پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کی کوششیں

پاکستان ان دنوں پولیو کے خاتمہ کی عالمی کوششوں کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے اگرچہ اس ملک میں اس سال پولیو کے100سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں لیکن یہ تعداد دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور کر دینے والی اس بیماری کا خاتمہ پاکستان میں ایک بڑا لاجسٹیکل آپریشن ہے جس میں کم و بیش دو لاکھ پولیو ورکرز ہرسال کئی بار حصہ لیتے ہیں تاکہ لاکھوں بچوں کو پولیو قطرے پلا کر انہیں مہلک بیماری سے بچایا جا سکے۔حکومت بھی پولیو ورکرز کی سیکورٹی کے لیے ہزاروں مسلح سیکورٹی اہلکار تعینات کرتی ہے۔ اب بھی پشاور میں پولیومہم میں جاری ہے ۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان طالبان کے ساتھ مصروف جنگ ہے۔یہ جنگجو گروپ پولیو ورکروں اور بچوں کے والدین کو پولیو قطرے پلانے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔پاکستان کو اس پولیو مہم کی لوگوں کے جانی و مالی نقصان ،ملکی وقار اور قیمتی وسائل صحت کے ضیاع کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

پاکستان اس وقت حیران کن طور پر پولیو سے متاثر ہ دس مملک میں سر فہرست ہے ۔ رواں سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں پولیو کیسز کی سب سے زیادہ تعداد ریکارڈ کی گئی ۔کم از کم108 کیس منظر عام پر آئے جن میں چار ویلڈ ٹائپ کیس شامل ہیں۔افغانستان دوسرے نمبر پر ہے ۔پولیو کے خاتمہ کی عالمی تنظیم(GPEI)کے تازہ ترین اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے 93 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ اس سال اس تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جب کہ سال کا ابھی ایک ڈیڑھ مہینہ باقی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے حکام اور ان کی معاون تنظیمیں پاکستان میں پولیو کیسز کی اتنی بڑی تعداد کی ذمہ دار ہیں۔وہ ملک سے پولیو وائرس کے خاتمہ میں سنجیدہ نہیں ہیں حالانکہ انہیں بھاری تنخواہیں ملتی ہیں لیکن اہلکار اپنے فرائض ایمانداری سے انجام نہیں دیتے ۔مہلک بیماری کے خلاف جنگ کے نام پر رقوم ہضم کی جارہی ہیں۔ اگر یہ لوگ سنجیدہ ہوتے تو وہ آئی ڈی پیز کے لیے پولیو مہم رمضان میں شروع نہ کرتے ۔فیلڈ ورکرز حفاظتی ٹیکے لگانے والے ٌ انکولیٹرز) بنوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں گرمی کے باعث اپنی ڈیوٹیاں صحیح طور پرانجام نہیں دیتے۔حکومت کو آئی ڈی پیز کے لیے انسداد پولیو مہم مسلسل جاری رکھنی چاہیے تھی کیونکہ آئی ڈی پیز بچوں کو پولیو قطرے پلانے کایہ سنہری موقع ہے جو پچھلے تین سالوں سے پولیو ٹیموں کے لیے ناقابل رسائی رہے ہیں۔وزیراعلی پولیو مانیٹرنگ سیل کے ترجمان ڈاکٹر امتیاز خان کاکہناہے کہ پاکستان میں پولیو کیسز کی زیادہ تعداد کی بڑی وجہ ان علاقوں تک عدم رسائی ہے جو پولیو وائرس سے زیادہ متاثر ہیں۔پولیو کے تازہ ترین کیسز فاٹا میں رپورٹ ہوئے ہیں جہاں بچوں کو گزشتہ تین سالوں کے دوران ویکسی نیشن پرجنگ جوؤں کی پابندی کی وجہ سے پولیو قطرے نہ پلائے جاسکے۔پاکستان اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے لیکن پولیو کے خلاف ایمر جنسی ڈکلئیر کرنے کے باوجود پولیو کے خلاف اپنی جنگ بظاہرر رہا ہے۔اس سال کے شروع میں عالمی اداروں صحت نے پاکستانیوں کے بیرون سفر پر پابندی لگادی تھی اب کوئی بھی پاکستانی پولیو سر ٹیفکیٹ کے بغیر انٹرنیشنل فلائٹ پر سفر نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے پولیو وائرس کے خاتمہ کی مہمیں چلائی ہیں۔ بچوں کو گھر گھر جا کر قطرے پلائے گئے ہیں۔ لاری اڈوں،بس سٹاپوں،تفریح گاہوں پارکوں وغیرہ میں بھی بچوں کو پولیو قطرے پلانے کے ا نتظامات کیے گئے تاکہ کوئی بچہ پولیوقطروں سے رہ نہ جائے ۔اس کے باوجود بہت سے بچے کسی نہ کسی وجہ سے پولیو قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں۔پولیو کا وائرس ایسا ہے کہ یہ اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے اور گھنٹوں میں بچے کو عمر بھرکے لیے اپاہج بنادیتا ہے۔گزشتہ سال ملک بھر میں پولیو کے 198کیس منظر عام پر آئے تھے ۔ دنیا میں پولیو کیسز کی یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کی کوششیں مذہبی ثقافتی تنازعات کی بھینٹ چڑھتی رہی ہیں۔ بعض لوگوں نے ویکسین کو حرام قرار دیا ۔ پولیو قطروں کے مخالفین نے پولیو مہم کو روکنے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈے استعمال کیے جو ان کے بس میں تھے ۔حالانکہ ممتاز مذہبی شخصیات وضاحت کر چکی ہیں کہ پولیو قطروں میں کوئی غیر اسلامی چیز شامل نہیں ہے اور نہ پولیو قطروں کو پلانا حرام ہے۔اس کے باوجود طالبان نے مذہبی بنیادوں پر پولیو ویکسین پلانے کی مخالفت کی اور پولیو ٹیموں پر حملے کر وائے جس کے نتیجہ میں کئی پولیو کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے۔اور پولیو ٹیموں نے ان علاقوں میں جانا بند کردیا جہاں ان کی جان کو خطرات لاحق تھے۔ طالبان نے اپنے فتووں کے ذریعے اسے امریکہ کی چال اور مسلم آبادی کو بانجھ بنانے کی کوشش قرار دیا ۔جس کی وجہ سے بعض قبائلی علاقوں میں پولیومہم کابائیکاٹ کیا گیا اور پولیو ٹیموں کو گھروں کے اندر آنے سے روک دیا گیا۔

مجموعی طور پر ملک میں پولیو قطرے پلانے کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اکثروالدین اپنے بچوں کو پولیو قطرے باقاعدگی سے پلاتے ہیں اور حکومت نے بھی ہر طرح کی سہولیات مہیا کر رکھی ہیں ۔جس سے پولیو کے مرض پر قابو پانے میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔فنی ماہرین،مقامی این جی او اور سول سو سائٹی کے متحرک افراد جن میں چند سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں پولیو مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں اور بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور بنا دینے والی بیماری کے خلاف جدوجہد کو تقویت پہنچا رہی ہیں ۔پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کے نئے چیمپئین کے طور پر ابھرے ہیں۔ وہ پولیو کے خاتمہ کے لیے قائم پرائم منسٹر مانیٹرئنگ اینڈکو آرڈنیشن سیل کے علاوہ پولیو کے خاتمہ کی قومی مہم ، روٹری کلب یونیسف اور عالمی ادارہ صحت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے کیونکہ شاہد آفریدی کی اپیل پر خطر علاقوں میں جادوئی اثر دکھا سکتی ہے۔دیہی علاقے میں پولیو بارے عوامی شعور بڑھنا کی بھی ضرورت ہے۔ پولیو کے خاتمہ کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پولیو پروگرام پہلے 12 سالوں میں تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ 2005میں تنظیم نے رپورٹ دی کہ اس سال صرف28 پولیو کیس درج ہوئے جن کی 1990کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں تعداد20 ہزار سالانہ کے لگ بھگ تھی۔تنظیم نے جون2012 کی اپنی رپورٹ میں لکھاکہ پاکستان اپنی منزل کو تیزی سے پالے گا۔پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کی کوششیں نہ صرف حکومتی و معاشرتی تنازعات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل نے بھی اسے نقصان پہنچایا ہے۔بہرحال پاکستان کو پولیو کے خاتمے کیلئے پولیو مہمات کوجارحانہ انداز میں چلانے کے علاوہ ان کی کڑی نگرانی ، اعدادو شمارکو درست رکھنے اورپولیو ویکسین کی سیفٹی کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.