تفریحی مقامات یا بے حیائی کے ٹھکانے

ہمارے معاشرے میں اس وقت فحاشی اور بے حیائی نے بڑا نام کمایا ہوا ہے۔ اسکی ایک وجہ کیبل نیٹ ورک ہے ۔ہمارے کیبل نیٹ ورک پر انڈین چینلز کا راج ہے۔ اگرکہیں پر 100چینلز دکھائے جارہے ہیں تو ان میں 80چینلز انڈین ہونگے اور باقی پاکستانی۔ اب تو پاکستانی چینلز بھی انڈین ڈرامے اور فلم دکھا رہے ہیں۔ان فلموں اور ڈراموں میں بے تحاشا کی بے حیائی بھری ہوئی ہے۔ جس سے ہماری نوجوان نسل بے حیائی کی طرف راغب ہے۔اس بے حیائی کی وجہ سے ہر روز اخبارات میں نت نئی خبر پڑھنے کو ملتی ہے۔ کبھی کسی سکول میں، کبھی کسی محلے میں اور کبھی کوئی پیر صاحب اپنے مریدنی کو درندگی کا نشانہ بنارہے ہیں تو کہیں پر چھیڑ خانی کرنے پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس وقت عورت کی حفاظت کے بجائے اسکی تذلیل کی جارہی ہے۔ ہمارے اسلام نے عورت کو جو مقام دیا آج اس کی نفی کی جارہی ہے۔

پاکستان بھر میں حکومت نے بہت سے تفریحی مقاما ت بنائے ہوئے ہیں ۔ جہاں پر دور دراز علاقوں سے لوگ آتے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان تفریحی مقامات پریاتو سیکورٹی انتظامات ہوتے نہیں اور اگر ہوتے ہیں توبہت ناقص ہوتے ہیں۔ سیر و سیاحت کے حوالے سے مجھے لوگوں نے بتایا کہ شاہی قلعہ، مینارپاکستان سمیت لاہور کے دیگر تفریحی مقامات پر سکولوں، کالجوں کے علاوہ اور بہت سے آوارہ لڑکے آوارگی کرتے نظرآتے ہیں ۔بجائے سکول یا کالج جانے کے وہ اپنے بیگ کے ہمراہ ان تفریحی گاہوں میں بے مقصد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی شریف انسان تو اپنی فیملی کو اس طرف لے جانا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔

میں نے ان کی باتوں مدنظر رکھتے ہوئے ان تفریحی مقامات کادورہ کرنے کا فیصلہ کیااور چند دوستوں کے ساتھ ان مقامات کی سیر کے لیے پہنچ گیا۔ جس وقت میں اپنے دوستوں کے ہمراہ شاہی قلعے میں داخل ہوا ا تو اسے دیکھ کر شاہی دور کی یادتازہ ہوگئی جس کے متعلق ہم نے کتابوں میں پڑھا ہوا تھا۔ میں شاہی قلعے کی سیر کم اور ادھرکے ماحول کا بغور مطالعہ کررہا تھا ۔ میں سیر سے زیادہ ان لوگوں کا متلاشی تھا جو اس خوبصورت قلعے کی خوبصورتی پر بدنما دھبہ لگارہے ہیں اور پھر میں نے حقیقت میں دیکھ لیا کہ کالجوں اور سکول کے طالب علم اپنے کاندھوں پر بیگ لٹکائے ادھر ادھر گھومتے پھر رہے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے تو کوئی ٹیبلٹ لیے ہوئے تھا۔ چند ایک تو لیپ ٹاپ لیے بیٹھے تھے۔ ان کے کیمرے آن اور ہر آنے جانے والے (خاص کر لڑکیوں) کی تصاویر بنا رہے تھے۔ میں یہ سب کچھ شاہی قلعے میں دیکھنے کے بعد مینار پاکستان کی طرف چلا گیا۔ شاہی قلعے میں ٹکٹ ہونے کی وجہ سے یا شائد چاروں طرف باونڈری ہونے کی وجہ سے نوبت یہاں تک تھی مگر مینار پاکستان پر تو اﷲ کی پناہ۔

میں نے دیکھا اوباش نوجوان زمین پر لیپ ٹاپ رکھے ہوئے ہیں۔ سامنے ان کے سکول یا کالج بیگ ہیں اور وہ بڑے مزے سے کیمرے کی آنکھ سے لڑکیوں کی تصاویر بنارہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ یہاں کیا کررہے ہیں ؟ تو بولے ہم تو اپنا کام کررہے ہیں اور جلد ہی اپنی فرضی فائل اوپن کرلی۔ خیر میں ان سے پوچھ گچھ کرکے آگے جھولو ں کی طرف بڑھا تووہاں ایک ایسا سین دیکھا کہ دل خون کے آنسو بہانے لگا۔ وہاں پر چند لڑکوں نے جاتی ہوئی لڑکیوں پر فقرے کسنے شروع کردیے جواباً ایک دولڑکیوں نے ان کوگالیاں دینا شروع کردیں تو ان لڑکوں نے اور زیادہ بکواس شروع کردی۔ میں نے جب یہ دیکھا تو خاموش نہ رہا گیا اور میں نے ان کو ایسی حرکت کرنے سے منع کیا تو وہ مجھ سے ہی الجھ پڑھے ۔جب میں ان کو برابھلا کہنے لگا تو ان کی حمایت میں اور چار پانچ لڑکے آگئے اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی دوران موٹر سائیکل پر سوا ر دو پولیس ملازم ادھر پہنچ گئے ۔جب میں نے ان کو بتایا کہ ان لڑکوں نے یہاں سے گزرنے والی بچیوں سے بدتمیزی کی ہے تو بجائے اس کے کہ قانون حرکت میں آتا پولیس والوں نے ان لڑکوں کو ادھر سے بھگا دیا ۔خیر میں معاملہ رفع دفع کرکے آگے کی طرف چلا گیا جب ہم لوگ جھیل کی طرف گئے تو پھر وہی آوارہ لڑکے ادھر آگئے اور پھر سے گالم گلوچ دینا شروع ہوگئے۔ جب میں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب سین دیکھا تو مجھے اُن لوگوں کی بات کا شدت سے احساس ہواکہ واقعی کوئی بھی شخص اپنی فیملی کو ان تاریخی مقامات کی سیر کی طرف نہیں لائے گا۔

عزت تو ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت ایسے آوارہ لوگوں سے ان پارک کو پاک کیوں نہیں کرتی؟ کیا ہماری تعلیم ہمیں یہ ہی سبق دیتی ہے کہ اپنے بہن بیٹی کی عزت کرنے کے بجائے اس کو سر عام رسوا کریں۔ ہم اسلام کا پرچار تو بہت کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔

میرا کالم لکھنے کامقصدیہ ہرگز نہیں کہ اس کو پڑھ کر بس افسوس کیا جائے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور حکام بالاایسی حرکتوں کا سختی سے نوٹس لے اور نہ صرف تفریحی مقامات پر سیکورٹی سخت کی جائے بلکہ ادھر شکایت آفس قائم کیا جائے جہاں پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری ایکشن لیا جاسکے اورایسے واقعات رونما ہونے کی صورت میں آوارہ اور بدچلن لوگوں کو موقع پر سزا دی جائے۔ ان تفریحی مقامات پر لوگ دوردراز سے آتے ہیں اورآوارہ لوگوں کاگروہ مقامی ہونے کے ناطے ان سیاحوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ حکومت کو فی الفور ایسے واقعات روکنے کے لیے سخت سے سخت اقدامات اٹھانے چاہییں تاکہ ان تاریخی مقامات کا حسن مزید دوبالا ہوسکے ۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 211516 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.