ادب اور اخلاق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم / دوسری قسط

رسول اكر م (ص) کے ادب و اخلاق جیسی نماياں خصوصيات ميں سے ايك خصوصيت لوگوں كے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربيت الہى سے مالامال تھے اس بناپر معاشرت ، نشست و برخاست ميں لوگوں كےساتھ ايسے ادب سے پيش آتے تھے كہ سخت مخالف اور دشمن بھی آپ کےحسن سلوک سے متاثر تھے اور نصيحت حاصل كرنے والے مؤمنين كى فضيلت ميں اضافہ ہوجاتا تھا۔

آپ كے حسن معاشرت كے آداب، اخلاق كى كتابوں ميں تفصيلى طور پر مرقوم ہيں لیکن ہم اس مختصر سے مقالے ميں کچھ آداب كو بيان كررہے ہيں اميد ہے كہ یہ آداب ہمارے لئے رسول خدا (ص) كے ا دب سے آراستہ ہونے كا باعث ہو نگے :

آپؐ کا حسن گفتگو
بات كرتے وقت كشادہ روئي اور مہربانى كو ظاہر كرنے والا تبسم آپ كے كلام كو شيريں اور دل نشيں بناديتا تھا روايت ميں ہے كہ
''كان رسول اللہ اذا حدث بحديث تبسم فى حديثہ''
ترجمہ : رسول اكرم ؐ بات كرتے وقت ہمیشہ تبسم فرماتے تھے۔

ظاہر ہے كہ كشادہ روئی سے باتيں كرنے سے ہر ايك كو اس بات كا موقع ملتا تھا كہ وہ آپ (ص) كى عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغير نہايت اطمينان كے ساتھ آپ(ص) سے گفتگو كرسکے، اپنے ضمير كى آواز كو كھل كر بيان كرسکے اور اپنى حاجت و دل كى بات آپ (ص) كے سامنے پيش كرسکے۔

سامنے والے كى بات كو آپ (ص) كبھى منقطع نہيں كرتے تھے ايسا كبھى نہيں ہوا كہ كوئي آپ (ص) سے گفتگو كا آغاز كرے تو آپ (ص) پہلے ہى اسكو خاموش كرديں -

آپ کا مزاح
مومنين كا دل خوش كرنے كيلئے آنحضرت (ص) كبھى مزاح بھى فرمايا كرتے تھے، ليكن تحقير و تمسخر آميز، ناحق اور ناپسنديدہ بات آپ (ص) كى كلام ميں نظر نہيں آتى تھی۔
''عن الصادق (ع) قال ما من مؤمن الا وفيہ دعابة و كان رسول اللہ يدعب و لا يقول الاحقا''
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوا ہے كہ : كوئی مومن ايسا نہيں ہے جس ميں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا (ص) مزاح فرماتے تھے اور حق كے علاوہ كچھ نہيں كہتے تھے۔
آپؐ كے مزاح كے كچھ نمونے يہاں نقل كرتے ہيں
''قال (ص) لاحد لا تنس يا ذالاذنين ''
پيغمبر خدا (ص) نے ايك شخص سے فرمايا: اے دو كان والے فراموش نہ كر۔
انصار كى ايك بوڑھى عورت نے آنحضرت (ص) سے عرض كيا كہ آپ ميرے لئے دعا فرماديں كہ ميں بھى جنت میں چلی جاؤں حضرت (ص) نے فرمايا: '' بوڑھى عورتيں جنت ميں داخل نہيں ہوں گي'' وہ عورت رونے لگى آنحضرت (ص) مسكرائے اور فرمايا كيا تم نے خدا كا يہ قول نہيں سنا ;
''انا انشأناہن انشاءً فجعلنا ہن ابكاراً ''
ہم نے بہشتى عورتوں كو پيدا كيا اور ان كو باكرہ قرار ديا ۔
آپ ؐ کسی بات کو سمجھانے کیلئے تکرار سے گریز نہیں کرتے تھے
رسول خدا (ص) كى گفتگو كى خصوصيت يہ تھى كہ آپ (ص) بات كو اچھى طرح سمجھا ديتے تھے۔
ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا (ص) كوئی بات كہتے يا آپ(ص) سے كوئی سوال ہوتا تھا تو تين مرتبہ تكرار فرماتے يہاں تك كہ سوال كرنے والا بخوبى سمجھ جائے اور دوسرے افرادآنحضرت (ص) كے قول كى طرف متوجہ ہوجائيں۔
آپ ؐ کا انس و محبت
پيغمبر خدا (ص) كو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھى ان كى نشستوں ميں شركت كرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ (ص) ان نشستوں ميں مخصوص ادب كى رعايت فرماتے تھے۔
حضرت امير المؤمنين علیہ السلام آپ كى شيرين بزم كو ياد كرتے ہوئے فرماتے ہيں '' : ايسا كبھى نہيں ديكھا گيا كہ پيغمبر خد ا (ص) كسى كے سامنے اپنا پاؤں پھيلاتے ہوں''

پيغمبر (ص) كى بزم كے بارے ميں آپ كے ايك صحابى بيان فرماتے ہيں '' جب ہم لوگ رسول خدا (ص) كے پاس آتے تھے تو دایرہ كى صورت ميں بيٹھتے تھے''

جليل القدر صحابى جناب ابوذر بيان كرتے ہيں '' رسول خدا (ص) جب اپنے اصحاب كے درميان بيٹھتے تھے تو كسى انجانے آدمى كو يہ نہيں معلوم ہوسكتا تھا كہ پيغمبر (ص) كون ہيں آخركار اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضور(ص) سے يہ درخواست كى كہ آپ ايسى جگہ بيٹھيں كہ اگر كوئی اجنبى آدمى آجائے تو آپ (ص) كو پہچان سکے ، اسكے بعد ہم لوگوں نے مٹى كا ايك چبوترہ بنايا آپ (ص) اس چبوترہ پر تشريف فرماہو تے تھے اور ہم لوگ آپ (ص) كے پاس بيٹھتے تھے۔

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں: رسول خدا (ص) جب كسى كے ساتھ بيٹھتے تو جب تك وہ موجود رہتا تھا حضرت (ص) اپنے لباس اور زينت والى چيزوں كو جسم سے جدا نہيں كرتے تھے ۔

روايت میں ہے کہ '' پيغمبر (ص) كى سنت يہ تھی كہ جب لوگوں كے مجمع ميں بات كرتےتو ان ميں سے ايك ہى فرد كی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے بلکہ موجود سامعین میں سے ہر ایک کی طرف توجہ رکھتے تھے ۔
آصف حسین ناصر
About the Author: آصف حسین ناصر Read More Articles by آصف حسین ناصر: 4 Articles with 3174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.