ہما رادھرنا ،ہمارا جلسہ،ہمارا مسئلہ

گئے وقتوں کی بات ہے کسی ملک میں شدید قحط پڑگیا عوام بھوک سے بلبلا اٹھے بچوں کی حالت دیکھی نہ جا تی تھی لوگ اپنا سب کچھ دے کر چند دانے اناج حا صل کر نے جستجو کرتے پھر رہے تھے امراء ووزراء طبقہ جب تک اپنے بھرے گوداموں سے استفادہ کر سکتے تھے کرتے رہے جب ان کے سروں پر بھی قحط کے بادل منڈلا نے لگے تو فکر پڑی اس کے تدارک کے لئے دور دیسوں کے ماہر معا شیات اور دا نشوروں کو اکھٹا کیا گیا وزیروں مشیروں کی را ئے ما نگی گئی لیکن مسئلے کا حل سمجھ میں نہ آیا پھر کھلے آسمان کے نیچے دعا ئیں کرا ئی گئی بات پھر بھی نہ بنی انہی میں ایک بوڑھا دانا تجر بہ کارپنڈت جو ملک کی صورت حال اور عوام کے مزاج سے بھی واقف تھا اس نے گہری جا نچ کے بعد مشورہ دیا فلا ں مندر کے آگے جو خشک کنواں ہے اس میں ایک ،ایک گلاس دودھ بادشاہ سمیت تما م پر جا ڈالیں، کنواں بھر جا ئے گا تو شائد دیوی مہر با ن ہوجا ئے ملک میں پھر ہر یا لی ہو جا ئے دن مقر ر ہوا بادشاہ سمیت تمام خلقت رات کے اندھیرے اپنے حصے کا کنویں میں دودھ ڈا لنے پہنچی صبح ہوئی سب لوگ کنواں دیکھنے پہنچے تو کنواں دودھ کے بجا ئے پا نی سے بھرا ہو اتھا ۔اس ملک میں اتنی کر پشن افرا تفری ،خود غر ضی پھیلی ہو ئی تھی کہ سب نے سو چا ایک گلاس دودھ کون ضا ئع کرئے سب لوگ ہی تو دودھ ڈال رہے ہیں اگر میں نے پا نی ڈال دیا تو کیا پتہ چلے گا آج ہما رے ملک کا بھی یہی حال ہے ہر ایک اپنی ذمہ داری سے جی چرا رہا ہے اپنے حصے کی ذمہ دا ریاں سمجھنا ہی نہیں چا ہتے یا پھر دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہوجا نا چا ہتے ہیں اس طرْح کی غلط عادات اطوار جو ہما رے اندر بچپن سے پیدا ہو کر اب ایک تنا ور درخت بن چکی ہے اسے ہم ختم کس طرح کر یں اپنے آپ کو ایک اچھا فعال شہری کس طرح بنا ئیں نشے کی طرح ہمارے وجود کو جکڑے اس مرض سے چھٹکارہ تو ہمیں خود ہی حا صل کر نا ہو گا پھر یہ بھی کہ آنے وا لی نسلیں جو ابھی اسکولوں میں اورہمارے آس پاس چھوٹے کی صورت (چا لڈ لیبر)میں کام کر رہی ہیں اس کی تر بیت کس طرح کریں آخر سو سال بعد سہی صیح ہمیں تر قی یا فتہ ملکوں کی صف میں تو آنا ہی ہو گا اس کے لئے کچھ کام تو ابھی سے انفرادی طور پر بھی کر نا پڑے گا اپنی غلطیاں سدھارنا ہوں گی۔

صبح گھر سے نکلتے ہو ئے سب سے پہلے جس کو فت کا سامنا ہم کرتے ہیں وہ ہما را ٹریفک نظام ہے ہر ایک جلدی میں گا ڑی بھگا نے کی کو شش کر رہا ہو تا ہے غلط سمت گا ڑیاں چلانا ، سگنل توڑنا ،اورٹیک کر ناہما رے لئے اب ایک عام سی بات بن گئی ہے اورجو سب قا نون توڑ کر آگے نکل جا ئے یہ اس کی اضا فی قا بلیت ما نی جا تی ہے بسوں میں قطار بنا کر سوار ہو نا ہم سو سال بعدشائد سیکھ جا ئیں گے مگر یہ کیاکہ لیڈیز کمپا رٹمنٹ میں مرد حضرات کھڑے ہو جا تے ہیں بلکہ زیادہ تر لیڈیز گیٹ ہی اترنے چڑھنے کے لئے استعما ل کر تے ہیں اس سے خواتین کو کتنی کو فت ہو تی ہے اس کا اندازہ وہ کبھی نہیں لگاسکتے اگر کسی خاتون سے ٹکراتے ہو ئے یا چھو جا ئیں خا تون کچھ کہنا چا ہیں اسے غلطی کا احساس دلانا چا ہیں تو خا تون کی ھمایت کرنے والا کوئی نہی ہوتا خا تون کی سر زنش سے سب محظوظ ہو تے ہیں نہ کہ خا تون کا ساتھ دیں اور مردوں کو لیڈیز کمپا رٹمنٹ سے با ہر نکا لیں بہت سے لو گوں کے نز دیک یہ چھوٹی سی بات ہے مگر اس کا اثر سارا دن کی کا رکردگی پر پڑتا ہے کہتے ہیں گھر تر بیت کی پہلی سیڑھی ہے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے گھر کے مردوں کو یہ بات سمجھا ئیں وہ لیڈیز کمپا رٹمنٹ میں نہ بیٹھیں لیڈیز گیٹ نہ استعمال کریں ان مسا فر خوا تین کو ہماری طرح ہی عزت دیں ۔ پڑوسی ملک میں نئے وزیر اعظم نے صاف ستھرا بھارت کے نام سے مہم کا آغا ز کیا ہے جب اس بارے میں کو ئی خبر نظر سے گز رتی ہے دل اداس ہو جا تا ہے کیا اتنا بڑا ملک صفا ئی مہم کے صا ف ستھرا ہو جا ئے گا اور ہم اپنے ملک میں جگہ جگہ پڑے کو ڑے کے ڈھیر گندگی بہتے نالوں کے ساتھ ان پر ستا ئش بھری نظریں ڈا لتے رہ جا ئیں گے ہم تو اسلا می ملک کے باسی ہیں نبی کر یم ﷺ کی ذات ہما رے لئے زندہ قیا دت ہے آپ ﷺنے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے طرز زندگی کومثال بن کر مشعل راہ دی ہے ہما را دین بھی صفا ئی کو نصف ایما ن کا در جہ دیتا ہے پھر ہم کیوں اپنے نصف ایمان سے اب تک محروم ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ جگہ جگہ تھو کنے ،گند گی پھیلا نے گھر کا کوڑا با ہر پھینکنے سے باز آجا ئیں سگنل توڑنا،ما حول کو صاف ستھرا رکھنا ،جگہ جگہ پا ن کھا کردیواروں پر نقش و نگار بنا نا ،بچوں کو بھی صفا ئی کی عادت ڈالیں سو سال بعد ہی سہی ہمارا ملک صاف تو ہو جا ئیگا نا ں !کہتے ہیں گھر تر بیت کی پہلی سیڑھی ہے ہم اپنے بچوں کو اسکول جانا سکھاتے ہیں کلا س میں سب سے زیادہ نمبر لینے کی تر غیب دیتے ہیں اگر اس کے ساتھ تہذیب یا فتہ قوم کی طرح لائن لگا نا سکھا ئیں،سچ، ایما نداری دیا نت و قنا عت کی تعلیم دیں خود سا دگی اپنا ئیں تو شائد بچے بھی بڑوں سے سیکھیں اب تک ہو نے والے تمام دھرنوں جلسوں میں کبھی بھی عام لوگوں کو سادگی اپنا نے کی، دیانت داری ،سچ صا ف ستھرا ما حول رکھنے کی با بت کو ئی با ت نہیں کی گئی حالانکہ عوام اپنے ان لیڈروں کے لئے ہڑتال کر نے، گولیاں، لا ٹھی ،ڈنڈے ، سب کھا نے کو تیا ر ہیں شا ئد اس بات پر عمل کر نے کی کوشش بھی کریں تو سوچ بدلنے سے ہی بڑی تبدیلی آئے گی اس کے ساتھ پھر حکمرانوں کی کر پشن پر بھی با ت کریں تنقید کر یں انھیں آڑے ہا تھوں لیں تو اپنے مقصد میں جلد کا میاب ہوں گے ابھی تو ہم صرف تھر کے قحط سے پریشان ہیں اگر ہم نے اپنی عادات واطوار درست نہ کی تو پورا ملک بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے -
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 147669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.