غیبت ، ایک معاشرتی بیماری

غیبت ایک ایسی معاشرتی بیماری ہے جسکی لپیٹ میں ہر خاص و عام جانے انجانے میں مبتلا ہے۔یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں مبتلا شخص جان نہیں پاتاکہ کسطرح یہ اُس کے اعمال کو ضائع کر رہا ہے، اُسکی نیکیوں کو کھا رہا ہے۔ اور جسکو معلوم ہے وہ سب کچھ جان کر بھی انجان ہے گویا سب ٹھیک ہے اُسکی نگاہ میں۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر12 پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ غیبت سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اِسے ایک ایسی چیز سے تشبیہ دی ہے جسکے بارے میں سوچیں تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، دِل کانپ جاتا ہے۔ " اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتےرہو "۔ جبکہ آج ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی کی برائی کرنے میں مصروف ہے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ یہ بہت غلط ہے لیکن دِل کی تسکین کی خاطر اور کوئی محض وقت گزاری کیلئے اِس لعنت میں مبتلا ہے۔ اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جوکسی کی برائی کرنے کو غیبت شمار نہیں کرتے یعنی اُنکے نزدیک اُنکا مقصدتو صرف دِل کی بھڑاس نکالنا ہے ۔ در حقیقت وہ اِس سنگین گناہ کے مرتکّب ہو رہے ہوتے ہیں۔۔ یہ بہت غلط کانسپٹ ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کیونکہ اِس سے ہماری دُنیا تو خراب ہو رہی ہوتی ہے ہم آخرت کو بھی خراب کرنے کا سامان کر رہے ہوتے ہیں۔

اِس بیماری سے بچنے کیلئے سب سے پہلے تو یہ جاننا ہوگا کہ غیبت در حقیقت ہے کیا،؟ کونسی بات غیبت میں شمار ہوتی ہے؟ کیا غیبت سننے والا بھی گناہ گار ہے؟ کسی آدمی کا وہ عیب اُس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا جو اُس میں واقعی ہی موجود ہو غیبت کہلاتا ہے ۔ کونسی بات غیبت میں شمار ہوتی ہے اسکاجواب بہت آسان ہے۔ یعنی اُس شخص کا وہ عیب یا برائی بیان کرنا جو وہ شخص خود بھی سن لے تو برا محسوس کرے یعنی اُسکو اچھا نہ لگے غیبت میں شمار ہوگا۔یہ دو بہت بڑی اور واضح باتیں ہیں غیبت کے فرق کو سمجھنے کیلئے۔اِسکو مکمل سمجھ لیں تو معلوم ہو گا غیبت کی کیوں جاتی ہے یعنی ہم کیوں لوگوں کی برائی کرنے میں مصروف رہتے ہیں؟ اس کے اسباب کیا ہیں اور کسطرح اس سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ یہ سب بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر باآسانی عمل کیا جا سکتا ہے۔ہاں کسی بھی برائی و گناہ کو چھوڑنے کیلئے وقت کی بہرحال ضرورت ہوتی ہے لیکن ناممکن کچھ نہیں ہوتا۔ بلکہ ممکن ناممکن کا تعلق ہمارے عزّم سے، ہمارے حوصلے سے، نیت سے اورسب سے بڑھ کر عمل سے ہوتا ہے۔ صرف نیت کر لیں کہ اِس مرض سے خود کو اور اپنے عزیزواقارب کو بچانا ہےباقی سب خود بخود ہوتا جائے گا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیبت سننے والا بھی گناہ گار ہے؟ اِسلام میں غیبت سننا بھی گناہ ہے ۔غیت کرنے والےسے سوال کیا جائے گا کہ فلاں شخص کی غیبت کیوں کی؟ اُسی طرح سننے والے سے بھی پوچھا جائے گا کیا وجہ بنی غیبت سننے کی؟ لہذٰا غیبت سننے کی بجائے فوراً ٹاپک بدل لیا جائے، غیبت کرنے والے کو ٹوک دیا جائے، بات کسی طرح ختم کر دی جائے پھر بھی ڈسکشن جاری رہے تو چپ چاپ وہاں سے نکل جائے ۔
کبھی بھی اِس بیماری کا شکار نہ ہوں خواہ کرنے والو میں ہوں یا سننے والوں میں کیونکہ یہ دُنیا میں ایک بیماری ہے اور آخرت کیلئے خواری ہے۔
 
Zara
About the Author: Zara Read More Articles by Zara: 4 Articles with 5475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.