تیس اگست اور تیس نومبر ڈرا ہوا حکومت اور سہما ہوا عمران

پاکستان تحریک انصاف نے گذشتہ تین مہینے سے اسلام آباد میں دھرنے کی نام سے ایک میوزیکل شو منعقد کیا ہے ، جس میں لڑکیاں،لڑکے ،بوڑھے ،بوڑھیاں سب وقفے وقفے گاہے بگاہے شرکت کرکے جسم کی تھکاوٹ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کہنے کو یہ دھرنا ہے ۔لیکن جب وہاں جاکر دیکھا جائے ۔تو ایک میوزیکل کنسرٹ اور لکی ایرانی سرکس کی ممتاز بیگم (آدھا انسان آدھا جانور ) والی شو کی طرح وہاں پر آپ کو لطیفے سننے کو ملیں گے ۔ممتاز بیگم والی بات کچھ یوں ہے ۔کہ ایک دفعہ ہم دوست کراچی چڑیا گھر میں سیر کرنے گیے ۔وہاں پر لکھا تھا کہ ممتاز بیگم شو دیکھیں ۔جو آدھا انسان اور آدھا جانور ہے ۔ اور اس سے باتیں بھی کریں ۔ سب دوست بے چھین تھے کہ کب ممتاز بیگم دیکھنے جائیں گے ۔ خیر ٹکٹ لے لئے اور اندر چلے گیے ۔ کیا دیکھا کہ ایک ٹیبل پڑا ہو ا ہے ۔ اور پر لومڑی کے دھڑے کا جانور نما چیز پڑا ہو ا ہے ۔ا ور ساتھ ایک سر جو ہیجڑا کا ہے ۔ ہمیں السلام علیکم کہہ کر خود بخود اپنی زندگی کے بارے میں کہانی شروع کی ۔ میرے ایک دوست جو تھوڑا سا باتونی تھا اس نے ممتاز بیگم کو کہا کہ کیا میں آپ کو اٹھا کر دیکھ سکتا ہوں ۔ ممتاز بیگم چھونک گیئ ۔ نہیں نہیں مجھے تم ہاتھ نہ لگاؤ ۔اور پاس کھڑے چڑیا گھر کے ملازم نے وقت ختم ہو کر جانے کی تنبیہ کی ۔

میرا مطلب یہ ہے ۔ کہ عمران خان نے بھی اسلام آباد میں ایک ممتاز بیگم والا شو لگایا ہوا ہے ۔ جس کا ظاہری کچھ اور اور اندرکچھ اور ہے ۔ عمران کی یہ کہانی ١٤ چودہ اگست سے مولانا طاہر القادری کے مریدین کے ساتھ شروع ہو ا ۔ جو تیس اگست کو ایمپائیر کی انگلی کے اشارے سے پارلیمینٹ ہاؤس اور پی ٹی وی پر ہلہ بولنے تک جاری رہا ۔ اس کے بعد ان دونوں پارٹیوں نے ڈی چوک اسلام آباد میں خانہ بدوشوں کی طرح پڑاؤ ڈالا۔ خیمے لگائے ۔ اور دونوں پارٹیوں کے کینٹینروں سے لیڈران کرام گاہے بگاہے نکل کر سامنے تقلید کے مارے مریدین کو اپنے گسھے پٹھے بیانات و خطابات سے بے وقوف بناتے رہے ۔۔ عمران کی میوزیکل کنسرٹ(فیشن شو) کو اس وقت شدید جٹکا لگا ۔جب طاہر القادری نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلا ن کیا ۔ ورنہ دونوں لیڈران کرام نے ایک دوسرے کے ساتھ مرتے دم تک رہنے کی قسمیں کھائی تھیں ۔

لیکن قادری کھایا ثابت ہو ا۔اور موقع کی نزاکت کو جان کر دھرنے کو ختم کیا لیکن کزن ماشا ء اللہ ابھی تک وہاں روزانہ شام کو لیٹ نائٹ تک عورتیں نچھا کر اپنی خفت مٹھانے کی ناکام کوشش کر ہا ہے ۔لیکن اندر کی اصلیت عوام جان چکے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے ۔ کہ موجودہ حکومت تیس نومبر کے ڈیید لائن سے اتنی خوف زدہ کیوں ہے ۔ جب اس وقت یعی تیس اگست کو کچھ نہ ہوا ۔ تو اب کیا ہوگا ۔ جبکہ اس وقت کی ساری فساد کی ذمہ دار ہی عوامی تحریک تھی ۔ جنگلہ بھی عوامی تحریک کے کارکنوں نے تھوڑا تھا ۔اور پی ٹی وی پر حملہ بھی بقول عمران عوامی تحریک والوں نے کیا تھا ۔ عمران جو بھڑکیں مار رہا ہے ۔ وہ صرف اپنی خفت مٹانے کے لیے ہے ۔ ورنہ تیس اگست اور تیس نومبر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ عمران کو پتہ ہے ،کہ سوائے ان لوگوں کے جو پی ٹی آئ کے ایم پی اے یا دوسرے عہدیداران اپنے ساتھ لائیں گے ۔کو ئ اسلام آبا د نہیں آئے گا ۔
عوام عمران کی اصلیت جان چکی ہے ۔ اب یہ چاہے جتنا ۔ زور لگائے ۔ جتنا چاہے الزامات لگا ئے ۔ کو ئ اس کو سچا نہیں مانتا ۔ اس لیے حکومت کو پی ٹی آئ کے اسلام آباد جلسے میں کو ئ رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے ۔ ورنہ رکاوٹ ڈالنے سے یہ ہیرو اور مظلوم بن جائے گا ۔ اس لیے یہ جو چاہے کرنے دیں ۔ تیس نومبر حکومت کی نہیں عمران کی سیاست کے خاتمے کا دن ہو گا۔آپ کل کے دن عمران کے پریس کانفرس سے یہ بات عیا ں ہو چکی ہے ۔ کہ تیس نومبر کے ڈیڈ لائین سے عمران خود گومگوں کا شکا رہے ۔ اگر تیس نومبر کو عوام عمران کے کال پر نہ نکلے تو کیا ہو گا ۔ اس لیے عمران سہما ہو ا ہے ۔ اور اسی لیے بھکی بھکی باتیں اس کی منہ سے نکلتے ہیں ۔عمران جب یہ کہتا ہے کہ اگر حکومت نے ہمارے راستے میں کو ئ رکاوٹ ڈالی ۔ تو ہم ایک یا دو ہفتے بعد پھر آجایئنگے ۔ اس کا مطلب یہ ہے ۔ کہ اس کو بھی اندازہ ہے ۔کہ چودہ اگست کے کال پر میرے ساتھ جتنے لو گ نکلے تھے ۔ اگر تیس نومبر کو بھی اتنے ہی لو گ نکلے تو پھر کیا ہو گا ۔ اس لیے وہ حکومت کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاکہ حکومت غصے میں آئے اور اس کو گرفتا ر کرلے ۔ اگر عمران گرفتا ر نہ ہو ا اور تیس نومبر آیا ۔اور عوام عمران کے کال پر نہ نکلے ،تو عمران کو خود کشی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ۔

طاہر القادری کے ساتھ مریدین تھے جو تقلید کے مارے ہوئے وہ لوگ تھے جو طاہر القادری کی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھے ۔ وہ سر پھرے اپنےپیر سایئں کے ایک اشارے پر مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے تھے ۔ لیکن عمران کے ساتھ صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ عمران کے چاہنے والے بلا شبہ بہت ذیادہ ہیں ۔ لیکن سارے ممی ڈیڈی طبقے سے تعلق رکھنےوالے وہ لو گ ہیں جو عمران کے نئے پا کستان کی چالبازی کو وہ اپنا مستقبل سوچتے ہیں ۔ عمران کے چاہنے والوں اور ان کے خاندانوں نے چودہ اگست دو ہزار چودہ کی وہ رات دیکھی ہے ۔ جس میں ہر ماں باپ کو اپنے لخت جگر کی زندگی کی فکر پڑی ہوئ تھی ۔۔ ورنہ تیس اگست کے بعد عمران کا دھرنا دھرنا نہیں رہا ۔ منت ترلوں سے بلائے ہو ے لوگ اور ان کو ناچ گانے کی سہولت پہنچا کر خوش کرنا تھا ۔

میر حکومت وقت کو مشور ہ ہے ۔ کہ اب تک تین مہینے آپ لو گوں نے جس تحمل سے کام لیا ۔ تھوڑا سا اور کو شش کر لیں ۔عمران یا شیخ رشید کی گرفتاری سے گریز کریں ۔ یہ جتنا بھی اشتعال دلا ئے ۔ خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا نرمی میں جواب دیں ۔ اور ان کے خلاف ایکشن سے قطعاِِ گیز کریں ۔ تیس نومبر بھی آجائے گا اور گزر جائے گا ۔ اگر دھرنوں اور جلسوں سے حکومتیں گرائی جاتی تو ۔ اب تک نیے الیکشن بھی ہو چکے ہوتے ۔ دھرنا طاہر القادری نے دیا تھا اور اس نے ختم کیا ہے ۔ اب جو دھرنے کے نام پر اسلام آباد میں ڈرامہ ہو رہا ہے ۔ وہ صرف اپنا اور اپنے دوستوں کی دل بہلائ کے سوا اور کچھ نہیں ۔

حال ہی میں معلوم ہو اہے ۔ کہ عمران خان نے کسی لڑکی سے نکاح کیا ۔ تو شاید وہ لڑکی ہو، میرے خیال میں تو عمران خان کو اب رشتوں کی نہیں فرشتوں کی ضرورت ہے ۔ عمران کے ساتھ نکا ح کرنے والی لڑکی کو ن ہو گی ۔ میرے خیا ل میں یہ دھرنے کی کرامات ہو سکتی ہے ۔ ورنہ ایک جمائمہ خان بھی تو ہے ۔ اور کیا ضرورت تھی ۔

لیکن چلو یہ کہتے ہیں ۔ تبدیلی آ نہیں رہی ۔ تبدیلی آگئ ہے ۔ جمائیما کی جگہ ریحم خان ۔ ایک ثقافت کے دو نمونے ایک عمران کی دو بیویاں ۔ اللہ عمران کی حالت پررحم فرمائے ۔آمین
syed abubakar ali shah
About the Author: syed abubakar ali shah Read More Articles by syed abubakar ali shah: 28 Articles with 20481 views 36 years old men .graduate and civil employer .write articles for hamariweb for learning in journalism... View More