پرویز مشرف اور۶۰۰ شریک ملزمان ۔قصہ تمام ہوا

سابق صدرجنرل (ر) پرویز مشرف پر چلائے جانے والے آئین کی دفعہ ۶ کے تحت سنگین غداری کے مقدمے میں اب ایک اہم اور دلچسپ صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ پرویز مشرف کے وکلاء صفائی کی جانب سے عدالت میں اسدعا کی گئی تھی کہ اس مقدمہ میں پرویز مشرت کے علاوہ مزید ۶۰۰ افراد کو شریک ملزم کے طو ر پر شامل کیا جائے۔ کیونکہ ایمر جنسی کے عمل کا اقدام تنہا جنرل (ر) پرویز مشرف نے نہیں کیا تھا بلکہ ان کے شریکِ محفل ، شریک حکومت جن کی تعداد ۶۰۰ سے بھی زیادہ ہے برابر کے شریک تھے۔صفائی کی جانب سے اس درخواست کی سماعت معزز عدالت نے انتہائی تحمل اور غیر جانب سے کی اور عدالتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ یہ خصوصی عدالت جسٹس فیصل عرب جو اس عدالت کے سربراہ ہیں کے علاوہ جسٹس طاہر ہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل ہے۔ عدالتی فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنا یا گیا ہے۔ فیصلے میں معزز عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمر جنسی نافذ کرنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز ، چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور اسوقت کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد (جو موجودہ حکومت میں بھی اسی عہدہ پر فائز ہیں لیکن اس فیصلہ کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں )کو شریک ملزم بنا کر ان کے بیانات دوبارہ قلم بند کئے جائیں اور رپورٹ ۱۵ یوم میں عدالت میں جمع کرائی جائے۔ فیصلے کے مطابق چونکہ ۳ نومبر کا اقدام صرف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو گھر بھجوانے کے لیے اٹھا یا گیا تھا، اس سلسلے میں ایمرجنسی کے نفاذ اور چیف جسٹس(ر) عبد الحمید ڈوگر کو چیف جسٹس بنانے کے لیے وزارت قانون سے سمری تیار کراکر وزیراعظم شوکت عزیز کو بھجوائی گئی تھی ، انہوں نے اسے منظور بھی کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس عمل میں شامل ہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم کو دوران سماعت یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ دیگر افراد کو شریک ملزم بنانے پر زور دے لیکن عدالت میں پیش کیے گئے ثبوت اور ریکارڈ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کہ بعض دیگر افراد کو بھی شریکِ مقدمہ بنا یا جانا چاہئے‘۔ عدالت کے ایک معزز رکن جسٹس یاور علی نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں واضع کیا کہ’ ۳ نومبر کا اقدام پرویز مشرف نے کسی سے مشاورت کے بغیر تنہا کیا تھا اس لیے دیگر افراد کو اس اقدام میں شریک ملزم نہیں بنا یا جاسکتا‘۔کیونکہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے آیا ہے اس لیے یہ بات حتمی ہوگئی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست عدالت نے منظور کر لی اب حکومت کو اس پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔

حکومت نے طویل وقت گزانے کے بعد شاید مجبوراٍ یہ فیصلہ کیا تھا وہ بھی اُس وقت جب اسے یہ محسوس ہوا کہ پرویز مشرف ملک کی ایک مظبوط سیاسی قوت بن سکتے ہیں گو انہیں ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ناکامی ہوچکی تھی لیکن اس بات کے امکانات روشن تھے کہ وہ منتخب ایون سے باہر رہتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بنا کر حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ کل یعنی ۲۸ نومبر کی شب اے آر وائی کے پروگرام ’سیاست اور سازش‘ میں ڈاکٹر معید پیرزادہ اور فواد چودھری کو انٹر ویو دیتے ہوئے جنرل صاحب نے تیسری سیاسی قوت بنانے کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے گروپس کو باہم ملاکر ملک کی تیسری سیاسی وقت بنا یا جاسکتا ہے۔ یہ بات انہوں نے عمران خان کے ’دھرنوں ‘ اور اس کی تن تنہا سیاست کرنے کے حوالے سے کہی۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کا اتحاد ڈاکٹر طاہر القادری سے باقاعدہ اتحاد نہیں بنا لیکن دونوں ’انقلاب دھرنے‘ اور’ تبدیلی دھرنے‘ کے حوالے سے آپس میں کزن بنے تو صورت حال بدلتی ہوئی نظر آنے لگی تھی ۔ حکومت بھی اس موقع پر زیادہ خوف زدہ ہوتی دکھا ئی دی۔

بات پرویز مشرف پر غداری کے مقدمہ کے حوالے سے عدالت سے جو فیصلہ آیا اس کے تناظر میں ہورہی تھی۔ یہ فیصلہ جس کاذکر اوپر کیا جاچکا ہے پروریز مشرف کے وکلا ء کی اس درخواست کے حوالے سے آیا ہے کہ غداری کا جو الزام جنرل صاحب پر لگایا گیا ہے وہ اس کاروئی میں یعنی ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے تنہا ذمہ دار نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار ۶۰۰ افراد بھی ہیں جن کی فہرست یقینا صفائی نے عدالت میں فراہم کی ہوگی۔ عدالت نے اس درخواست کو قابل سماعت ہونے کا حکم دیتے ہوئے تین احباب کو صدر صاحب کا شریک قرار دیا ان میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس (ر)عبد الحمید ڈوگر کو شریک قرار دیا۔ کالم نگار عبد الرؤف کا تجزیہ درست ہے کہ ’اگر یہ کام شوکت عزیز نے کیا ہے اور معاونت زاہد حامد کی ہے تو لازماً ساری کی ساری کیبنٹ اس میں ملوث رہی ہوگی۔ پرائم منسٹر جب کسی کام کے لیے صدر کو ڈرافٹ بھیجتا ہے تو پہلے کیبنٹ میٹنگ طلب کرتا ہے اور اس میں اس طرح کے ڈرافت خاص طور پر اس لیے بھی کہ ۳ نومبر کو ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیے صدر کو ڈرافٹ بھجوانا کوئی عام کام نہیں تھا ۔ سو اس ڈرافٹ پر لازماً بحث ہوئی ہوگی ‘۔ میرے خیال میں ڈرافٹ کی تیاری یا اس قسم کے مسودات کی تیاری نہ تو وزیر اعظم خود کرتے ہیں ، نہ ہی وزیر قانون البتہ وہ اس قسم کے ڈرافٹ میں تھوڑی بہت تبدیلی یا فل اسٹپ اور کامہ کی درستگی ضرور کرتے ہوں گے۔ یہ کام تووفاقی سیکریٹری ، ڈپٹی سیکریٹری اور سیکشن آفیسر صاحبان کیا کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ان کاموں کے ماہر اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی عالم فاضل ہوتے ہیں۔ دوسری صورت میں مخصوص ماہرین سے مدد لی جاتی ہے ۔ جیسے معروف قانون داں جناب شریف الدین پیرزادہ قانونی معاملات میں حکومتوں کو اور سیاست دانوں کو مشورہ اور ماہرانہ رائے دیتے رہے ہیں۔اس معاملے میں یہ ضرور ہوا ہوگا اور ہوتا بھی ہے کہ احکامات ، ہدایات اور گائیڈ لائن اوپر سے ہی آیا کرتی ہیں۔ صدر صاحب کیونکہ فوجی سربراہ بھی تھے اس اعتبار سے انہوں نے اپنے فوجی دوستوں اور ساتھیوں سے بھی مشورہ کیا ہوگا۔ اس جانب بعض تجزیہ نگاروں نے بھی توجہ مبزول کرائی ہے۔ چنانچہ اس جرم میں صدر جنرل مشرف کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی، فوجی اور بیوروکریٹ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔سیاست دانوں میں چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی تو از خودبیان دے چکے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کے ۳ تومبر کے ایمرجنسی کے اقدا میں شریک تھے۔ ۶۰۰ افراد کی فہرست سامنے آجانے سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ صفائی نے کس کو شامل کیا اور کس کو نہیں۔ تیسرے شریک جو پرویز مشرف کے اس اقدام کے شریک ٹہرائے گئے ہیں وہ اُس وقت کے چیف جسٹس(ر) عبد الحمید ڈوگر ہیں۔ یقناً عدالت نے محسوس کیا ہوگا کہ اس اقدام میں ان کا بھی کوئی عمل دخل تھا اسی لیے انہیں فریق بنا دیا گیا۔ شراکت داری یہاں آکر ختم نہیں ہوگی نظر آرہا ہے کہ ۶۰۰ افراد میں سے اگر تمام نہیں توایک صفر ہٹا کر ۶۰ ضرور شریک ہوسکتے ہیں ۔ اس طرح یہ مقدمہ جسے حکومت دائر ہی نہیں کرنا چاہتی تھی ، کیونکہ اپنی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جارہا تھا کہ پرویز مشرف جو کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر ہیں کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کریں گے ، نون لیگ کے تمام لیڈران اپنی تقاریر میں اور ٹی وی شوز میں پرویز مشرف کو سخت تنقید کا نشانا بنایا کرتے تھے۔ غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ اب جب وہ اقتدار میں آئے تو اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا پریشر دیگر کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے بعض اہم لیڈروں کی جانب سے تھا کہ مقدمہ قائم کیا جائے ورنہ کئی نون لیگی اس بات کے حق میں تھے کہ پرویز مشرف کو سیف راستہ دیتے ہوئے ملک سے باہر جانے دیا جائے اور اس مشکل کو اپنے گلے کی ہڈی نہ بنایا جائے۔ لیکن نواز شریف پر ان لوگوں کا پریشر کام کرگیاجو مقدمہ قائم کرنے کے حق میں تھے ۔ شاید ان کا خیال ہوکہ مقدمہ دائر ہوگا اور چند دنوں یا چند مہینوں میں مشرف صاحب کو عدالت غدار قرار دے دیگی ۔ بھلا غداری کے مقدمے بھی اس طرح اپنے حتمی انجام کو پہنچا کرتے ہیں۔ اور پھر پرویز مشرف کا معاملہ کئی اعتبار سے مختلف بھی ہے۔ کئی قوتیں ان کے پیچھے موجود ہیں جو بظاہر نظر نہیں آرہیں لیکن یہ ایک فیکٹر ہے جسے پسِ پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ غدار تو پہلے والے بھی تھے جنہوں نے وہی کام کیا تھا جو پرویز مشرف نے تو پھر انہیں کیوں چھوڑ دیا جائے ؟ یہ کوئی منطق نہیں کہ جو کچھ ماضی میں ہوچکا سو ہوچکا ، ان میں سے سب ہی اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کی باقیات تو ابھی موجود ہے۔ اس وجہ سے یہ معاملہ اتنا سہل نہیں بلکہ بہت گھمبیر اور پیچیدہ ہے ۔نون لیگ نے انتخابی مہم میں پرویز مشرف کے علاوہ بھی تو بہت سی باتیں کیں تھیں ۔ ان سب پر کون سا عمل ہورہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس وقت کے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری صاحب کے بارے میں کیا کچھ فرمایا کرتے تھے ۔ ان الفاظ کو دہرانا بھی مناسب نہیں کیا شہباز شریف نے ایسا کیا بلکہ ان سے تو محبت اور دوستی کی پینگیں بڑھ چکی ہیں ۔ ملک کو ترقی پر گامزن کرنے ، عوام کی حالت کو بہتر کرنے کے بہت سے وعدے انتخابی مہم کا حصہ تھے ان پر سنجیدگی سے، محنت اور توجہ سے عمل کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

مختصر یہ کہ یہ مقدمہ طول پکڑتا نظر آرہا ہے ۔ کم از کم موجودہ حکومت کے دورانِ حکومت میں تو اس کا حتمی فیصلہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ طوالت سالوں پر محیط ہوسکتی ہے۔ تجزیہ کار نجم سیٹھی صاحب کا کہنا ہے کہ ’چلوچھٹی ہوئی ، اب مقدمہ چار پانچ برس چلتا رہے گا۔ ایسے میں وکلاء کوئی اور سقم تلاش کرلیں گے اور پھر ٹائیں ٹائیں فش‘۔عدالت کے اس فیصلے کے نتیجے میں ایک بات بہت اچھی اور جمہوری روایات کے لیے قابل تقلید ہوئی لیکن ہمارے ملک میں ایسی روایات ہیں نہیں وہ یہ کہ جناب زاہد حامد صاحب جو موجودہ حکومت میں وزیر قانون تھے اور پرویز مشرف کی حکومت میں بھی خاص طور پر جب ۳ نومبر کی ایمر جنسی لگا ئی گئی وزیر قانون تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں انہیں ملزم قرار دیا تو انہوں نے اولین فرصت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر یہ ثابت کردیا کہ پاکستان میں بھی ایسے سیاست داں موجود ہیں جو جمہوری روایات کو زندہ رکھنے کے لیے ذاتی عنا کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ مقدمہ اب پیچیدگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ طوالت بھی دکھائی دے رہی ہے۔ معاملہ اب حکومت وقت کے ہاتھ سے تقریباً نکل چکا ہے عدالتیں جو فیصلہ کریں گی وہی حق اور پاکستان کے مستقبل ، جمہوری نظام کے تسلسل اور پرویر مشرف اور ان کے پرستاروں کے لیے قابل قبول اوراس کے مثبت ا ثرات ہمارے مستقبل پر رونماں ہوں گے۔

۲۸ نومبر کی شب اے آر وائی کے پروگرام ’سیاست اور سازش‘ میں ڈاکٹر معید پیرزادہ اور فواد چودھری کو انٹر ویو دیتے ہوئے جنرل صاحب بہت زیادہ کانفیڈینٹ لگ رہے تھے۔ انہوں نے بہت تفصیل سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفعہ کیا۔ ان کی کہنا تھا ’ لگتا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں میرے خلاف منظم طور پر مہم چلائی گئی، انہوں نے اپنے دور میں ہونے والے تین اہم واقعات لال مسجد، بلوچستان آپریشن اور چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری کے خلاف اقدامات کو درست قرار دیا۔ انہوں نے چودھری شجاعت کی تعریف کی اور پرویز الہٰی کو کریڈٹ دیا کہ انہوں نے پنجاب کو اچھا چلایا۔ وہ ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومتِ وقت سے درخواست کرنا نہیں چاہتے۔ کپتان کو ایک اچھی شخصیت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام الناس کی ڈیمانڈ ہے کہ اب تبدیلی آنی چاہیے۔ انہوں نے واضع کیا کہ پاکستان میں سوائے ملٹری حکومت کے کسی نے عوام کو خوشحالی نہیں دی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد جنرل صاحب کو یہ پہلا انٹر ویو تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد سابق صدرجنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کے مقدمہ کا مستقبل نون لیگیوں کی توقعات کے برخلاف ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اس فیصلہ کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ قصہ تمام ہوا۔

مَیں یہ کالم لکھ چکا تھا کہ بیچ میں ۳۰ نومبر آگئی جس نے حکومت کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو خوف اور تشویش میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ لیکن حکومت اور کپتان کی فہم و فراست کے باعث خطرہ ٹل گیا۔ اس اہم موضوع پر کالم لکھنا ضروری محسوس ہوا وہ کالم’ کپتان کا پلان ’سی‘ اور نواز حکومت ‘ کے عنوان سے ہماری یب پر شائع ہوا۔ آج اپنا یہ کالم ہماری ویب کو ای میل کرنے ہی والا تھا کہ آج(۴ دسمبر۲۰۱۴ء) کے روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی وضاحت پڑھی جس میں شوکت عزیز نے وٹی کن سٹی میں جنگ کے رپورٹرسے گفتگو میں کہا کہ’ ایمرجنسی کے نفاذ میں جنرل پرویز مشرت نے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی یہ فیصلہ جنرل صاحب نے اپنی صوابدید پر کیا تھا۔ مجھے ان کے اس فیصلہ کا علم اس وقت ہوا جب اس کا نوٹیفیکشن جاری ہوچکا تھا‘۔رپورٹر کا کہنا ہے کہ شوکت عزیز صاحب نے یہ بات مشروط گفتگو کرتے ہوئے کی۔ شوکت عزیز ہی کیا اب تو پرویز مشرف کے دور چھوٹے سے چھوٹا قریبی یہی کہے گا کہ وہ تو پرویز مشرف کو جانتا بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب شوکت عزیز جانتے تھے کہ پرویز مشرت کسی سے مشورہ کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے تو پھر بھی پرویز مشرف کے ہاتھوں کھلونا کیوں بنے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو اس معاملہ میں کسی بھی حوالے سے قصور وار نہیں سمجھتے۔ٹھیک ہے سر، دست ان کی بات مانی جاسکتی ہے جب عدالت انہیں طلب کرے گی اس وقت دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعٔی لاعلم ہوں۔ مَیں نے پرویز مشرف کے دور میں ایک قطعہ کہا تھا جو شوکت عزیز اور سرتاج عزیز کے پرویز مشرف اور نوز شریف کے چہیتے ہونے کے حوالے سے تھا ۔ سرتاج عزیز آج بھی نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ؂
کل تھے سرتاج عزیز، آج ہیں شوکت عزیز
اُنہیں تھے شریف عزیز ، انہیں مشرف عزیز
ملک کی فکر نہ کل تھی عزیز ، نہ آج ہے عزیز
کرسی تھی اُ نہیں عزیز، کرسی اِنہیں ہے عزیز
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273464 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More