اٹھ جاگ محّمد بن قاسم !!!

شام کے گہرے سائے رات کی با نہوں میں جانے کو بے قرار تھے اور پچھلے کئی دنوں کی طرح ساون کا موسم آج بھی بن برسے گزر گیا ۔مگر رات کی آمد ماحول پر پرچھائی حرارت کو کم کرنے میں کوشاں تھی جس میں اْس کو بہت حد تک کا میابی بھی مل گئی ۔ایسے میں ایک حبّ الوطنی کا مارا شخص نسبتاًپْر سکون گوشے میں بیٹھا آنے والے وقتوں کی اندیکھی زنجیروں میں خود کو جکڑا ہوامحسوس کر رہا ہے !!!

وہ ایک ایسے وقت کو دیکھ رہا ہے جب بے گنا ہوں کی عدالت میں بے حسی کی منصفی ہوگی اور ـ’’انصاف انصاف ‘‘کی پکار کے جواب پر لحظہ بہ لحظہ بڑ ھتی ہوئی چربِ زبانی، آواز ِحق کو دبا کر آنے والے وقتوں کیلئے فریب کے سنہری جال میں الجھا کر پھر سے زندگی کے دائرے میں گم کر دیتی ہے جیسے دائرے کا اوّل و آخر ایک ہی نقطہ ہوتا ہے با لکل ویسے ہی زندگی بھی اسی ڈگر پر آکر ہزاروں دفعہ کیا جانے والا سفر ایک مرتبہ پھر شروع کر دیتی ہے لیکن دائرے کو بدلنے کا اختیار نہیں ہوتا !!!

اس دور سے بھی حضرتِ انساں گزر چکا ہے جب میٹھے راگ کی دھن کانوں کو بھلی لگتی تھی ۔شب و روزمیں اجتماعی زندگی کا شعور ملتا تھا ۔برسات کی ندیوں میں نغمے گنگنایا کرتے تھے ۔ بستیوں میں مدہم روشنی تاریکی دور کرنے میں ناکام رہتی مگر محفلیں منعقد ہوتی تھیں اور مو سمِ بہارکا تذکرہ ہوتا ۔چہرے کی قدرتی رنگینی میں خوشگوار سپنوں کی پر چھائیاں نظر آتی تھیں ۔دلکش مناظر کی رعنائیاں اپنے دامن میں حْسن سمیٹے پورے تمکنت وو قار کے ساتھ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں ڈبوئے رکھتی ۔ عز ّت ونا موس کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور رات کو وہی چمک چاندنی لٹانے آجاتی تھی ۔آسمان تاروں کی قندیلیں روشن کرتا تھا !!!
مگر اب جیسے چرا غوں میں روشنی نہ رہی !!

گویا وہ درخت جنہیں موسمِ خزاں نے اجاڑ دیا ، اْن کو سرخ کو نپلو ں کے زیور سے آراستہ تو ہونا ہے مگر کسی آہنی شکنجے نے اْن کو یوں قید کر دیا کہ وہ خا موش زباں سے سراپا ا حتجاج بنے ہیں مگر موسمِ بہار تو جیسے اْس کے جڑوں تک جانے والے منزل کے دریچوں کا راستہ ہی بھول گیا۔ اْسے اْس چوکھٹ کا راستہ ہی یاد نہیں جہاں ایک قوم ، ایک وطن ، ایک ملک اجتماعی طور پر اْسی درخت کی صورت ہے اور بہار کے سبزلبا دے سے محروم ہر شاخ تیز آندھی میں لپٹی ہے !!!

دورِجدید مختلف امراض میں مبتلا بیماریوں کے پیشِ نظر اْس مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جسے تا ریخ محمّد بن قا سم کے نام سے پکارتی ہے ۔وہ دورجہاں زندگی متحّد تھی اب وہا ں تنہائیوں کا عذاب ہے جب برسات کی ندیوں میں نغموں کی دْھن تھی اب وہاں خون کی ندیوں میں بے حسی کی تراوٹ ہے جہا ں مدہم روشنیوں میں منعقد محفلوں میں موسمِ بہار کا تذکرہ ملتا تھا اب چکا چوند روشنیوں میں ہونے والے مذاکرات میں بھی مسائل کے حل کا تذکرہ نہیں ملتا ۔چہرے کی قدرتی رنگینی کھٹور پن کے دبیز پردوں کے پیچھے اپنا وجود کھو چکی ہے ۔مناظر کی رعنا ئیوں اور اسکی دلکشی کے سمندر میں کپکپاتے ہوئے جذبات کی روانی ہے ۔ وہ زمین جو اپنے سینوں کو چیر کر فصل اگلتی تھی اب وہی زمین آئے دن زلزلوں سے لرزتی ہے ۔جب عزت وناموس کی روشنی میں ظلمت کے اندھیروں کا راج آگیا تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے،کسی کو نہ چھوڑنے کا عزم میں ،اور سر اٹھا کر جینے کے فخر میں اپنی جھوٹی انا لئے ہر موڑ پر ہمسفری بخشتے ہیں ۔وہ آسمان جو تاروں کی قندیلیں لئے راتوں کو منوّر کرنے کی ذمّہ داری پورا کرتا تھا اب وہی آسماں بادلوں کی خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ حیرت انگیز تسلسل سے ژالہ باری کا سبب بنتا ہے رحمتِ خداوندی جب سیلاب کی صورت میں آتی ہے مکانوں میں بسنے والے مکین معجزاتی ’’کن فیکون‘‘ کا انتظار کرتے ہیں پھر جب طویل انتظار فریاد میں بدلتا ہے تو ہونٹ شکوؤں سے لبریز ہوتے ہیں ۔مگر جو اعمال کی صورت میں بویا ہے اسے آفت کی صورت میں کاٹنے کا حوصلہ نہیں ملتا ۔ایسے میں قوم ان ماؤوں کا انتظار کرتی ہے جو محمّد بن قاسم ، صلا ح الدین ایوبی جیسے سپوت کو جنم دے سکے جو حق و باطل کی نمایاں تصویروں کی مصّوری کرے اور رنگوں کے حسین امتزاج سے حقائق کو سامنے لا سکے ۔اغیار میں رنگوں میں لپٹی تنظیم کے بجائے اپنے دیس کے قوس و قزح کو سلامی دے !!!
اٹھ جاگ محّمد بن قاسم اسلام نے آج پکارا ہے
پھر گنگا پار سے داہر نے تیری غیرت کو للکارا ہے
پھر بیٹی حرم کی روتی ہے ، پھر بابری مسجد کہتی ہے
ان گؤ ماتا کے چیلوں نے میرا آنچل کھینچ اتارا ہے
پھر مسجدِاقصیٰ نے تجھ کو اے ابنِ ایوبی پکارا ہے
اٹھ جاگ محّمد بن قاسم اسلام نے آج پکارا ہے
بہتا ہے خون مسلمانوں کا دھرتی پہ کس ارزانی سے
ہے قرض یہ تیری تیغوں پہ ،بے قیمت ہے جو پانی سے
حاضر ہیں کفر مٹانے کو جس نے بھی جہاں پکارا ہے
اٹھ جاگ محّمد بن قاسم اسلام نے آج پکارا ہے
(فر حانہ تجمل )
Farhana Tajammul
About the Author: Farhana Tajammul Read More Articles by Farhana Tajammul: 5 Articles with 3729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.