوں ایک ہی دن میں لاکھوں روپے کماکر وہ گھر جاتے ہیں اس کمائی پر نہ تو کوئی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی کوئی خرچ ۔ چنانچہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں پہلے خوبصورت بنگلے سمگلروں ٗ ڈاکووں ٗ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہواکرتے تھے لیکن اب ان کے مدمقابل ڈاکٹروں کی نہایت دیدہ زیب اور خوبصورت کوٹھیاں اور بنگلے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔پرانے وقتوں میں لوگ کہا کرتے تھے کہ خدا کسی کو ڈاکٹر سے واسطہ نہ ڈالے ۔پھر ڈاکٹر کے پاس کوئی شوق سے جاتا بھی نہیں ہے لیکن جب کوئی ان کے پاس چلا جاتا ہے تو پھر واپسی کا راستہ بھول جاتا ہے کیونکہ بیماری کو ختم کرنے کی بجائے طول دینے ٗ ٹیسٹوں پر ٹیسٹ کروانے کے لیے مریض کو یا تو مکان فروخت کرنا پڑتا ہے یا عمر بھر کی کمائی داؤ پر لگانی پڑتی ہے بیماری پھر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہے۔ ۔حکومتی نااہلی اور چشم پوشی کے بدولت ادویات کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی گئی ہیں جو سیرپ چند سال پہلے 20 روپے کا ملتا تھا وہی سیرپ اب 100روپے کا بمشکل میسر ہے جبکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں حد درجہ اضافہ اور دستیابی کو ملی بھگت سے ناممکن بنا دیاگیا ہے ۔کچھ ڈاکٹر تو اپنی فیسوں کو تین چار گنا بڑھا کر غریب مریضوں کا خون چوستے ہیں تو کئی راتوں رات امیر ہونے کے چکر مریضوں کے گردے نکال کر فروخت کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اس مکرو ہ دھندے میں قابل ذکر سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر ملوث پائے گئے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر گردے نکالنے اور فروخت کرنے پر سخت سے پابندی عائد کررکھی ہے لیکن پولیس ٗ انتظامی اداروں کی نااہلی اور ڈاکٹروں کے روپ میں چھپے ہوئے بھیڑوں کی حرام زدگی کی وجہ سے یہ کاروبار اب تک ختم نہیں ہوسکا ۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ 10 فیصدلوگ غلط ڈاکٹری نسخوں کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ دوران آپریشن پیٹ میں تولیے ٗ قینچی اور استرے بھولنے کی بات تو بہت پرانی ہے۔ شہروں میں انتہائی زیادہ فیسوں اور گردہ فروش ڈاکٹروں کی یلغار ہے تو چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں ڈاکٹروں کا سفید کوٹ پہن کر پلمبر ٗ ٹیوب ویل آپریٹر اور ڈسپنسر بھی بڑے بڑے کلینک کھول کر آپریشن کررہے ہیں ایسے اناڑی ڈاکٹروں کے آپریشن کی وجہ سے سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن پیسے کی ہوس نہ پہلے کبھی کم ہوئی تھی اور نہ ہی اب اس میں کمی کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے ۔جو ڈاکٹر پیسوں کے لالچ میں اندھے ہوجاتے ہیں اﷲ تعالی شفا ان سے چھین لیتا ہے پھر وہ پیسے بنانے والی مشین ہی بن کے رہ جاتے ہیں۔انسانی خدمت کا جذبہ لے کرجو میڈیکل شعبے میں قدم رکھتے ہیں وہ پیسوں کی چمک دیکھ کر اپنے مقاصد کھو بیٹھتے ہیں ان کا کام صرف ایک ہی رہ جاتاہے کہ مریضوں سے بھاری فیسیں وصول کریں ٗ میڈیکل ریپ سے تحائف اور گاڑیاں وصول کریں اور من پسند لیبارٹریوں کو مریضوں کو ٹیسٹوں کے لیے ریفر کرکے اپنا حصہ وصول کرتے جائیں ۔انہیں اس بات سے کوئی غر ض نہیں کہ غریب انسان اپنی زندگی بچانے اور علاج کے لیے گھر بیچے یا اپنے بیوی بچے۔ انہیں صرف پیسوں سے غرض ہے وہ ہر حال میں انہیں ملنے چاہیں ۔جہاں ایسے حریص لوگ میڈیکل شعبے میں موجود ہیں تو وہاں کچھ فرشتہ صفت انسان بھی ڈاکٹروں کی شکل میں ہمارے درمیان رہتے ہیں ۔جن کے پیش نظر پیسہ نہیں بلکہ انسانی ہمدردی ہوتی ہے وہ اپنے پاس علاج کے لیے آنے والے مریض کی جیب پر نظر نہیں رکھتے بلکہ تہہ میں اتر کر مرض کو ختم کرنے کی ہرممکن جستجو کرتے ہیں ۔کئی ڈاکٹر اتنے بدمزاج ہوتے ہیں کہ ان کا رویہ دیکھ کر کسی سکول ماسٹر کا گمان ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ امریکہ میں ایک پاکستانی ڈاکٹر ایسا بھی موجود ہے جس کے پاس اگر کوئی پاکستانی علاج کی غرض سے چلا جائے تو وہ نہ صرف اس کا مفت علاج کرتا ہے بلکہ اس کو اپنی جیب سے کھانا کھلائے بغیر واپس نہیں آنے دیتا ۔ کسی نے اس مہربانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے مرحوم والد نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا تم اتنا بڑا ڈاکٹر نہ بن جانا کہ تیرا کوئی ہم وطن تیری فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے علاج سے محروم رہ جائے ۔ اس لیے جب بھی کوئی پاکستانی میرے کلینک آتا ہے تو وہ میرا مرحوم باپ میرے سامنے کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس کی باتیں میرے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہیں ۔میں سمجھتا ہوں جو لوگ میڈیکل شعبے میں قدم رکھتے ہیں انہیں اپنے مقصداور مشن کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے اگر عمران اپنی والدہ کی بیماری سے متاثر ہوکر لاہور اور پشاور میں کینسر ہسپتال بنا سکتا ہے اگر ابرار الحق اپنے والدین کے نام سے صغری شفیع ہسپتال ناروال جیسے پسماندہ علاقے میں تعمیر کرسکتا ہے تو وہ ڈاکٹر جو لاکھوں روپے روزانہ مریضوں سے فیس وصول کرتے ہیں کیا وہ اپنی فیس کو کم سے کم سطح پر لا کر انسانیت کی خدمت نہیں کرسکتے ۔ ایسا ہوسکتا ہے اگر انسانی ضمیر زندہ ہو اور دوسروں کی پریشانی اور بیماری کی شدت کا احسا س غالب ہو تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.