تجوری کا رکھوالا چور

دنیا بھر میں امن کے داعی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے قیامِ امن کی آڑ میں نقصِ امن کیلئے جو اقدامات کئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔انسانی حقوق کی حفاظت کے داعی نے انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں اپنے مفادا د کے حصول کی خاطر انسانیت کو جس انداز میں روندا وہ اپنی مثال آپ ہے۔دنیا میں امن و انصاف کے تحفظ کے داعی امریکہ کی امن و انصاف پسندی کا اندازہ امریکہ کے ہی ایک شہری نوم چومسکی کے ساتھ امریکی حکومت کے رویے سے لگایا جاسکتا ہے۔

چومسکی امریکہ کے ایک نامور دانشور ہیں اورماضی میں وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں پرو فیسر کے عہدے پر فائز رہے۔انکی عالمی شہرت کی سب سے بڑی وجہ امریکی استعمار پر انکی تنقید بنی۔امریکہ نے دنیا میں اپنی وحشتکا آغاز کیا تو چومسکی کھلے الفاظ میں امریکی بر بریت پر تنقید کی۔ انکے مظامین اخبار میں چھپتے ہی دنیا بھر میں سراہے جانے لگے۔انکا سب سے زیادہ پسند کییا جانے والا آڑٹیکل ــ’امریکی سامراج‘ تھا جس کے آغازمیں ہی چومسکی نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ آج ہماری دنیا بظاہر علم کی دنیا ہے مگر اس میں دانشور مفقود ہے۔یہ زندہ ضمیر سے محروم طاقت کی اندہی دنیا بن کر رہ گئی ہے۔ہم امریکی زندہ رکھنے کے علم سے کہیں زیادہ ہلاک کر دینے کے علم پر دسترست رکھتے ہیں۔ہم امریکی امن سے زیادہ جنون کے حامل ہیں۔ہم جوہری اعتبار سے تو جن بن گئے ہیں مگر اخلاقی اعتبار سے بونوں کے درجے پر فائز ہیں‘ ۔

اسی مضمون میں آگے جاکر چومسکی لکھتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کا واقعہ محض اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں تباہی کا حجم زیادہ تھا جس کا نشانہ امریکہ بنا اور ۴۱۸۱ میں واشنگٹن پر برطانوی بمباری کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جس میں امریکہ پر براہ راست حملہ کیا گیا۔مگر امریکہ شاید یہ بھول رہا ہے کہ ان دہ صدیوں کے درمیان امریکی نے دنیا بھرمیں جو بد معاشی کی اور کولڈ وار کے ذریعے ل کئی مہذب اقوام کو ذلیل کر کے رکھ دیا ، مطلوموں کو روندتا رہا ، مقامی آبادیوں کو مسلمل ہولناک انداز میں تباہ کارتا رہا ۔مگر کبھی کیس کو خیال نہ آیا کہ اس امریکی جارحیت کو روکا جائے اور انسانیت کی بقاء کیلئے کوششیں کی جائیں ۔

اور اب جب ۱۱ ستمبر کو توپوں کا رخ خود امریکہ کی جانب ہوا تو دنیا پر راج کرنے والا امریکہنہ صرف خود؂ خود اس کا شکار ہوا بلکہ اس چھوٹے سے واقعہ کے نتیجے میں اپنی حواس ہی کھو بیٹھا۔بارود کی بو جب امریکیوں کے اپنے ناک میں گئی تو اس نے انکے ذہنی توازن کو خراب کردیا ۔

دنیا میں انصاف کے ٹھیکیدار کا خود اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف کا یہ عالم ہے کہ ان تحاریر کے بعد چومسکی کے مضامین کی اشاعت پرحکومت کی جانب سے پابندی کگادی گئی۔اعتدال و انصاف پسندی میں یہ مو قع بھی آیا کہ جنوبی امریکی خود اپنے ہم وطن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔امریکی حکومت نے چومسکی کے ساتھ عادلانہ رویہ برت تے ہوئے اسکو نا پسندیدہ ترین شخصیت قرار دے دیا اور انکی آزادانہ نقل و حرکت پر درجہ حد تک پابندی لگا دی گئی۔

آزادیِ صحافت کے نام نہاد علمبردار امریکہ نے آزادیِ صحافت پر سرِ عام قد غن لگاتے ہوئے اپنے خلاف لکھنے والے چومسکی کے آڑٹیکلز کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔طرح طرح سے چومسکی کی آواز کو پست کرنے کی کشش کی گئی مگر انہوں نے اپنے بلاگ کے ذریعے دنیا کو امریکی صوانیت سے آگاہ رکھا۔ لوگ تقریباََ ایک دھائی تک چومسکی کے تبصروں سے مستفید ہو تے رہے۔

اسی دوران امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔اوردنیا میں قایام امن کی ایسی مثال رقم کی کہ جو کسی سے بھی مخفی نہیں۔جارج بش جیسے بھیڑیے نے افواج کو round the clock bombing is needed, intense bombing, carpet bombingکا حکم جاری کر کے دنیا میں قیامِ امن کی آڑ میں اپنے مفاداد کے حصول کیلئے اپنی حکمتِ عمل در آمد کا آغاز کیا۔

اس کے بعد عراق اور پاکستان میں امریکی جارحیت امریکی حکومت کی سوچ کے عکاس ہیں اور امریکہ کی پاکستان سے متعلق حکمتِ عملی کی مظہر ہے۔ان تما تر حقائق کے بعد ایک بات تو مکمل طور پر واضع ہو جاتی ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحا دیوں کیپاکستان سے متعلق ارادے واضع ہیں ۔مگر ستم ضریفی دیکھئے کہ ان ساب تباہیوں کے باوجود آج بھی امریکہ خود کو دودھ کا claimکرتا ہے کہ جیسے دنیا بھر میں ہونے والے اس قتلِ عام سے امریکہ کاباالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق ہی نہیں۔

اور ستم در ستم یہ ہے کہ پاکستام سمیت بعض ممالک امریکی درندگی کے بعد بھی معاشرت ترقی میں امریکی معاونت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ہر آنے الی حکومت کی الین ترجیحات میں امریکہ بہادر سے تعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر شاید ہم یہ بھول رہے ہیں تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امریکی صرف و صرف اپنے مفاداد کے حصول تک ہی دوست رکھتے ہیں کیونکہ سانپ کو جتنا مرضی دودھ پلا لیں ڈسنا اسکی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ ۔اور جہاں تک معا شرتی ترقی میں تعاون کا تعلق ہے تو ہماری حکومت کو بھی ایک مسلمہ اصول ذہن نشین کر لاینا چاہئے کہ جو اپنے باسیوں اور شہریوں کے ساتھ منصف نہیں ہو سکتا ، وہ کسی دوسری قوم کے ساتھ کیا انصاف کریگا۔
Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 57738 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.