جہیز کی خاطرہم نے اپنا ضمیر بیچ دیا

آج ہمارے معاشرے میں جہیز اور لین دین کی وباء اس طرح پھیل چکی ہے۔جو ہیضہ کی وباء سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اس خبیث لعنت کی وجہ سے خوبصورت سے خوبصورت زندگیاں تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔آج اخبارات و نیوز چینلوں میں ہمارے ہی گھروں میں جہیز کے لئے بھینٹ چڑھنے والی کئی مسلم لڑکیاں اسلامی شریعت سے کہہ رہی ہیں کہ کاش ہماری اسلامی شریعت صرف کتابوں،تقریروں،وعظوں اور اخبارات کے کالموں،نیوز چینلوں کی سرخیوں کے بجائے حقیقی معنوں میں عمل سے ہوتی تو شاید آج خود اسلامی شریعت کو یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے․․․․․نہ دوسری اقوام کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ اسلام بھی ہماری ہی اصولوں اور طور طریقوں کا مذہب ہے۔آج اسلام کے ماننے والوں،شریعت پر عمل کرنے والوں کا دعویٰ کرنے والوں سے معصوم بچیاں یہ سوال کررہی ہیں کہ کیا اسلام کہنے کو کچھ اور کرنے کو کچھ والا مذہب ہے؟کہیں سلامی کے روپ میں،کہیں اور دوسری رسم و رواج کے طور طریقوں میں تو کہیں تلک کے نام پر آخر دولہا میا ں کیوں اپنا ضمیر بیچنے پر آمادہ ہیں؟آج ہماری معصوم بہنیں جہیز کے لئے زندہ جلادی گئیں․․․․․مگر ان دکھ بھرے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے ہمارے مسلم معاشرے میں دن بدن جہیز کے مطالبات میں اضافہ ہورہا ہے۔بعض لوگ حضرت فاطمہؓ کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ حضور ﷺنے حضرت فاطمہؓ کو مختصر جہیز دیا،اس لئے مختصر جہیز دینا جائز ہے،جب کہ حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز کے نام پر بوقت ِ رخصتی جو کچھ دیا تھا وہ تمام سامان حضرت علی ؓ کی زرہ فروخت کرکے خریدا گیا اورحضرت فاطمہؓ کو پیش کیا گیا۔حضرت علیؓ نے وہ زرہ حضرت عثمانؓ کو فروخت کی،مگر حضرت عثمان ؓ نے اس کی قیمت کے ساتھ وہ زرہ حضرت علیؓ کو تحفہ میں دے دی۔آپؓ نے ان کودعائیں دیں۔آپ ﷺ نے فرمایا سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جس میں مال کم خرچ ہو۔آپ ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ جو شخص عزت و عظمت حاصل کرنے کے لئے شادی کرے گا تو اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کوذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہ دیں گے،اور جو شخص مال و دولت کے لالچ میں شادی کرے گا تو اﷲ پاک اس کو فقرو فاقہ و تنگدستی کے سوا کچھ نہ دیں گے،اورجو شخص حسب و نسب اور برتریٔ خاندان کے لئے شادی کرے گا تو اس کورسوائی اور ذلت ملے گی،اور جو شخص پاکدامن بننے کی خاطر،عزت و آبرو اور نگاہ نیچی رکھنے نیز صلہ رحمی کے لئے شادی کرے گا تو اس کو رحمت و برکت حاصل ہوگی۔آج ہم لوگوں نے شادی کو ایک تقریب،ایک جشن،ایک کاروباری میلہ بنا دیا،جہاں گھوڑے جوڑے اور جہیز کا بڑی بے حیائی کے ساتھ لین دین ہوتا ہے۔سیدھے سادے اصولوں کو دنیوی شان و شوکت کا غلاف اڑھا کر اپنی ذاتی ہوس پوری کرنے والوں سے یہ سوال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ شخص جو روزانہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہو،جسے چار یا پانچ بیٹیاں ہو،وہ بے چارہ اپنی بیٹیوں کے لئے دولہا کہاں سے لائے گا؟آج کا جہیز کا لالچی دولہا بہت مہنگا ہو گیا ہے، جسے خریدنا غریب ماں باپ کے لئے بہت مشکل ہے۔وہ غریب باپ جو جہیز دینے کے لئے خود بازار میں بک جائے یااپنی بیٹیوں کو آوارہ راہ روی پر چھوڑ دے،یا اپنی عزت کی خاطر خود بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ زہر کا پیالہ پی جائے․․․․؟میرایہ سوال ان مردوں سے ہے جو اپنی مردانگی کا سودا کرتے ہیں اور اپنے مرد ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔قارئین ِ کرام!حضرت علیؓ سے بڑھ کر بھی کوئی لڑکا ہوگا؟خاتون ِ جنت حضرت فاطمہ ؓ سے بھی بڑھ کر کوئی عورت ہے؟اگر حضور ؐ جہیزکا اعلان کردیتے تو سازو سامان کا ڈھیر لگ جاتا،لیکن حضور ﷺ نے اعلان نہیں کیا۔لہٰذا اب بھی وقت ہے ہمیں چاہئے کہ ہوش میں آئیں ورنہ بربادی قسمت ہمارا مقدربن جائے گی۔مسلم بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ یہ قسم کھالیں کہ جہیز اور جوڑے کی رقم نہیں لیں گے۔شادی بالکل سادگی کے ساتھ کریں گے۔اﷲ اس کے پیارے حبیب ﷺ کو راضی رکھیں گے۔اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق بخشے۔آمین ثم آمین

Irfan Muneeri
About the Author: Irfan Muneeri Read More Articles by Irfan Muneeri: 26 Articles with 30708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.