سید قطب پر علماء حق کی رائے - ١

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شیخ البانی رحمہ اللہ سے سید قطب مصری کے حوالہ سے پوچھا گیا اور انکی کتب کے پڑھنے کے بارے میں مختلف سوالات کۓ گیے، اس پر شیخ البانی نے فرمایا، مفہوم:

کے یہ (سید قطب) ایک علم دوست طریقہ پر نہیں. میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ علم نہیں رکھتا تھا، اور یہ کافی ہے. اور آپ کیا چاھتے ہیں؟ اگر آپ یہ چاھتے ہیں کہ میں اس پر تکفیر کروں تو میں یہ نہیں کروں گا اور آپ بھی نہیں کر سکتے. اور میں یہ گواھی دیتا ہوں. مگر اتنا کافی ہے اور عدل اور غیر متعصب مسلمان ہر کسی کو اسکو حق دے. جیسا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ

اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت دو اور روئے زمین میں، اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی، فساد مت پھیلاؤ،

(حوالہ: سورۃ الاعراف سورۃ نمبر: 7 آیت: 85)

وہ صرف ایک لکھنے والا تھا. وہ اسلام کا شوق رکھتا تھا. مگر وہ علم نہیں رکھتا تھا اور اسکی کتاب العدالہ الاجتماعیۃ اسکی کتابوں میں سے پہلی کتاب تھی. وہ صرف ایک (عام سا) لکھنے والا تھا جب اسنے یہ لکھی. مگر درحقیقت اسنے اپنے لکھنے کو بہتر کیا جب وہ جیل میں تھا اور اسنے سلفی طریقہ پر چند کتب لکھیں. میں سمجھتا ہوں کہ جیل سکھاتا ہے کچھ انسانوں کو جگاتا ہے. یہ کافی ہے کہ اسنے ایسا عنوان لکھا:

"لا الہ الا اللہ منحج حیات"

اگر وہ توحید الوھیہ اور توحید ربوبیہ میں فرق نہیں کرتا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسے فہم نہیں اور انکو ایک ہی سمجھتا ہے.نہیں،اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ علم نہیں رکھتا اور عالم نہیں ہے اور وہ شریعہ کے طریقہ پر بیان نہیں کرسکتا جو کہ قرآن وسنۃ میں بیان ہے، یہ اسلیے کہ وہ عالم نہیں.

اسکو رد کرنے کے معاملہ پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا،مفہوم:

جی ہاں، انکو حدود کے اندر رھتے ہوۓ رد کرنا چاھیے نہ کہ سرگرمی سے. انکو رد کرنا چاھیے. یہ واجب ہے. غلطیوں کا رد کرنا کسی ایک فرد یا افراد تک محیط نہیں بلکہ اسکا تعلق ہر غلطی کرنے والے سے ہے. ہر وہ شخص جو اسلام کی بات کرے اور اسمیں بدعات اور نیے طریقے ہوں جن کی قرآن والسنۃ اور سلف اور 4 اماموں کے (برخلاف) مختلف طرز پر کیا جاۓ، تو اسکو رد کیا جاۓ گا. لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ھم دل میں اس پر دشمنی رکھیں.اور ھمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاھیے کہ اسکا ایک اچھا رخ بھی تھا.یہ بات کافی ہے کہ وہ ایک مسلمان تھا اور اسلامی تحریر کنندہ جس نے اپنے طریقہ پر اسلام کو سمجھا اور اپنی دعوت میں فوت ہوا. جنہوں نے اسکو قتل کیا وہ اسلام کے دشمن تھے. اور وہ زیادہ یا کم اسلام سے بھٹک گیا تھا، ہر دفعہ جب اسکے بارے میں بات کی جاتے ہے تو مقامی اخوان المسلمین والے مجھ پر سید قطب کی تکفیر کا الزام لگاتے ہیں اور یہ کہ میں نے کچھ لوگوں کو بتایا ہے کہ وہ وحدۃ الوجود کے مطابق بولتا ہے اپنی چند کتب میں.

لیکن میں اس کے باوجود اسکا انکار نہیں کرتا کہ وہ ایک مسلمان تھا، اور وہ اسلام کے لیے نظر رکھتا تھا اور مسلمان نوجوانوں کے لیے اور وہ اسلام کا نفاظ چاہتا تھا ایک مسلمان ملک میں. اگر چہ، اس نے اسکے لیے طریقہ غلط چنا.

کیا اسکی کتابوں پر تنبیہ کی جاۓ؟

اس پر الشیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا، مفہوم:

‏(ہر) اسکے متعلق تنبیہ کی جاتی ہے جو اسلامی فقہ پر نہ ہو.

https://www.youtube.com/watch?v=aRHt4hE7zDY

سید قطب پر الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کی رائے

الشیح عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ سید قطب نے اللہ کے ارشاد 'الرحمن علی العرش استوی' کے بارے میں الزلزال میں کہا، مفہوم:

"جہاں تک کہ استوی علی العرش ہے، تو ھم یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ایک استعارہ ہے اسکی طاقت کا اپنی مخلوق پر"

(حوالہ: الزلزال 4/2328 ،6/3408 بارواں ایڑیشن،دارالعلوم)

اس پر الشیح ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:

"یہ محظ بیکار بات ہے کہ اسکا مطلب ہے اللہ کی طاقت. اس نے استوی کا اقرار نہیں کیا یعنی اسکا انکار، جو کہ معلوم ہے یعنی اسکا (اللہ کا) عرش پر (اپنی شان کے مطابق) مستوی ہونا. (جو سید قطب نے کہا) یہ بیکار ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تفسیر میں مفلس تھا اور اس میں گما ہوا تھا."

اس محفل میں موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسکی تفسیر کو پڑھنا چاھیے اسپر الشیح ابن باز رحمہ اللہ نے کہا، مفہوم:

"جو اس نے کہا ہے غلط ہے. نہیں! غلط ہے. جو اس نے کہا غلط ہے اگر اللہ نے چاہا تو ھم عنقریب اس بارے میں لکھیں گے."

اسی سبق میں الشیح ابن باز رحمہ اللہ کو سید قطب کی "التصویر الفانی فی القرآن" میں سے کچھ عبارات پڑھ کر سنائ گئیں مثلا سیدنا موسی سے (نقل کفر، کفر نہ باشد) متعلق مفہوم:

"ہم مثال لیتے ہیں موسی علیہ السلام کی جو ایک جلد باز طبیعت کے تھے، اور جب یہ جلد بازی کی لہر ان سے (چلی) جاتی تو وہ اپنی اسی کیفیت میں آ جاتے، جیسا کہ جلد باز لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے"


پھر سید قطب نے اللہ کے فرمان: "فاصبح فی المدینۃ خآئفا..." (سورۃ القصص، سورۃ نمبر: 28 آیت: 18) کے بارے میں کہا، مفہوم:

"یہ ایک وضاحت ہے ایک کیفیت کی، جلد باز اور ایک شخص جو ہر موڑ پر برائ کی امید رکھے، اور یہ خاصیت ہے جلد باز لوگوں کی."

(حوالہ: التصویر الفانی فی القرآن صفحہ: 200،201،203 تیرواں اڈیشن)

اس پر الشیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا مفہوم:

"پیغمبروں کی استہزاء کرنا (بزات خود) ردہ (ارتداد) ہے"

پھر الشیح ابن باز رحمہ اللہ سے کہا گیا الشیح ربیع (حفظہ اللہ) نے سید قطب پر رد لکھا ہے تو آپ رحمہ اللہ نے کہا، مفہوم:

"اس کو رد کرنا اچھا ہے"

(حوالہ: شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے اسباق کے دوران انکے گھر میں،1413 ہجری، منحج السنۃ ٹیپس) واللہ اعلم.

(بہتر سمجھ کے لیے اکثر جگہوں پر بریکٹ کے الفاظ میں نے خود لگائیں ہیں، کسی غلطی پر اللہ عز وجل معاف فرماۓ، آمین) واللہ اعلم.



https://www.youtube.com/watch?v=fVaVMwOhs4Q

شیخ ابن باز رحمہ اللہ - سید قطب کی کتابوں پر،

مفہوم:

سید قطب کی ایک کتاب "کتب و شخصیات" صفحہ 242 کا کچھ حصہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو پڑھ کر سنایا گیا جس میں سید قطب سیدنا معاویہ اور سیدنا امر بن العاص (رضی اللہ عنہما) پر جھوٹ بولنے کا، دغا بازی کرنے کا، بے وفائ کرنے کا، نفاق کا اور رشوت کا الزام لگاتا ہے، اس پر شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:

"یہ انتہائ ناگوار الفاظ ہیں! سیدنا معاویہ اور سیدنا امر بن العاص کو ملامت کرنا ہے. یہ تمام ناگوار اور شیطانی قول ہے، سیدنا معاویہ اور سیدنا امر بن العاص اور جو بھی ان کے ساتھ تھے (رضی اللہ عنہم) انہوں نے اجتہاد کیا اور چوک گۓ"

(شیخ صالح فوزان نے اس پر کہا، مفہوم:

انہوں نے غلطی کی یہ ظاھر نہیں بلکہ وہ اجتہادی تھے انہوں نے اجتہاد کیا، اگر وہ صحیح تھے تو انکو دو اجر ملیں گے اور اگر غلط تو ایک اجر اور (اجتہاد کرنے میں) انکی غلطی معاف ہے اسطرح کہنا زیادہ صحیح اور انصاف تھا.)

شیخ ابن باز کا قول جاری، مفہوم:

"اور جو لوگ اجتہاد کرتے ہیں اور چوک جاتے ہیں تو اللہ ھمیں اور انہیں معاف فرماۓ. سوال کرنے والے نے پھر کہا: اس قول کا کیا کہنا ہے کہ ان دونوں میں نفاق ہے/تھا، کیا یہ تکفیر نہیں؟ شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:

یہ ایک غلطی اور چوک ہے اور کفر نہیں. اسکا ایک صحابی کو ملامت کرنا یا زیادہ کو ملامت کرنا ایک منکر اور فسق ہے. اور وہ یہ ایک حق رکھتا ہے کہ اسپر اسکو ایک مثالی سزا دی جاۓ. سوال کرنے والا: تو اسپر صحابہ کو ملامت کرنے پر ارتداد نہیں؟

اس پر شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا مفہوم:

اسکو ایک مثالی سزا دی جانی چاہیے. اگر وہ زیادہ تر پر ملامت کرتا ہے اور انکو گناہ گار جانتا ہے اس پر ارتداد ہوگی کیونکہ وہ (صحابہ) وحی (قرآن والسنۃ) کو لے کر چلنے والے ہیں، تو وہ ان پر ملامت کرتا ہے تو وہ قانون (قرآن و السنۃ) پر ملامت کرتا ہے. سوال کرنے والے نے پوچھا: کیا یہ کتب ممنوع نہیں ہونی چاھیں جن میں یہ اقوال موجود ہیں؟ شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:

یہ ضروری ہے کہ انکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں

حوالہ: کیسیٹ شرح ریاض الصالحین بتاریخ 18.7.1418 ھجری واللہ اعلم

https://www.youtube.com/watch?v=UaMJbNqfrQE
 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 408730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.