پاکستان میں تہذیب و ثقافت جو مسائل میں گھری ہوئی ہے

تہذیب و ثقافت ،جس کے لئے ہمارے ہاں انگریزی کا لفظ "کلچر" عام استعمال میں آتا ہے۔ثقافت یہ عربی کے لفظ ث ق ف مادہ سے ہے۔ اس کے لغوی معنی پالینا،سیدھا کرنا وغیرہ کے ہیں۔فارسی میں اس کی جگہ عموماٖ شائستگی کا لفظ ہوتا ہے اور یہ فارسی لفظ اردو زبان میں بھی موجود ہے۔لیکن اردو میں لفظ ثقافت آگیا ہے۔

"تہذیب "سے مراد انفرادی و اجتمائی'ذوقی واخلاقی اور معاشرتی رویے و اجتماعی عادات' وسیع تر معنوں میں اس مین فنون بھی شامل ہونگے اور علوم بھی اور عادات واخلاق بھی' معنوی لحاظ سے شاید لفظ تہذیب ہی کلچر کا قریبی مترادف ہے۔ تہذیب کسی تمدن کے آزادانہ نشو و نما پانے والے حصہ یا رخ کو کہتے ہیں۔

مطالبہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی ظاہری اور وقتی وجہ کچھ بھی ہو لیکن اس کی اصولی، گہری اور مستقل وجہ یہی تہذیب و ثقافت کا اختلاف تھا۔جس کی وجہ سے معاشی اور سیاسی اختلاف پیدا ہوئے۔ مسلمانوں میں ایک ایسا معاشرتی احساسِ علیحدگی تھا جو مذہب کے عقائد و تصورات سے ابھرا تھا۔ غرض معاشرتی یاوسیع تر ثقافتی محرکات کا قیام پاکستان میں موثر ترین حصہ تھا۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں جس قسم کی ثقافت کے مظاہر نمایاں ہوئے۔ان میں پردہ داری کا خاتمہ،تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم، لباسوں میں حیا داری کے طریقوں کا زوال ، مغربی انداز کی تفریحات، بے مقصد فلموں کا رواج،اعلٰی معیارِ زندگی کے لئے مجنونانہ تگ ودو، نوجوانوں میں نظم و ضبط اور اخلاق کا فقدان شامل ہے۔اولوالعزمی، بے غرضی، ایثار،بلند مقاصد حیات کے لئے جانفشانی اور جدوجہد تقریبا ہمارے معاشرے سے ختم ہے۔

ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کا غلبہ جب حقیقت ہے تو مغربی کلچر کیوں حقیقت نہیں؟ پاکستان کی دقت یہ ہے کہ اسے ایک نظریاتی مملکت کہا جاتا ہے۔یہ نظریہ اسلامی عقائد پر مبنی ہے۔اسی لئے قدرتی طور پر مغرب کے معاشرتی رویوں کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام کے معاشرتی عقائد کے ساتھ ان کا نباء کس طرح ہوگا۔

یہاں پہنچ کر کئی موقف سامنے آئے ہیں ایک یہ کہ اسلام کا اپنا کوئی کلچر نہیں، دوسرا یہ کہ مغربی کلچر ہے، اسلامی کلچر ہے، تیسرے یہ کہ کلچر ایک آزاد عمل ہے۔اس پر کوئی پابندی نہیں۔یوں دیکھئے تو نظری طور پر پاکستان میں کلچر کے محاذ پر انتشار پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں کلچر کے محاذ پرعملی طور سے مختلف دھارے متصادم ہو کر اور کہیں باہمی مفاہمت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک دھارا ظاہر کا ہے۔جو آہستہ آہستہ اوپر کے اور درمیانے طبقہ پر تقریبا غالب آچکا ہے۔ دوسرا دھارا دیہات میں بسنے والے لوگوں کی طرز زندگی کا ہے جو قدیم انداز میں بہہ رہا ہے۔ تیسرا دھارا شہروں میں بسنے والے نچلے درجہ کی متوسط آبادی کی زندگی میں ہے۔جہاں مشرقی اور مغربی مظاہر میں متصادم ہے۔

اس لحاظ سے پاکستانی تہذیب و ثقافت کا کوئی انفرادی نقش ابھی قائم نہیں ہوسکا۔ لیکن اس میں مغربی آہنگ نظر آرہا ہے اور موجودہ زندگی سے پرانے نقوش مٹ رہے ہیں یا مٹائے جا رہے ہیں اور یہ عمل جدید تر اور جدید ترین تعلیم یافتہ لوگ کر رہے ہیں اور لطف یہ ہے کہ ان کے دعوے بدستور یہ ہیں کہ ہم دنیا بھر کی اقوام سے (خصوصا ہندووں) سے جدا قوم ہیں۔

افسوس ہے کہ اس مسئلے پر کوئی غور نہیں کرتا نہ ہی حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی خاص منصوبہ کے تحت ایک نفسیاتی مرحلہ بندی سے انفرادیت کی دیواریں گرائی جارہی ہیں اور اس کی جگہ نئے نشانات لگائے جا رہے ہیں۔اس ثقافتی ادغام کی طرف پہلا قدم موجودہ یورپین طرز احساس اور وضع زندگی ہے۔ اس کے سایہ میں دوسرے نشانات بھی بتد ریج لگ رہے ہیں۔

میں یہاں یہ عرض کر دوں کہ ثقافت صرف خارجی مظاہر کا نام ہے۔ نہ یہ عادات کا صرف خارجی روپ ہے۔ ہر ثقافت کی ایک داخلی روح ہوتی ہے۔ تاکہ قومی ثقافت کے لہجے میں کوئی انقلاب رونما نہ ہو۔ ثقافت دراصل افکار و عقائد کے تابع ہے۔ اس لئے اگر رنگ ثقافت کو بدلنا مقصود ہے تو روح افکار میں تبدیلی پید کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

میرے خیال میں ہمارے ملک میں تین اہم امور پر توجہ ہونا چاہئے۔ ان میں پہلی چیز نیکی اور بدی کے درمیان فرق کرنے کا شعور ہے۔ جس کی بنیاد انسانی شرافتوں کی حفاظت کے عقیدہ پر قائم ہے۔
دوسری چیز جس کی اس ملک کو بے حد ضرورت ہے وہ اس خیال کی تربیت کہ وفاداری کا رشتہ انفرادی اور اجتماعی آسائش اور ترقی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔

یہاں وفاداری سے مراد اپنے ملک، دین، شہر، عیال، احباب سے اور اپنے آپ سے وفاداری ہے۔ہمارے ملک میں جب سے بغاوت کا غلط تخیل پیدا ہوا ہے ۔ اس وقت سے غداری، بے رحمی، بے دردی وغیرہ جیسے امراض زیادہ ہورہے ہیں۔

اب تیسری چیز جس کے لئے ذہنی تربیت کی ضرورت ہے وہ ہے سلیقہ شہرت۔اس میں تمام وہ اجتماعی آداب اور عادات شامل ہیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کو حسین بنا سکتی ہیں۔افسوس ہے کہ اس سلیقہ کی بھی اس ملک میں بہت کمی ہوتی جا رہی ہے اب اس کی جگہ کھردراپن پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اور آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ یہ کھردرا پن سب سے زیادہ تعلیمیافتہ لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

یہ سب امور قابل غور ہیں۔ ان کی تکمیل میں ملکی ثقافت کے غلط رجحانات کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ نئی پود کے مسائل کو محبت اور دلسوزی کے انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائے۔تاکہ پاکستانی تہذیب و ثقافت کی آخری دیوار بھی ان کے ہاتھ سے نہ گر جائے۔

بہر حال صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہر کسی میں اسلامی زندگی کے بارے میں صحیح تصور پیدا کرنا چاہئے۔اس سلسلہ میں غلطی ان لوگوں کی ہے جو اسلامی زندگی کا بعض اوقات ایسا تصور دیتے ہیں کہ اس سے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب پاکستانیوں کواسلامی نظریے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق فرمائے۔آمین۔