پیدائش و اموات

قبل از وقت بچوں کی پیدائش و اموات پر حالیہ ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں کم عمر بچوں کی اموات میں واضح کمی ہوئی جبکہ قبل از وقت بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔
قبل از وقت بچوں کی پیدائش جسے طبی زُبان میں پری میچورٹی کہا جاتا ہے پر صحت سے متعلق برطانوی جریدے دی لینسٹ نے قبل از وقت بچوں کی پیدائش پر تفصیلی رپورٹ میں بتایاکہ نوزائدہ بچوں کی اموات میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے،رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے بچوں کی قبل از وقت پیدائش و اموات پر طویل تحقیق کرنے کے بعد کہا کہ تاریخ میں بچوں کی اتنی اموات واقع نہیں ہوئیں جتنی موجودہ سائنسی دور میں ہو رہی ہیں،اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار بچوں کی اموات ہوتی ہیں جن میں قابلِ ذکر ہر چھٹا بچہ قبل از وقت پیدائش کی پیچیدگیوں کے سبب پانچ سال کی عمر تک پہنچنے پر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق دو ہزار تیرہ میں چھ میلین بچوں میں ایک میلین بچے قبل از وقت پیدائش یا دورانِ پیدائش انتقال کر گئے،اعداد و شمار کے مطابق اکثریت ان بچوں کی تھی جو پیدائش کے چار ہفتوں بعد موت کے منہ میں چلے گئے،ماہرین کا کہنا ہے اتنی اموات تو بچوں میں بیماریوں سے نہیں ہوئیں جتنی قبل از وقت پیدائش سے واقع ہوئیں،ان واقعات پر قابو پانے کیلئے طِب اور صحت عامہ میں نئے سائینٹیفک طریقوں اور میڈیسنز کی اشد ضرورت ہے جو حفظانِ صحت اور متعدی امراض کے خلاف روک تھام کرے، ماہرین کا کہنا ہے کئی اموات کی وجوہات دنیا بھر میں پھیلی مختلف اقسام کی انفیکشنز کے سبب ہوئیں،اگر ہم ان واقعات کی روک تھام اوراس پر قابو پانا چاہتے ہیں تو قبل از وقت پیدائش جیسے چیلینجز سے نمٹنے کیلئے سرمایہ کاری کرنی ہو گی جس سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے ۔

ایک دوسری رپورٹ کے مطابق سال دوہزار سے دنیا بھر میں قبل از وقت بچوں کی شرح اموات میں تیزی سے کمی ہوئی جو ایک مثبت رپورٹ ہے،اموات کی کمی میں خاص طور پر ویکسین ،ملیریا سے بچاؤ کی تدابیر و تحفظ ا ور دیگر ادویات کے علاوہ اینٹی بوائٹک کا اہم کردار تھا،ادویات کے سبب ہی دنیا بھر میں قبل از وقت بچوں کی اموات میں اوسطاً شرح اموات میں دو فیصد کمی واقع ہوئی،تاہم قبل از وقت بچوں کی پیدائش میں اضافہ بھی ہوا،تحقیق کے مطابق قبل از وقت بچوں کی اموات کا سبب خواتین میں موٹاپا اور ہائی بلڈ پریشر ہے ۔

ماہرین اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ بچے کیوں قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں اور اس عمل کو کیسے روکا جا سکتا ہے علاوہ ازیں خواتین میں موٹا پن اور ہائی بلڈ پریشر پر کیسے قابو پایا جائے؟ ایک تصور کیا گیا ہے کہ انہی دونوں وجوہات کے سبب بچے قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں، دیگر وجوہات میں غربت ، غذائیت ، خاندانی کشیدگی اور آلودگی کے اثرات قبل از وقت پیدائش اور اموات کے اسباب ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق قبل از وقت بچوں کی پیدائش و اموات کی سالانہ شرح کا اعداد وشمار کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ترقی پذیر ممالک جیسے کہ انڈیا میں ہر سال تین لاکھ اکسٹھ ہزار ، نائیجیریا میں اٹھانوے ہزار تین سو ، پاکستان میں پچہتر ہزار ، کانگو میں چالیس ہزار اور چین میں سینتیس ہزار دو سو بچوں کی قبل از وقت پیدائش سے اموات ہوئیں۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق خواتین کا موٹا پن بچوں کیلئے شدید خطرہ ہے،ماہرین کا کہنا ہے ایک حاملہ عورت اگر آغاز سے ہی موٹے پن میں مبتلا ہے تو اس سے بچے کی صحت پر اثر پڑ سکتا ہے،رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ہر تیسری عورت موٹاپے کا شکار ہے اور ایسی حالت میں نہ صرف قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ پیدائش کے پانچ سال متواتر رسک رہتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے خواتین کے موٹاپے کے سبب ان کے بچے بھی اکثر موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں ،ایمبریو موٹاپے کے ہارمون کو باآسانی تسلیم کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں ہی وزن دار ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انہی وجوہات کے سبب ماں اور بچے میں ذیا بیطس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے خواتین اپنے وزن کو قابو میں رکھنے کیلئے میٹھی غذاؤں سے پرہیز کریں، چہل قدمی لازمی ہے ،گائکانولوجسٹ کے مشوروں پر عمل کرنے سے خواتین نہ صرف اپنی بلکہ قبل از وقت بچے کی پیدائش کی روک تھام اور دیگر خطرات پر قابو پا سکتی ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 227694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.