انسان کی فطرت

انسان کی فطرت میں یہ چیز داخل ہے کہ وہ غموں اور دکھوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور خوشیوں، مسرتوں کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ شادمانی و رحمت سے ہمکنار رہے اور رنج و الم سے یکسر محفوظ سطح پر موجوں کا اضطراب جس طرح روايتی دریا کا پتہ دیتا ہے اسی طرح زندگی کے دکھ تسلسل حیات کی غمازی کرتے ہیں، دکھ کے بعد سکھ اور سکھ کے بعد دکھ کا آنا فطری امر ہے۔

دکھ ہمارے لیے صبر و استقلال، نفسیاتی جزبات، عقل و ہمدردی اور ایمان کے تحفے لے کر آتا ہے اگر ان تحفوں سے منہ پھیر لیں تو ہم کو بزدلی، کمزوری، مایوسی جیسی کیفیات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

دکھ کی شدت میں انسان کو خدا تعالی یاد آتا ہے اور انسان خدا تعالی کے نزدیک ہو جاتا ہے۔

اگر انسان سکھ و آسائش کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو دوستوں سے مخلصانہ اور دشمنوں سے عفو و درگزر کا رویہ رکھنا چاہۓ۔

زندگی میں دکھ اور بے اطمینانی کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے حال سے کبھی مطمن نہیں ہوتے۔

سکھ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو سکھ پنہچایا جاۓ۔

زندگی کا سب سے بڑا یقین یہ ہے کہ کوئ ہم سے محبت کرتا ہے۔

سکھ باہر سے ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ وہ ہمارے اندر موجود ہے لیکن غرور چھوڑے بغیر اسے نہیں پایا جا سکتا۔

کوئ کسی کے دکھ پوری طرح نہیں بانٹ سکتا کیونکہ ہر دکھ کی تہہ میں اس شخص کے ذاتی راز ہوتے ہیں۔

انسانی عظمت کے نکھار کے لیے صبر و تحمل کی اشد ضرورت ہے جو شخص مصائب کے وقت صبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے تو وہ کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوتا، جب تسلیم و رضا کا جزبہ کسی قلب و ذہن میں جا گزیں ہو جاۓ تو پھر غموں سے غم نہیں آتا اور سکھ سے سکھ نہیں آتا۔
Kamran Lakha
About the Author: Kamran Lakha Read More Articles by Kamran Lakha: 15 Articles with 15476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.