پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان بلوچ۔بے بہا خوبیوں کے حامل

چیٔر مین: شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنسز، جامعہ سرگودھا
سابق ایچ ای سی پروفیسرچیٔر مین۔ شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
سابق چیٔرمین شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس ، اسلا میہ یو نیورسٹی بہاولپور

(ڈاکٹر فاضل خان صاحب سے یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیاجو موضوع کی تحقیقی ضرورت تھا۔ انٹر ویو مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ڈاکٹر فاضل سے یہ مکالمہ ۲ مئی ۲۰۰۴ء کو ہوا جب وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس کے سربراہ تھے۔ اس کے بعد وہ اسلام آباد سے جامعہ سرگودھا کے شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنز کے سربراہ ، ساتھ ہی جامعہ کی لائبریری کے سرباراہ بھی ہوئے۔ آجکل وہ شعبہ کے سربراہ ہیں۔ ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں خان صاحب نے میرا تقرر شعبہ میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے کرادیا اور مجھے سرگودھا کی سرزمین تک کھینچ لے جانے میں کامیاب بھی ہوگئے۔میں نے کوئی ایک سال ڈاکٹر صاحب کی سربراہی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ جہاں وہ میرے اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میرے آفیسر بھی ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے کہ بہت اچھی گزری۔ فاضل صاحب بے بہا خوبیوں کے مالک ہیں۔ خاکہ نگا ر کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے ان میں وہ تمام پائی جاتی ہیں۔ میں جامعہ سرگودھا سے واپس آیاتو فاضل صاحب کا خاکہ لکھنے کا ارادہ لے کر آیا تھا مصروفیات ، صحت اور سعودی عرب آنے جانے تاحال نے مہلت نہیں دی ۔ زندگی نے وفا کی تو خان صاحب کو خاکہ قلم بند کرنے کی کوشش کرونگا۔ خان صاحب کے بارے میں مختصراً اپنے ایک مضمون ’’ جامعہ سرگودھا میں میرے شب و روز:کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘ میں لکھ چکاہوں۔ پیش نظر انٹرویو میں فاضل صاحب کے خیالات لائبریرین شپ کے بارے میں اور شہید حکیم محمد سعید کے بارے میں واضح
ہوتے ہیں۔

تعا رف :
پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان کو اسلا میہ یو نیورسٹی بہاولپورکے شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس کے با نی چیر مین ہو نے کا اعزاز حا صل ہے آپ یو نیورسٹی لا ئبریرین بھی رہے۔ اسلا میہ یو نیورسٹی بہاولپور سے لا ئبریری سا ئنس میں پی ایچ ڈی کر نے والے اولین اور پا کستان بھر میں تیسرے شخص ہیں۔ اس وقت آپ کی نگرا نی میں تقریباً بارہ ا سکا لرز لا ئبریری سا ئنس میں تحقیق کر رہے ہیں۔ ریٹا ئر منٹ کے بعد آپ کا تقرر بطور ایچ ای سی پروفیسر کے ہوا اور اس وقت آپ علامہ اقبال اوپن یونیوورسٹی اسلام آباد کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے سر براہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈا کٹر فا ضل نے پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز ۱۹۷۲ء میں پا کستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے ڈپلو مہ کورس سے کیا۔ ۱۹۷۶ء میں جا معہ کرا چی سے لا ئبریری سا ئنس میں ایم اے اور اسلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپور سے ۱۹۹۴ء میں لا ئبریری سا ئنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔آپ نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز
۱۹۷۳ ء میں علا مہ اقبال لا ئبریری رحیم یا رخان سے بطور لا ئبریرین کیا ، ۱۹۷۹ء میں اسلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپور کے لا ئبریرین اور ۱۹۸۳ء میں شعبہ لا ئبریری سا ئنس کے قیام کے بعدصدر شعبہ کے فرا ئض ریٹائرمنٹ تک انجام دئے۔

ڈاکٹر فا ضل پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ متعدد پیشہ ورانہ انجمنوں سے کسی نہ کسی حیثیت سے منسلک ہیں ۔ اس وقت آپ پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن پنجاب کے صدرہیں۔ پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کی جا نب سے آپ کو ۱۹۹۷ء میں گولڈن جوبلی گولڈ میڈل اور ۲۰۰۲ء میں لا ئبریری پروفیشن میں نمایاں خدما ت کے اعترف میں شیلڈ سے نوازاگیاڈاکٹر فاضل سے یہ گفتگواسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سا ئنس کے دورہ کے موقع پر ۲ مئی ۲۰۰۴ء کو ہوئی۔

۱ : آپ نے لا ئبریرین شپ کا پیشہ کب اور کیسے اختیار کیا ؟
ج : لا ئبریرین شپ کا پیشہ اختیار کرنے سے قبل میں اسسٹنٹ کمشنر کا ریڈر تھا۔ میرے ایک ہم جما عت اور دوست محمد عارف ایڈووکیٹ نے مشورہ دیا کہ جب آپ رشوت لیتے ، دیتے نہیں تو آپ کے لیے لا ئبریرین شپ کا پیشہ مناسب رہے گا۔ چنا نچہ عارف صا حب کے مشورہ کے مطا بق میں نے پا کستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لا ئبریرین شپ سے رجوع کیا جہاں میری ملا قات سید ولایت حسین شاہ مرحوم سے ہو ئی۔ صا حب مو صوف اس با ت پر خوش ہو ئے کہ میں ریڈرٹو اے ۔سی کے بجائے لائبریرین بننا چاہتا تھا۔ چنا نچہ ان کی شفقت اور مہر با نی نے میری مزید ڈھارس بندھائی اور میں نے ۱۹۷۲ء میں گروپ سے ڈپلو مہ ان ببلو گرافی اینڈ اسپیشل لا ئبریرین شپ حاصل کر لیااور اسی ڈپلو مہ کی بنیا د پر ۶ ۲ جنوری ۱۹۷۳ء میں علا مہ اقبال لا ئبریری بلدیہ رحیم یارخان میں بطور لا ئبریرین تعینات ہوا۔

۲ : اپنی تعلیم اور ملا زمت کے با رے میں بتائیں ، لا ئبریری سا ئنس کی اعلیٰ تعلیم کب اور کہا ں سے حاصل کی؟
ج : علا مہ اقبال لا ئبریری میں ملا زمت کے استقرار پر مجھے اس پیشہ میں تکمیل تعلیم کی فکر دامن گیر ہو ئی۔ سب سے پہلے میں پنجاب یو نیورسٹی کے شعبہ لا ئبریری سا ئنس کے چیر مین جنا ب (ڈاکٹر) ممتاز علی انور صا حب کی خدمت میں حا ضر ہوا لیکن انہوں نے بوجوہ مجھے داخلہ نہ دیا بعد ازآں میں کرا چی یو نیورسٹی کے شعبہ لا ئبریری سا ئنس کے چیرمین جنا ب (ڈاکٹر )غنی الا کرم سبزواری کی خدمت میں حا ضر ہوا۔ صا حب مو صوف نے جس شفقت اور مہر با نی سے مجھے داخلہ دیا اُسے بھول جا نا میرے بس میں نہیں۔ اﷲتعا لیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ چنا چہ ۱۹۷۵ء میں ڈپلو مہ اور ۱۹۷۶ء میں ایم ۔ اے لا ئبریری سائنس کی ڈگری حا صل کی۔ یہاں دو سال قیام کے دوران تمام اساتذہ کرام نے جس شفقت اور ہر با نی کا مظا ہر ہ فرما یا اُس نے میری زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے چنا نچہ ۱۹۸۳ء میں جب میں اسلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپور کے شعبہ کا چیر مین بنا تو اُس وقت سے اپنی ریٹائرمنٹ بطور چیرٔمین فروری ۲۰۰۲ء تک اپنے محترم و مکرم اسا تذہ کے نقش قدم پر چلنے کی کو شش کی۔

رحیم یار خان کے بعد میں ۶ فروری ۱۹۷۹ء کوبطور یو نیورسٹی لا ئبریرین اسلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپورکی سر وس میں داخل ہوا ۔ ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۴ء تک جب پروفیسر ڈا کٹر رفیق احمد شیخ صاحب اسلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپورکے وائس چانسلر تھے ۔ ڈاکٹر صا حب مو صوف کو میری سادگی ‘ صاف گوئی اورمحنت سے لگن کچھ اس قدر پسند آئی کہ انہو ں نے اسلا میہ یو نیورسٹی میں قیام کے دوران میری کسی التجا کو نہیں ٹھکرایا بلکہ جب مو صوف نے پنجا ب یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر منصب سنبھا لا تو اِ س بندہ نا چیز کی مثالیں دیتے تھے جو فقط ان کی اعلیٰ ظر فی اور بندہ نوازی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب پروفیسر ڈا کٹر ظفر صا حب پنجاب یو نیورسٹی کے رجسٹرار تھے تو ایک دفعہ فرما نے لگے کہ آپ نے ہمارے وائس چانسلر صا حب پر جا دو کیا ہوا ہے۔ بہر حال میں نے ڈا کٹر صا حب کی شفقت اور عنا یت سے فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے ایک تو اسلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپورمیں لا ئبریرین کیلیے بغیر رخصت لیے ہوئے پی ایچ ڈی کر نے کی اجازت حاصل کی بلکہ قاعدہ اور قانون(Rule) بنوایا۔ دوسرا اہم کام ۱۹۸۳ء میں شعبہ کا قیام تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس شعبہ کا امتیاز یہ ہے کہ ڈپلو مہ سے متصل ایم ۔ اے لا ئبریری سا ئنس کی کلاس کا اجرا ہوا اور یہ بھی اس شعبہ کا اعزاز ہے کہ یو نیورسٹی آف کرا چی کے شعبہ لا ئبریری وانفارمیشن سا ئنس کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کی گئی اور اب کم سے کم دس ریسرچ اسکالرز
سلا میہ یو نیورسٹی بہا ولپور کے شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

جہاں تک میری پی ایچ ڈی کا تعلق ہے تو میں سب سے پہلے اس سلسلہ میں استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ استاد محترم نے فرما یا کہ میں آپ کو پی ایچ ڈی کرانے کے لیے تیار ہوں لیکن کم از کم دو سال کی رخصت حا صل کر لو۔ چنا چہ میں نے اُس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈا کٹر رفیق احمد شیخ صاحب کو رخصت کے لیے درخواست دی تو انہوں نے میری درخواست پر بہت واضع طور پر لکھا (Your interest is dear to me but the interest of the University is more dear than your interest. Who run the library and the Department during your absence) اس عبا رت سے ظا ہر ہے شعبہ لا ئبریری سا ئنس کے قیام کے بعد بھی میں یو نیورسٹی لا ئبریرین تھا یہ دونوں ذمہ داریاں میں نے ۱۹۹۰ء تک نبھا ئیں اور یہ بھی واضح ہے کہ مجھے کر اچی یو نیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے چھٹی نہ مل سکی۔ بعد ازآں میں جنا ب پروفیسر ڈ اکٹر عبدالمعید صاحب مرحوم و مغفور کی خدمت میں حا ضر ہواتا کہ وہ میری پی ایچ ڈی کے لیے سپروائیزر بن جا ئیں۔ انہو ں نے میری توقع سے بھی زیادہ شفقت اور مہر بانی کا اظہار فر ما یا۔تا ہم وہ جلد ہی راہی ملک عدم ہو گئے۔ اﷲتعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ بڑے عظیم انسان تھے۔

بعد از آں استاد محترم جنا ب صادق علی خا ن صا حب کے مشورہ پر عمل کر تے ہو ئے پروفیسر ڈا کٹر رفیعہ احمد شیخ صا حبہ کی خدمت میں حا ضر ہوا۔ انہو ں نے بطور چیر پرسن اور ان کے رفقاء کا ر نے سندھ کی روائتی مہما ن نوازی کا ثبوت دیا لیکن بوجوہ مجھے اپنے ہاں پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن نہ دی۔ تا ہم میں نے ڈا کٹر صا حبہ کو اپنے شعبہ لا ئبریری سا ئنس کے بورڈ آف اسٹڈیز کا ممبر بنوالیا۔ جب ڈا کٹر صا حبہ بہاولپور تشریف لا ئیں تو اُن پر یہ حقیقت منکشف ہو ئی کہ میرا تعلق مظلوم طبقہ سے ہے۔ چنا نچہ انہو ں نے کما ل مہر با نی سے میری پی ایچ ڈی کی سپروائیزر بننے کی درخواست قبول فرما لی۔

۳ : آپ لا ئبریری تحریک کے فروغ اور ترقی میں حکیم محمد سعید شہیدکے کر دار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج : حکیم محمد سعید شہیدؒ لا ئبریری کی اہمیت اور قومی تر قی میں اِ س کے کردار کی اہمیت کے راز سے کما حقہ ‘ واقف تھے ۔ اِس لیےاُنہوں نے اس پیشہ کی ترقی و ترویج کیلئے ممکنہ حد تک کا وشیں کیں۔

۴ : آپ پاکستان میں لا ئبریری سا ئنس کی تعلیم کامستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
ج : شعبہ لا ئبریری اینڈ انفارمیشن سا ئنس یو نیورسٹی آف کرا چی اور جامشورو حیدرآباد میں سینئر اساتذہ مو جود ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں اِن ہر دو شعبہ جات کی کارکردگی اُمید افزا ہے اور قا بل تعریف بھی۔ دیگر شعبہ جات کی حا لت بہت ابتر ہے خدا کرے انہیں بھی قابل اور تجربہ کار اُستاد مل جا ئیں۔ تجربہ کار اساتذہ بیرون ملک سے آکر بھی اِن شعبہ جات میں شا مل ہو سکتے ہیں لیکن سازشیں ہیں اور شعبہ جاتی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کیا جا رہا ہے۔ تا ہم مایوسی کفر ہے۔اگر حکومت مخلصا نہ رویہ اختیارکرے اور نظام کو Library Oriented بنا دے اور شعبہ جات کو یہ سہو لت مہیا کی جا ئے کہ وہ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق افرادی قوت پیدا کرے تو ہما را مستقبل یقیناًتابناک ہوگا۔

۵ : ڈا کٹر عبد المعید کے علاوہ ڈاکٹر محمود حسین مر حوم اور حکیم محمد سعید شہید کو پاکستان میں لا ئبریری تحریک کا Pioneers تصور کیا جاتا ہے۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہنا چا ہیں گے؟
ج : اس با رے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ ڈا کٹر محمود حسین مرحوم اور حکیم محمد سعیدشہیدؒ ، دونوں حضرات کتاب اور کتب خانوں کے فروغ میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور انہوں نے عملی طور پر جو کردار ادا کیا ہے وہ علم کتب خانہ داری کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتاہے۔

۶ : اسپل(SPIL) کے تحت ملک میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی کی جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے جس میں قو می سطح پر سیمینار ‘ ورکشاپس ‘ اور کانفرنسیزکا انعقاد شا مل ہے۔ آپ کی رائے میں پا کستان لا ئبریرین شپ پر ان کے کیا اثرات مرتب ہو ئے؟
ج : اسپل(SPIL) کے تحت منعقد ہو نے والے سیمینار ‘ ورکشا پ اور کانفرنسیزنے نہ صرف پیشہ ور حضرات کے علم کو تازگی بخشی بلکہ اُنھیں اپنے پیشہ کی عظمت اور بلندی کا شعور دیااور یہی بات دیگر شرکاء کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ ورنہ اکثر و بیشتر حضرات جن کا شمار ارباب حل و عقد میں ہو تا ہے وہ لا ئبریری اور لا ئبریرین شپ کے مقام و مرتبہ سے بے خبر ہو تے ہیں۔

۷ : اس تحقیق کا تعلق حکیم محمد سعید شہیدکی ان خدما ت سے ہے جو آپ نے پا کستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خا نو ں کی تر قی کے لئے انجام دیں۔ کیا آپ اس موضوع پر کچھ کہنا چاہیں گے؟
ج : میں سمجھتا ہوں کہ حکیم محمد سعید شہیدؒ یوں تو پوری قوم کے لیے با عث رحمت اور شفقت تھے لیکن ہما رے پیشہ کیلئے ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ اگر حکیم صا حب جیسی شخصیت پر پی ایچ ڈی نہ کی جا ئے تو احسان فراموشی ہو گی۔ جس طرح برُائی سے برُائی پیدا ہوتی ہے اِسی طرح نیکی ، نیکی کا با عث بنتی ہے۔ حکیم محمد سعید شہیدؒ پر کتب خا نو ی خدمات کے حو الہ سے جو تحقیق ہو رہی ہے جو نہایت مفید ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے دیگر اہل ثروت اور علم دوست ارباب کی توجہ مبذول ہو۔

(یہ انٹر ویو مورخہ ۲ مئی ۲۰۰۴ء کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سا ئنس میں لیا گیا)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1261205 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More