بابا پشتون خان شہد عبدالصمد خان اچکزئی کےخدمات

انسانی تاریخ میں گنتی کے ایسے لوگ گزرے ہیں جو صرف اپنی ہمت ، جرات ،استقلال، قوت ارادی، فولادی مخلصانہ عزم ، عوام سے بے لوث محبت اور انقلابی فکروشعور اور انقلابی عمل کے زریع تاریخ میں ناقابل فراموش انمٹ مقام بنا سکیں ہیں۔ انہیں بلند پایئہ انقلابی انسانوں میں ایک نام : بابا پشتون خان شہد عبدالصمد خان اچکز ئی کا بھی ھے۔

بابا پشتون خان شہد عبدالصمد خان اچکزئی نے فرنگی استعمار کی غلامی کی چنگل کی ٓاگ سےاپنے وطن اور اپنے مظلوم عوام کو جابروں اور دیگر ضمیرفروشوں سے چھٹکارا دلانے کے مشکل ترین زمہ داری اٹھائی۔

اس وقت ان کو تین مشکل ترین محاذوں پر لڑنا تھا، ایک فرنگی استحمار سے دوسرے وطن فروشوں، دین فروشوں سے اور تیسرے اپنے عوام کو ازادی کا شعور دینے، انہیں غلامی کے جوئےکو اتار کر پھنکنے اور ازادی حاصل کرنے کےلئے عوام کا صف بستہ کرنے کے مرحلے سے۔

امید کی کوئی کرن نظر نہ ٓاتی تھی لیکن ہمت ہارنا ان جیسے افراد کا شیوہ نیں تھا ،سو عزم کا یہ کاروں سو منزل چل پڑا۔ منزل دور اور راستہ بڑا کھٹن تھا لیکن اوللعزم انسانوں کے لئے یہ چیزیں کھبی بھی راستے کا پتھر نیں بن سکتی ہیں۔نگہ بلند سخن دلنواز، جان پرسوز ہہی رخت سفر میر کارواں کے لئے ساتھی ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

فرنگی استعمار نے شہد اچکزئی ، ایوب خان اچکزئی اور دیگر رفیقوں اور ہمنواوں کے خاندانوں پر طرح طرح کے سے سختیاں کیں۔ جرمانے کئے، تشدد اور گرفتاریاں ،ان تمام کے باوجود اس جانباز قافلے کے ارادوں میں لغزش نہیں آئی۔

یہ 1931 کا زمانہ تھا جب جب خان شہد ہندوستان کے شہر ممبی وارد ھوتے ہیں،اس وقت دوسری گول میز کانفرنس لندن میں ھونے والی تھی، بمبی میں خان شہید کو کئی ہندوستانی رہنماوں سے ملاقات کے مواقع میسر آئے اور آپ نے ان کو مستعمرہ جنوبی پشتوانخوا اور ریاستی قلات کے حلات سے آگاہ کیا۔ باچا خان سے بھی ملاقات ھوئی۔ خان شہید پر سامراج اور ایجنٹوں کی طرف سے وطن کے غداری کے الزام لگائے اور اپکو قیدی اور نظر بند رکھا گیا۔ آدم خور سمراج اور ان کے دلالوں نے جب یہ دیکھا کہ ھر طرح کے انسانیت کش حربوں کے آزمانے کے بعد بھی یہ شخص حق وانصاف کی راہ سے ہٹنے پر آمادہ نظر نیں آتا تو ان جابروں نے اس شخص سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھڑانے کے لئے ایک ناپاک اور انسانیت سوز یزیدی منصوبے کو اپنایا اور 2 دسمبر 1973 کو بے لوث محبت رکھنے والے آزادی کے اس عظیم سالار اور مجاہد کی زندگی کی شمع کو گل کر دیا۔
Abdullah Khan Harifal
About the Author: Abdullah Khan Harifal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.