خیبرپختونخواہ میں تبدیلی کیوں نہیں؟

عمران خان کے بیانا ت سے تو یوں لگتا ہے کہ وہ اسلام آبادمیں کوئی جنگ جیتنے جا رہے ہیں اور ہر قیمت پر وفاقی دارلحکومت کو فتح کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ جوں جوں 30 نومبر کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ان کے بیانات میں غیض و غضب کی آمیزش بڑھتی جارہی ہے۔اپنے جارحانہ انداز میں حکومتی ردعمل کی خود ہی پیش گوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ مجھے ایکشن نظر آرہا ہے،حکومت چاہے جیلوں میں ڈالے یا تشدد کرے ہم آخری دم تک مقابلہ کریں گے۔نواز شریف اور ان کی ٹیم تھک جائے گی مگر ہم ہار نہیں مانیں گے وغیرہ وغیرہ۔وہ صلح پر آمادہ نظر نہیں آتے بلکہ صلح کی بات کرنے والے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں حالانکہ سیاستدان تو بردبار ،تحمل مزاج ہوتے ہیں۔ نہ جانے عمران خان کیسے رہنما ہیں جو ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں۔ انہیں پاکستان کے شہریوں کی مشکلات و مصائب کی کوئی پروا نہیں ہے۔وہ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے ہر قیمت پر شہر کا محاصرہ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے بھی وفاقی دارالحکومت کو کسی بھی ہنگامی حالات یا انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ جس طرح عمران خان اور طاہرالقادری نے 14اگست 2014ء کے بعد اسلام آبادپر چڑھائی کی تھی اورپارلیمنٹ ، پی ٹی وی پر حملہ آور ہوکر سرکاری عمارات کو نقصان پہنچایا، اسی طرح تقریبا دوڈھائی ماہ اس علاقے میں عام آدمی کا داخلہ بھی بند ہوگیا۔ بہت سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا۔ اس صورتحال میں اسلام آبادکے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسلام آباد کی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہوا۔ظاہر ہے اسلام آباد میں 30نومبر کو ہونے والے اجلاس سے وہاں کے مکینوں کی مشکلات پھر سے بڑھ جائیں گی لیکن عمران خان کی بلا سے کوئی جیئے یامرے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔ ان کے دماغ پر تو ایک ہی دُھن سوار ہے کہ وہ کسی طرح وزیراعظم بن جائیں۔اس کے لیے وہ آئین کو بھی روندنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔

عمران خان کو ضد اور الزامات کی سیاست چھوڑ کر اپنے صوبے کے عوام کی فلاح وبہبود اور ترقی پر توجہ دینی چاہیے جو ہر لحاظ سے پسماندگی کی جانب جا رہا ہے ۔پی ٹی آئی پہلے وہاں تبدیلی لائے۔ عوام کی حالت بدلے تو پھر کسی دوسری طرف رخ کرے۔ صرف پولیس کا محکمہ ہی لے لیجئے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے پولیس کو غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ بار بار کیا گیا مگر ایسا حقیقت میں نہیں۔ اسی طرح کارکردگی میں بھی ریکارڈ متاثر کن نہیں ہے۔محض ریکارڈ کو اوپر نیچے کرنے اور فائلوں کی جلد بندی کرنے سے تبدیلی نہیں آتی تبدیلی ذہن بدلنے سے آتی ہے۔ وہاں معاملات جوں کے توں ہیں۔ پولیس کی کارکردگی سے جرائم میں کمی آنی چاہئے تھی مگر پچھلے ماہ کے محکمہ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق تو جرائم میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی بلکہ ان کا تناسب بڑھا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخواہ میں بھتہ خوری میں 100فیصد، دہشت گردی میں 30 فیصد ،اغوا برائے تاوان میں 44 فی صد، ڈکیتی میں 60 فی صد، چوری میں 65 فی صد اور عورتوں سے متعلقہ جرائم میں40فی صد اضافہ ہوا ہے۔ڈاکوؤں کے مزید گروہ پیدا ہوئے ہیں۔گھروں میں گھس کر خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے، لاشیں پھینکی جاتی ہیں،صوبے میں ایک طرف صحت کے انقلاب کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف پولیو کے حوالے سے دنیا بھی میں بدنامی ہورہی ہے۔بنوں میں آئی ڈی پیز پر پولیس نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ۔ انہیں جیلوں میں ڈالا۔حکومتی عدم توجہی سے متاثرین شمالی وزیرستان کے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث صوبائی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے اور سرمایہ کار صوبے سے باہر منتقل ہو رہے ہیں ۔یکم جنوری سے 15،اکتوبر تک 288 دنوں میں دہشت گردی کے 520 ،بھتہ خوری کے 291، پولیو ورکرز کو نشانہ بنانے کے150 ، اغوا برائے تاوان کے 1102، قتل کے 502، کار چوری کے831واقعات ہوئے ۔جبکہ چھوٹے بڑے واقعات ملا کر ایک لاکھ 8 ہزار سے زائد بنتے ہیں۔ امن وامن کی صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ اغوا کار صوبائی اسمبلی کے ارکان سے بھتے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کیا عمران خان اس طرح کی تبدیلی پورے ملک میں لانا چاہتے ہیں۔وہ پہلے اپنے صوبے کی تو خبر لیں اور کچھ کر کے دکھائیں۔

حکومت کے خلاف دھرنوں کی وجہ سے جڑواں شہروں میں میٹرو بس سروس سمیت بعض اہم منصوبوں میں رکاوٹ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مفادات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔عمران خان کے بعض حمایتی سیاستدانوں سمیت پاکستان کے تمام سیاستدان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کر کے وزیراعظم کی حمایت کر چکے ہیں۔مشکلات کے باوجود وزیراعظم ملک کو مسائل سے نجات دلانے میں پرُ عزم ہیں۔ عمران خان اگر ملک وقوم سے مخلص ہیں تو انہیں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا کر ملک کی جڑیں کاٹنی چاہیں۔عوامی منڈیٹ سے اقتدار میں آنے والی حکومت کا پانچ سالہ مدت پوری کرنا اس کا آئینی حق ہے یہ حق غیر آئینی طریقے سے چھیننے کی کوشش کو اقتدار پر ڈاکہ قرار دیا جائے گا۔اس حقیقت کو سمجھنے کی ضروت ہے کہ کوئی پارٹی اکیلے نظام کو نہیں بدل سکتی برسر اقتدار آکر اسے دوسری پارٹیوں کا تعاون حاصل کر نا پڑتا ہے ۔ہر پارٹی عوام میں اپنا حلقہ اثر رکھتی ہے آج ایک پارٹی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے اگر اقتدار میں آجاتی ہے تو کل کوئی دوسری پارٹی بھی یہی طریقہ اختیار کر سکتی ہے اس طرح ملک میں نہ کوئی استحکام آئے گا نہ کوئی حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی۔ مشورہ یہی ہے کہ پہلے عمران خیبرپختونخواہ کے حوالے سے اپنے گریبان میں جھانکیں پھر کسی پر انگلی اٹھائیں تو بات بنتی ہے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.