کشمیر میں کشمیریت ، جموں میں جمہوریت اور بھارت میں انسانیت

کشمیر کے ریاستی انتخابات کو قومی ذرائع ابلاغ نے وشوہندو پریشد کے رہنما اشوک سنگھل کے احمقانہ بیان سے بھی کم اہمیت دی جس میں سنگھل نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ ۸۰۰ سال کے بعد دہلی پر ایک خوددار ہندوراج کررہا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ درمیانی وقفہ میں دہلی کا کوئی ہندو حکمراں بشمول اٹل جی ،پنڈت جی اور اندرا جی غیرتمند نہیں تھا جبکہ اندرا گاندھی کو اٹل بہاری درگا ماتاکے خطاب سے نواز چکے تھے اور پنڈت نہرو کووہ اپنا پسندیدہ رہنما تسلیم کرچکے تھے۔ سنگھل کی نظر میں چونکہ خود اٹل جی کی خودداری مشکوک ہے تو اندرا اور نہرو کس شمار و قطارمیں آتے ہیں؟ جس دن سنگھل یہ بیان دے رہے تھے نریندر مودی کشتوار میں اٹل جی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا عزم دوہرا رہے تھے ۔ اب کوئی اشوک سنگھل سے پوچھے کہ یہ کیسی خودداری ہے جو کسی بے خود کاسپنا ساکار کرنا چاہتی ہے ۔

انتخاب سے قبل سنگھل نے کہا تھا کہ صرف مودی ہی ہندوستان میں رام راجیہ قائم کرسکتے ہیں جبکہ مودی نے کشمیر میں کہہ دیا کہ سیاست کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ اب اگر ہندودھرم کو راج نیتی سے الگ کردیا جائے تو بھلا ہندو راشٹر کیسے بنے گا؟ اشوک سنگھل نے یہ اعلان بھی کیا تھا ہمارا کام سیاست نہیں ہے بلکہ صرف رام بھکتوں کو کامیاب کرکے پارلیمان میں روانہ کرنا ہے۔ سنگھل نے مزید انکشاف کیا تھا کہ مودی کو کامیاب کرنے کیلئے ۱۵۰۰۰ سادھو سنت میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ رام بھکتوں نے تو مودی کوپردھان منتری بنادیالیکن مودی نےرام بھکتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ آسارام کو جیل سے نکالنے کے بجائے رام پال کو اس کے پاس چکی پیسنے کیلئے بھیج دیا اور اس پر بغاوت کا مقدمہ بھی جڑ دیا۔ سنگھل جی اسے کہتے ہیں راج دھرم جس کا سبق اٹل جی نے نریندرمودی کو گجرات فساد کے بعد پڑھایا تھا۔

اشوک سنگھل کو چاہئے کہ وہ پہلی فرصت میں کہیں سے پرتھوی راج چوہان کی تصویر حاصل کرکے نریندر مودی کو تحفہ دیں ورنہ اگر انہیں کبھی وزیراعظم کے دفتر میں جانے کی سعادت نصیب ہو گی تو شایدوہ غش کھا کر گر جائیں گے اس لئے کہ سنا ہے وزیراعظم کے دفتر میں ولبھ بھائی پٹیل کے علاوہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کی تصویریں بھی لگی ہوئی ہیں ۔ گاندھی جی کو سنگھ پریوار ملک کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اور پنڈت نہرو کو مسلمانوں کی دلجوئی کا مجرم ٹھہراتا ہے۔ ویسے ولبھ بھائی پٹیل بھی نہ تو ہندو مہاسبھا کے آدمی تھے اور نہ سنگھ پریوار سے ان کا کوئی تعلق تھا بلکہ وہ تمام عمر کانگریسی رہے۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد وزیر داخلہ کی حیثیت سے آرایس ایس پر پہلی بارپابندی لگانے کا کارخیر انہیں کے دست مبارک سے انجام پایا۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ اس شخص نے اپنے دفتر میں ان تین کانگریسیوں کی تصاویر سجا رکھی ہیں جو ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ لگا کر انتخاب میں کامیاب ہوا تھا ۔ مودی جی کے اس کانگریسی کرن کا اثر غالباً پر سنگھل جی پر بھی ہوا ہے اس لئے کل تک دھرم پریشد کرنے والے سنگھل فی الحال وشو ہندو کانگریس کا انعقاد کررہے ہیں اور اس میں مودی کےبھجن گا رہے ہیں۔

نریندر مودی کیلئے اس طرح کی منافقت کا مظاہرہ نیا نہیں ہے۔ ؁۲۰۰۷ میں دوسری مرتبہ گجرات کی انتخابی کامیابی کے بعدانڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا میرے لئے مثالی رہنما ’’ویر ساورکر، بھگت سنگھ، سردار پٹیل اور مہاتما گاندھی ‘‘ہیں ۔اس طویل فہرست کے اندر سے نہ صرف سنگھ کے مہاگرو گولوالکر کا نام غائب تھا بلکہ جن سنگھ کے پہلے صدر شیاما پرشاد

مکرجی، پہلے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اورمودی کے دھرم گرو سوامی وویکا نند کا نام بھی نہیں تھا ۔ گاندھی جی کے ساتھ ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو آشیرواد دینے والا ویر ساورکراس میں حیرت انگیز طور پر موجود تھا۔ بھگت سنگھ ملحدانہ نظریۂ حیات کا حامل مجاہدآزادی تھا تو ولبھ بھائی پٹیل کانگریسی سیاستداں۔ یہ چوں چوں کا مربہً اس حقیقت کا مظہر تھا کہ مودی جی کے اندر اپنے دل کی بات ببانگِ دہل کہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔اگر ایسا نہیں ہےتووہ خود کنفیوژ ہیں یا عوام کو دھوکہ دینا چاہتے تھے۔مودی جی کی گاندھی بھکتی پر یہ سید قاسم سجاد کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
جلا کے لوگوں کو باپو تمہاری دھرتی پر
جہاں میں پارسا خود کو بتا رہا ہےکوئی

کشمیرکے حالیہ انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی منافقت بامِ عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ جموں کے اندر دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے ۔ وزیر اعظم کے دفتر میں ریاست جموں کے وزیر جتندر سنگھ فرماتے ہیں کہ بی جے پی کے منشور میں شامل تمام مسائل بشمول دفعہ ۳۷۰ زیرِ بحث آئیں گے۔ اس کے برخلاف ریاستی وزیردفاع سبکدوش جنرل وی کے سنگھ صاف مکر جاتے ہیں اورسرینگر میں اعلان کرتے ہیں کہ بی جےپی نہ دفعہ۳۷۰ کومنسوخ کرنا چاہتی ہےنہ اس میں ترمیم کی خواہاں ہے۔ وادی کے اندر بی جے پی کی امیدوار حنا بھٹ اعلان فرماتی ہیں کے اگر دفعہ ۳۷۰ سے کسی نے چھیڑ چھاڑ کی تو سب سے پہلے وہ بندوق اٹھائیں گی۔ اب بندوق اٹھا کر چلائیں گی بھی یا نہیں یہ تو انہوں نے نہیں کہا اور اگران کے ہاتھوں میں موجودزعفرانی بندوق چلے گی بھی تو کس پر گولیاں برسائے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حنا بھٹ کے دعویٰ پر محبوب اکبر کا یہ شعر معمولی ترمیم کے بعد پوری طرح چسپاں ہو تا ہے کہ ؎
کبھی دشمن کے گھر رہتی تھی یا لیڈر کی باتوں میں
سیاست اب مگر بندوق کی نالی میں رہتی ہے

اس انتخاب میں بی جےپی کا لب ولہجہ اورپوسٹرکا رنگ وروغن بھی گرگٹ کی مانند بدلتا رہا ۔ جموں میں کمل زعفرانی رنگ میں کھلتا ہے اور اس کے آس پاس نارنگی رنگ کی بھرمار ہوتی ہے جبکہ زعفران کی پیداوار کیلئے ساری دنیا میں معروف وادیٔ کشمیر کے اندر کمل کا رنگ سفید ہوجاتا ہے ۔ اس کی پشت پر نارنگی نہیں بلکہ سبز رنگ آجاتا ہے ۔ مودی جی اودے رنگ کی جیکٹ اور مہتا جی بھورے رنگ کے کرتے میں نظر آتے ہیں ۔عوام کی دھندلی سی تصویر میں بھی ایک ہری ٹوپی والا دکھائی دے جاتا ہے۔ وزیر اعظم کشتوار میں جن سنگھ کے پہلے صدر شیاما پرشاد مکرجی کو بھول کر جن کے بارے میں آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ انہوں کشمیر کے الحاق کیلئے اپنی جان بلیدان کردی اٹل جی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا عزم دوہراتے ہیں ۔ ان کی تقریر میں ترقی کی گردان تو خوب سنائی دیتی ہے لیکن دفعہ ۳۷۰ کا ذکر نہیں ملتا ۔

اس بات کا امکان ہے کہ یہ ٍرام جیٹھ ملانی کی کوششوں کا نتیجہ ہو جو ؁۲۰۰۲ میں اٹل جی کے ذریعہ قائم کردہ کشمیر کمیٹی کے صدر نشین ہیں ۔ سابق بی جے پی ایم پی کا کہنا ہےکہ دستور کی دفعہ۳۷۰ دستورہند کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے ۔ جس کوکوئی چھو نہیں سکتا۔ان کے ’’جب میں نے اس دفعہ کی وضاحت وزیر اعظم نریندرمودی پر کی تب سے بی جے پی اس بابت خاموش ہے۔ جمو ں و کشمیر دستور ساز اسمبلی کی خواہش کے تحت دفعہ۳۷۰کو دستورہند میں شامل کیا گیاتھا۔ اس کی منسوخی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ جیٹھ ملانی نے مودی کو تلقین کی کہ وہ بی جے پی کےقائدین کو اس پر اظہار خیال سے باز رکھیں جس پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپنےایک وزیر کی سرزنش بھی کی۔ رام جیٹھ ملانی ویسے تو کشمیر کے حق میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ۔ وہاں ہونے والے مظالم کی مذمت بھی کرتے ہیں نوجوانوں کی گرفتاریوں اور رہنماؤں کی نظر بندیوں کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ حریت کانفرنس سے رابطے میں رہتے ہیں لیکن جب حق خودارادی کی بات آتی ہے تو اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگتے ہیں۔ یہ دیکھ کر صابر فخرالدین کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ ؎
دوستی کی آڑ میں ہم مخلصوں سے
کون کب تک دشمنی کرتا رہے گا

اسکاٹ لینڈ کے اندر ابھی حال میں ہونے والےاستصواب کے نتائج کوہندوستان کے ذرائع ابلاغ میں خوب سراہا گیا لیکن وہ نتائج جس سیاسی عمل کے بعد سامنے آئے اس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ یہ اس حقیقت کا بلا واسطہ اعتراف ہے گزشتہ ساٹھ سالوں سے کشمیری عوام کو اپنے ساتھ رکھنے کے باوجود ہم ان کا دل نہیں جیت سکے ۔ حکومت ہند کوکشمیر کے استصوابِ رائےمیں اس نتیجہ کی توقع نہیں ہے جو اسکاٹ لینڈ میں سامنے آیا ۔ ویسے برطانوی حکومت اپنی مرضی کے خلاف فیصلہ تسلیم کرنے کیلئے تیار تھی لیکن حکومت ہند اس کیلئے بھی راضی نہیں ہے۔ اٹل جی نے اس صورتحال کا اعتراف اس طرح کیا تھا کہ ہم میدانِ جنگ میں کامیاب ہو گئے مگرہم نے موقع گنوا دیا یہی وجہ ہے کہ وادیٔ کشمیر کا ایک تہائی حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر رام جیٹھ ملانی کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کے پیش کردہ چار نکات بہترین حل کی بنیاد تھے لیکن اس کوشش کو حکومت ہند نے ناکام بنایا۔

کشمیر کے تئیں حکومت کے رویہ میں جماعتوں کے بدل جانے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ رام جیٹھ ملانی علٰحیدگی پسندوں سے رابطہ کر تےہیں خود وزیر اعظم بھی سیاسی مفادہ کی خاطرپیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون سے ملاقات کرتے ہیں جن کی بابت اچانک یہ انکشاف کیا جاتا ہے کہ وہ تائب ہو چکے ہیں حالانکہ ان کی جماعت اب بھی حریت کانفرنس میں شامل ہے ۔ اس کے برخلاف اگر پاکستانی سفارتکار حریت رہنماوں سے گفتگو کرتاہے تو ہند پاک بات چیت معطل کردی جاتی ہےاور مودی جی امریکہ میں نواز شریف سے نہیں ملتے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ سے جب اس بابت دریافت کیا تووہ کہہ دیتے ہیں چونکہ انڈیا نےگفتگو معطل کی ہے اس لئے اعادہ بھی اسی کی ذمہ داری ہے ۔ کٹھمنڈو میں مودی نواز ملاقات کی راہ ہموار کرنے کیلئے وزیرداخلہ راج ناتھ بیان دیتے ہیں کہ ہم اس کیلئے تیارہیں لیکن وہ پہل کریں۔ پاکستانیوں کو کیا پتہ کہ راج ناتھ کا تعلق لکھنؤ سے ہے جہاں پہلے آپ پہلےآپ میں گاڑی نکل جاتی ہے اور وہ اس وقت چھوٹ گئی جب نواز شریف نے اوبامہ سے گزارش کردی کہ ہندوستان میں دورے کے وقت کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں۔ اس دوران وزیر خارجہ سشما سوراج کی خاموشی نہایت معنیٰ خیز بنی ہوئی ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پاس وزارتِ خارجہ کا قلمدان ہے۔ وزیراعظم نے انہیں قلمدان تھما کر حاشیے پر کھڑا کردیا ہے اور ساری عالمی مجالس میں خود چہکتے پھدکتے نظر آتے ہیں ۔

کشمیر کے حوالے سےحکومت ہند کے حالیہ اقدامات پر نظرڈالیں تو ایسا لگتا ہے وزیراعظم نریندر مودی ہو بہو اٹل جی کی پیروی کررہے ہیں ۔ اٹل جی نے اپنے دورِ اقتدار میں کشمیر یت، جمہوریت اور انسانیت کا نعرہ لگا کر ترقیاتی منصوبوں کی مدد سے کشمیری عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی تھی۔ اس میں اکھنڈ بھارت یا ہندو قومیت کا کوئی تذکرہ نہیں تھا ۔ انسانیت کی بنیاد پر حزب المجاہدین کےسید صلاح الدین تک سے رابطہ کیا گیا تھا ۔ پاکستان بس یاترا کے بعد بات اس قدر آگے بڑھ گئی تھی کہ بقول نواز شریف ہم لوگ مسئلہ کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن پرویز مشرف نے تختہ الٹ کر سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ۔ اس سال مئی میں انتخاب سے قبل مودی جی نے جموں میں کہا تھا کشمیر کا مسئلہ جو ساٹھ سال میں حل نہیں ہوا میں ساٹھ دن کے اندر اسے حل کردوں گا۔ یہ کہتے وقت شاید انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ واقعی اقتدار میں آجائیں گے اور ساٹھ تو کجا ۱۸۰ دنوں کے بعد یہ مسئلہ یونہی معلق کا معلق ہی رہے گا۔

اس بیچ کشمیر سے ایک اچھی خبر یہ آئی کہ فوجی عدالت نے ایک فرضی جھڑپ کے دوران تین کشمیری نوجوانوں کے قتل کے الزام میں دو افسران سمیت سات فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنا دی ۔ یہ تصادم اپریل ؁۲۰۱۰ کے آخری ہفتے میں شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں ماژہل گاؤں میں پیش آیا تھا۔اس میں تین مزدوروں کا قتل کیا گیا تھا۔ مقامی پولیس نے اس واقعہ کی تفتیش میں فوج کے لیے کام کرنے والے دو کشمیریوں اور نو فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تصادم کا راز افاش ہونے کے بعد کشمیر میں طویل احتجاجی تحریک چلی جسے دبانے کے لئےپولیس اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین پر فائرنگ کرکے ۱۲۰ سے زائد نوجوانوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو زخمی کردیا۔ اس کارروائی میں ہزاروں کم سن لڑکوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ۲۴ سالہ شورش کے دوران کشمیر میں۱۰ ہزار افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔ وادی میں ۶ہزار سے زائد گمنام قبروں کا انکشاف ہوا ہے۔ جن میں فوج فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کو ہلاک کرکے ان قبروں میں دفن کردیتی تھی۔ بقول فائق؎
میری بستی میں ہر پتھر کے نیچے
لہو آمیز منظر سورہا ہے

فرضی انکاؤنٹر میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کی تصدیق کا انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا جب۳ نومبر کی شب فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے۲ نوجوانوں کی ہلاکت کا معاملہ ابھی زیرِ تفتیش ہے۔فوج نے فرضی جھڑپ میں ملوث دو افسروں سمیت چھ فوجی اہلکاروں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ؁۲۰۰۰ میں امریکی صدر بل کلنٹن کی بھارت آمد کے وقت بھی پیش آیا تھا جب دہشت گردی کا ہواّ کھڑا کرنے کی خاطرجنوبی کشمیر کے چھتی سنگھ پورہ گاوں میں ۳۵ سکھ شہریوں کا موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس کے بعد فوج نے پتھری بل کے مقام پر ایک تصادم کا دعویٰ کیا اور کہا کہ سکھوں کے قتل میں ملوث پاکستانی شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ آگے چل کرسرکاری تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ عام شہری تھے جنہیں ان کے گھروں میں ہی زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہ معاملہ جب کئی عدالتوں کے چکر کاٹتاہوا سپریم کورٹ پہنچا تو فوج کو حکم دیا گیا کہ مقررہ وقت کے اندر اس کی تفتیش کی جائے۔ یہ تفتیش ا بھی مکمل نہیں ہوئی بلکہ تحقیقات جاری ہیں۔ خاک و خون میں لپٹی کشمیر کی تازہ صورتحال کی عکاسی سلیمان مجاز کے اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎
خون سے سرخ ہوئی وادیٔ کشمیر مجاز
لوگ کیا اب بھی اسے رشک جہاں کہتے ہیں

وزیراعظم نے وادی میں انتخابی تقریر کے دوران ترقی کے عوض ماضی کو بھلا دینے کی نصیحت کی ۔ یہ عجیب منطق ہے کہ دہلی میں انتخابی فائدے کیلئے سکھوں پر مظالم کی یاد کئے جاتے ہیں ا ور کشمیرمیں ظلم و جبر کو بھول جانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ سنجیدہ مسائل سیاسی شعبدہ بازی سے حل نہیں ہوتے۔ کشمیر کے اندر سیلاب کے بعد آنے والی تباہی کے بعد مرکزی حکومت کی بے اعتنائی وہاں کی عوام دیکھ چکی ہے ۔ اس کے بعد یہ انتخابی تقاریر کس قدر اثر انداز ہوں سکیں گی یہ تو وقت ہی بتلائے گا۔ بی جے پی کی ساری امیدیں جموں سے وابستہ ہیں اگر وہاں پر سارے ہندو کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ ہوجائیں اور وادی کےمسلم ووٹ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس میں تقسیم ہو جائیں تو اس سے بی جے پی ماضی کے کانگریس کی طرح ایک بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کشمیرمیں لوٹ مار کی ذمہ داری مفتی اور عبداللہ خاندان پر ڈال کر کانگریس کو بچا لیا ۔اب یہ ہوسکتا ہے کہ کانگریس کی جگہ بی جےپی لے لے۔ اس سےکشمیر کی لوٹ تو بند نہیں ہوگی ہاں لٹیرہ بدل جائیگا۔ انتخابی نتائج کشمیر کی زمینی صورتحال پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اس لئے کہ نمائشی ردوبدل عزت و وقار کا متبادل نہیں ہے اورعدل و انصاف ہی حقیقی و پائیدارامن وسلامتی کا ضامن ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222019 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.