تبدیلی ممکن نہیں

سراج الحق، طاہر القادری اور عمران خان سمیت کچھ مزید لوگ بھی پاکستان میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اپنے اپنے انداز میں تبدیلی کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان کا دھرنا اسلام آباد میں جاری ہے اور وہ شہر شہر کامیاب جلسے کرنے میں مصروف ہیں۔ یقینا ان کے جلسے بہت کامیاب ہیں۔ سراج الحق جماعت اسلامی کی روائتی اجتماع عام کو تبدیلی کا علامت بنانے کے لیے گزشتہ تین ماہ سے ملک کے کونے کونے میں جلسے اور ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان کے جلسے بھی بہت کامیاب رہے ہیں اور امید ہے ان کا اجتماع عام بھی سابقہ ریکارڈ توڑ دے گا۔طاہر القادری طویل دھرنے کے بعد بیرونی دورے سے واپس آنے والے ہیں۔ وہ ازسرنو اپنی جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔تبلیغی جماعت بھی دن رات محنت میں مصروف ہے، وہ اجتماعی تبدیلی کے بجائے انفرادی تبدیلی کا ایجنڈا رکھتے ہیں تاہم محنت میں وہ سب کو مات دے چکے ہیں۔ لاکھوں کے اجتماعات ہر سال کرتے ہیں اور ہر علاقے میں ہفتہ وار شب جمعہ بھی ان کی روایت ہے۔ ان کے ہاں افرادی قوت اور وسائل کا مسئلہ درپیش نہیں۔

نواز لیگ اپنی حکومت کو تبدیلی کا علامت قرار دیتے ہیں اور پی پی پی والے سندھ حکومت کو تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کے پی کے میں تحریک انصاف، پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پی پی پی کوئی تبدیلی رونما نہیں کرپائے۔ رشوت ، سفارش، اقربہ پروری، جیالہ نوازی اپنے عروج پر ہے، پولیس، پٹوار، عدالتیں، بلدیات، تعلیم، صحت سمیت تمام ادارے روائتی سامراجی انداز میں چلائے جارہے ہیں اور عوام مسلسل پس رہے ہیں۔جماعت اسلامی اور طاہر القادری کا ماڈل ابھی کہیں وقوع پذیر نہیں ہوا، ان کو ابھی آزمائش کی گھڑی سے گزرنا ہے۔تبدیلی فلحال ممکن نظر نہیں آ رہی۔ معاملات دن بدن بگڑرہے ہیں اور اصلاح کی کوئی امید دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس لیے عوام کی غالب اکثریت تبدیلی اور انقلاب کے دعویداروں کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آ رہی۔ اگر عوام کی غالب اکثریت کسی ایک جماعت کے ساتھ کھڑی بھی ہو جائے تو وہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکے گی۔

تبدیلی فرد کے تبدیل ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ جب فرد جھوٹ بولنے، حرام کھانے، کام چوری کرنے سے باز آ جائے اور ہر فرد اپنی ذمہ داری پورے اخلاص سے ادا کرنے کا عہد کرے گا اور عملاً اس چارٹر پر عمل پیرا ہو جائے گا تو تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا۔تبدیلی کا یہ چارٹر رحمت دو عالم حضرت محمد صلی اﷲ و علیہ و سلم نے صدیوں پہلے دیا تھا۔ تبدیلی اسی سے ممکن ہے، آپ کے چارٹر کو نظر انداز کرکے جتنی کوششیں کی جائیں گی سب رائیگاں جانی ہیں۔ اس لیے معاشرے کی اکثریت کومجموعی تبدیلی کے ایجنڈے پر انفرادی اصلاح کے کام کا آغازحضور صلی اﷲ و علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سید مودودی رحمتہ اﷲ نے کیا تھا، یہی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔ مفکر اسلام سیدمودودیؒ کے فارمولے کے مطابق تطہیر افکار، اصلاح معاشرہ اور تبدیلی قیادت کا فارمولہ ہی معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ فارمولہ فرد کے سوچنے اور فیصلہ سازی کی بنیادوں تو تبدیل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ جس میں فرد اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر عالمگیر اسلامی معاشرے کے مفادات کو مدنظر رکھ کر سوچتا اور فیصلے کرتا ہے۔ جہاں فیـصلے اپنے بجائے دوسرے انسانوں کو مفادات کے تحفظ کا بھی تقا ضا کرتے ہیں، اس طرح جب فرد کے سوچنے کی بنیادیں تبدیل ہو جائیں تو اس کے فیصلے دنیا سے زیادہ آخرت کی انجام کے مطابق تشکیل پاتے ہیں۔ تبدیل تب ہی ممکن ہے جب فرد اپنے بجائے اپنے بھائیوں کی خیر میں عافیت تلاش کرے۔ جب تک فرد اپنے خول سے باہر نہیں نکلتا تب تک تبدیلی محض خواب ہی رہے گی۔

معاشرے میں تبدیلی معاشی ایجنڈے یا محدود اصلاحات پر ممکن نہیں بلکہ تبدیلی کی بنیاد فکری تبدیلی سے شروع ہوکر کردار کی تعمیر اورسماج کی اصلاح کے ذریعے زمام کار کی تبدیلی سے ممکن ہوگی۔ اس کے علاوہ تمام نسخہ آزمائے جا چکے ہیں،نتیجہ مایوسی سے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ اس لیے اس مدنی فارمولے کو آزمانے کی ضرورت ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105318 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More