مہذب لوگ حساس ہوتے ہیں

غصہ ، بد تمیزی، عدمِ برداشت، انتقام، غرور ، تکبر، قانون شکنی، چودراہٹ وغیرہ وغیرہ۔۔۔اس طرح کی لا تعداد خامیاں جنہیں ہم خوبیاں بھی کہہ سکتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اگر کسی کے اندر نہیں ہے تو وہ پاکستانی کہلانے کے لائق نہیں ہے۔کیوں کہ پاکستانی ہونے کے لیئے ان سب غیر ضروری عناصر کا ہونا بے حد ضروری ہے۔معمولی سا جھگڑا غصے کی وجہ سے طول اختیار کر جاتا ہے ۔ اور اس طوالت کا خاتمہ کسی نہ کسی بھیانک نتیجے پر ہوتاہے۔بد تمیزی میں بھی ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں رہی ۔ ہم بزرگوں کے احترام تک کوبھلا بیٹھے ہیں۔ اب تو ماں باپ بھی اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں اُلٹا اُنہیں ہی نہ سمجھا دیا جائے۔عدم برداشت کی تو حد ہی ختم ہو چکی ہے۔لوکل بس میں سفر کرنے کے دوران بھیڑ کی وجہ سے اگر ایک مسافر کا پاؤں غلطی سے دوسرے مسافر کے پاؤں کے اوپر آ جائے تو اس قوم پر فرض ہو جاتا ہے کہ اُس کے معذرت کرنے سے پہلے پہلے اُس کی طبیعت صاف کر دی جائے۔ اگر بات توں تکار سے آگے نکل جائے تو اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اُسے یہ بھی بتا دیا جائے کہ جس کے ساتھ یہ بد تمیزی کی گئی ہے اُس کی پہنچ کہاں تک ہے۔ اگر کسی کو خوش قسمتی سے سیٹ مل جاتی ہے تو لازم ہے کہ وہ آرام اور سکون سے سفر کے مزے لے۔ اس بات کی کوئی پروا نہیں ہونی چاہئیے کہ اُس کے قریب کوئی ضعیف ، بزرگ یا کوئی خاتون کھڑے ہو کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر اُنہیں بیٹھ جانے کی پیشکش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ایسا رویہ اپنایا گیا تو ہم مہذب لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ مہذب لوگ بڑے حساس ہوتے ہیں۔۔۔

اگر کوئی آپ کے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینک جائے ۔تو اس بات کو درگزر کرنا تو در کنار آپ پر لازم ہے کہ آپ وہی کوڑا اُٹھائیں۔ اُس میں اپنے گھر کا کوڑا شامل کریں اور واپس اُسی ہمسائے کے گھر کے سامنے پھینک دیں۔ اس گستاخی کی سزا کم از کم یہی ہونی چاہیے۔ گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے بچے جب تک آپ کو دیکھ کر سہم نہیں جاتے ۔آپ اپنے علاقے کے اُن لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتے جو خود کو عزت دار اور عوام کے خادم سمجھتے ہیں۔ آپ نے اپنے ہمسائے کے بیٹے سے اس بات کا انتقام بھی لینا ہے جو اُس نے پچھلے اتوار آپ کو سائیکل کی ٹکر مار کر تھوڑا سا زخمی کر دیا تھا۔اور وہ دوسرے دن اپنے باپ کو ساتھ لے کر آپ سے معافی مانگنے آپ کے گھر پہنچ گیا تھا۔ اگر آپ اُسے معاف کر دیتے تو آپ بھی مہذب لوگوں میں شامل ہو جاتے جبکہ مہذب لوگ بڑے حساس ہوتے ہیں۔۔۔

آپ کا پچھلے ماہ بجلی کے بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کنیکشن کٹ گیا تھا۔ اور آپ نے لائین مین سے مل ملا کر کنڈیاں لگا لیں تھیں ۔یہ کنڈیاں ابھی تک موجود ہیں اور نہ جانے آپ کب تک اس مالِ مفت سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے۔آپ نے کئی سالوں سے بینک سے قرضہ بھی لے رکھا ہے جس کی ابھی تک آپ نے ایک قسط بھی ادا نہیں کی ۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے آپ نے اپنے بڑے بیٹے کو سرکاری نوکری دلانے کے لیئے پانچ لاکھ روپیہ بطور رشوت بھی ادا کیا تھا ۔ اگر آپ یہ سب کچھ نہ کرتے تو آپ بھی مہذب لوگوں میں شامل ہو جاتے جبکہ مہذب لوگ بڑے حساس ہوتے ہیں۔۔۔

یہ صرف فرد واحد کا مسئلہ نہیں ہے ہم سب اس مسئلے کا شکار ہیں اور اپنے آپ کو مہذب ہونے سے محفوظ رکھنے کی کہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں میں ہزار ہا خامیاں تلاش کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ جبکہ ہمیں اپنی ایک ہزار ایک خامی بھی نظر نہیں آتی۔ ہم دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیئے سر توڑ کوشش کرتے ہیں جبکہ دوسروں جیسا بننے کی ذرا بھی کوشش نہیں کرتے۔ ہم احسان فرا موش بھی ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی کو بھی بہت جلد بھول جاتے ہیں۔کیوں کہ ہم بے حسی کا شکار ہیں ۔ ہم ہر بُرے کام میں پہل کرتے ہیں اور اچھے کام کرنے کے لیئے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے ہیں۔ہم بار بار ٹھوکر کھانے کے عادی ہیں اور ہر بار اُنہیں لوگوں پر بھروسہ کر لیتے ہیں جنہوں نے ہمیں ماضی میں کئی بار دھوکہ دیاہو۔

ہم اپنے پاؤں پر آئے ہوئے دوسرے مسافر کے پاؤں کو برداشت نہیں کر سکتے مگر چار چار گھنٹے کی مسلسل لوڈشیڈنگ اور دن دُگنی اور رات چوگنی مہنگائی کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتے ہیں۔ ہمارے اندر اتنی بھی برداشت نہیں ہے کہ ہم اپنے ہمسائے کی چھوٹی سی غلطی کو برداشت کر لیں لیکن ہم اُنہیں برداشت کر لیتے ہیں جو ہمارا جینا محال کیے رکھتے ہیں۔ہم اُنہیں اپنا مسیحا مان لیتے ہیں جو ملک قوم کے سرمائے کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ لیتے ہیں۔ ہم نے اُن کو بھی معاف کر دینا ہوتا ہے جو غیروں سے ہماری زندگیوں کے سودے کرتے ہیں اور اپنی ہی بیٹیوں کو مجرم بنا کر غیروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔یہ سب کچھ ہم اس لیئے کرتے ہیں کیونکہ نہ تو ہم مہذب ہیں اور نہ ہی حساس۔ اگرہم مہذب ہوتے تو ہم حساس بھی ہوتے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور ذیادتی کے خلاف آواز بھی اُٹھاتے۔ مل کر احتجاج بھی کرتے اور ان چور لُٹیروں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ۔۔۔ لیکن!!!۔۔۔ہم ایسا نہیں کر سکتے۔کیونکہ مہذب لوگ بڑے حساس ہوتے ہیں۔اپنے اُوپر ہونے والے ظلم اور ذیادتی کے خلاف آواز نہ اُٹھانا ہماری بے حسی ہوتی ہے یا مجبوری۔۔۔ ؟؟؟
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100131 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.