امن کا چراغ

10 جون 2007ء رات تقریباً1بجے کا وقت تھا ہم سینٹرل جیل فیصل آباد کی چکی نمبر 5 میں سوئے ہوئے تھے 12X10 کی چکی ہم پانچ افراد رہتے تھے میں حافظ عاقل آف کلورکوٹ ، مولانا محمد ابراہیم دریاخان ، مولانا سیف اللہ خالد اور ایک اور ساتھی جس کا تعلق شیخوپورہ سے تھا گرمی کی وجہ سے ہم نے مولانا سیف اللہ خالد کو بالکل دروازے کے ساتھ سلایا تھا اس کے بعد میں پھر حافظ عاقل پھر دوسرے ساتھی جگہ نہایت تنگ تھی مولانا چکی کی سلاخوں کیساتھ لگے ہوئے تھے ۔ جبکہ دوسری طرف مولانا محمد ابراہیم چکی کی دیوار کے ساتھ اسی کمرے میں واش روم تھا وارش روم بھی کیا چار فٹ کی دیوار ایک ہی ٹونٹی فلش بھی اسی 4-3 فٹ کی جگہ میں تھا ہم وہیں نہاتے تھے اور وہیں حاجت سے فراغت حاصل کرتے تھے بدبو گندگی غرضیکہ بڑے حوصلے کا کام تھا بہر حال اچانک 1/1/2 بجے رات کو مولانا نے ایک تکلیف اور درد بھری چیخ جیسی آواز نکالی میں ہڑبڑا کر اٹھا ساتھ ہی دوسرے ساتھی بھی جاگ گئے میرے پوچھنے پر بتایا کہ سینے میں شدید درد ہے ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے میں مولانا کا سینہ ملنے لگا حاجی عاقل نے چکی کی موٹی موٹی سلاخیں پکڑی اور زور زور سے آوازیں دینے لگے حوالدار سپاہی یوں لگتا تھا کہ یا تو ہیں نہیں یا جان بوجھ کر دم سادھے پڑے رہے ہم نے پلاسٹک کی خالی بوتلیں دروازے پر ماریں مگر جواب ندارد چیخ و پکار شور شرابے سے کچھ نہ ہوا ابراہیم اور شیخو پورہ والا ساتھی (نام ذہن میں نہیں رہا ) میرے ساتھ ملکر مولانا کی ٹانگیں دبانے لگے ہاتھ پائوں ملنے لگے مگر مولانا کی طبیعیت نہ سنبھلی سنٹرل جیل میں ہسپتال بھی موجود تھا مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ قیدیوں کیلئے نہیں ہے وہ رات ہم نے جس طرح گزاری ہمیں ہی پتا ہے کانٹوں پر رات گزارنے الا محاورہ اسی دن ہماری سمجھ میں آیا خدا خدا کرکے صبح ہوئی اللہ عزوجل نے اپنے حبیب پاکۖ کی صدقے کرم کیا صبح مولانا کی حالت کچھ سنبھلی ناشتے کے وقت ہم نے سپاہیوں سے سخت لہجے میں شکایت کی تو وہ کہنے لگے کہ یہ جیل ہے آپ لوگوں کا گھر نہیں اسی طرح ایک قیدی گوجرانوالہ کی جیل میں ہارٹ اٹیک ہوکر اللہ عزوجل کو پیارا ہوگیا ہم نے جب یہ سنا تو شکر ادا کیا کہ اللہ عزوجل نے ہمارے اوپر خاص کرم کیا اور مولانا کی جان بچ گئی ایک رات 12بجے کے بعد جب ہم گپیں لگا کر سوئے ہوئے نیند میں دھت تھے کہ بہت سارے بوٹوں کی دھمک سے ہماری آنکھ کھل گئی اچانک ہماری چکیوں کے دروازے زور زور سے کھلنے لگے سپاہیوں نے شور مچادیا اٹھو اٹھو باہر نکلو ہم خوفزدہ ہوگئے اٹھ کر بیٹھ گئے اور جلدی جلدی باہر نکلنے لگے میں نے مولانا سے کہا کہ مولانا لگتا ہے ہمارا ان کائونٹر ہونے والا ہے مولانا ملائمت سے کہا کہ اللہ عزوجل خیر کرے گا جو ہوگا دیکھا جائے گا وہ ہمیں قطار بنا کر چلانے لگے کافی دور جانے کے بعد ایک لائن میں کھڑا کردیا گیا میں نے گوجرانوالہ سے آئے ن لیگ کے ایک بٹ صاحب سے کہا کہ اب کیا بنے گا وہ کہنے لگا کہ ہم ہر صورت حال کا سامنا کریں گے بعد میں پتہ چلا کہ عدالت عالیہ کے حکم پر تمام سیاسی قیدیوں کے طبی معائنہ کرکے عدالت کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور رپورٹ ہر صورت میں صبح معزز چیف جسٹس ہائی کورٹ کو پہنچانا ہے ۔ہم نے سینٹرل جیل میں فیصل آباد میں جو وقت گزارا وہ زندگی کا مشکل ترین وقت تھا مگر ہم نے دیکھا کہ مولانا سیف اللہ خالد نہایت مطمئن اور صبر سے وقت گزارتے رہے اور ان کی بزرگی تدبر اور حوصلہ افزائی نے ہی ہمیں جیل کی یہ سخت ترین زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا اسی طرح کی سینکڑوں یادیں ہماری زندگی کا حصہ اور ہمارے ذہن پر نقش ہیں جنہیں لکھنے کا اب وقت نہیں بہر حال مولانا کی زندگی کو یوں یاد کریں گے کہ
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

مولانا کو مرحوم لکھتے ہوئے یارا نہیں اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی ذات میں اک ادارہ تھے تو بے جانا نہ ہوگا باوقار شخصیت گفتگو کا دلنشیں انداز صاف ستھرے لباس میں جب وہ بات کرتے تو سننے کا شوق بڑھتا لفظ کیا ادا کرتے تھے موتی پرودیتے تھے ہم نے گزشتہ بارہ سال ان کے ساتھ وقت گزارا جلسوں میں میٹنگوں میں پریس کانفرنسوں میں سفر و حضر میں جیل میں خوشگوار انداز میں ساتھ گزرا وقت جب یاد آتا ہے تو مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ شل ہوجاتے ہیں یقین نہیں آتا ان کی محبت کا اظہار ان کے ساتھ لوگوں کا پیار ہم نے ان کی زندگی میں دیکھا تھانہ سٹی بھکر کی حوالات میں دیکھا اور سنٹرل جیل فیصل آباد میں بھی دیکھا اور پھر ان کا جنازہ پڑھتے ہوئے لوگوں کا اژدھام بھی دیکھا ان کی وارفتگی بھی دیکھی اور یہ یقین ہوگیا کہ یقینا وہ ایک بڑے آدمی تھے کسی صوفی دانشور نے فرمایا تھا کہ بڑے آدمی انعام کے طور پر دنیا میں آتے ہیں اور سزا دینے کیلئے واپس بلا لئے جاتے ہیں وہ ایک انعام خداوندی کی صورت میں ہمارے ساتھ موجود رہے ہم خوش قسمت تھے جوان کے ساتھ وقت گزارا اپنے مسلک کے وہ ایک بڑے عالم تھے ہزاروں چاہنے والے ان کی اتباع کرنے والے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مسالک کے لووں کے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے نرم رویہ اور ملائمت ان کے مزاج کا حصہ تھا ہم نے بارہا امن میٹنگز میں دیکھا کہ وہ اپنا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کرتے تھے لیکن رویہ ہمیشہ مصالحانہ رکھتے تھے ہمیشہ امن و اتحاد کو فوقیت دیتے تھے اور دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے ہمیشہ گفتگو میں سختی سے اجتناب کرتے تھے جو بھی ان کی محفل میں بیٹھتا ہو مقروض ہوکر اٹھتا بقول شاعر
تاثیر بھرے لفظ اور ہر لفظ میں دعا
مقروض کردیا ہمیں تیرے خلوص نے

مولانا کی تمام عمر اسلام سے محبت اور جمہوریت سے وفا میں گزری مخدوم اہلسنت کے ساتھ ان کی جوانی کی جدوجہد گزری پی این اے کی تحریک میں مولانا سیف اللہ خالد بڑا متحرک اور یادگار کردار ادا کیا جلسے جلوس اور حکومت کے خلاف جدوجہد ان کا طرہ امتیاز رہا تحریک کے شدت کے دنوں میں روزانہ کسی نہ کسی چوک پر حکومت کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا یا کرتے تھے مخدوم حاجی سید عارف حسین قدوسی فرماتے ہیں کہ مولانا سیف اللہ خالد کسی موقع پر بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں مولانا سیف اللہ خالد اور امیر جماعت اسلامی چوہدری محمد ابراہیم 74ء کی تحریک میں قدم بہ قدم ساتھ رہے مولانا سیف اللہ خالد ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ان کے جانے سے بھکر کی مذہبی سیاست میں بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے قرب قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اچھے لوگ تواتر سے اٹھا لئے جائیں گے نواب زادہ نصراللہ خان قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی ، امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ، معراج خالد ، قومی سطح پر آگے پیچھے داغ مفارقت دے گئے جبکہ بھکر میں حضرت علامہ شیخ الحدیث مولانا شریف رضوی اور مولانا سیف اللہ خالد کی رحلت نے امن پسندوں کے دلوں کو غم سے بھردیا ہے حضرت واصف علی واصف ایک جگہ فرماتے ہیں زندگی یہ نہیں کہ تم کتنے خوش ہو زندگی یہ ہے کہ دوسرے تم سے کتنا خوش ہیں جو شخص صرف اپنا ہی خیال رکھے وہ حیوانی سطح پر زندگی گزارتا ہے کیونکہ حیوانات بھی کسی کا خیال نہیں رکھتے جو شخص اپنا بھی خیال رکھے اور دوسروں کا بھی وہ انسان ہے اور جو اپنا خیال کم رکھے دوسروں کا زیادہ وہ اللہ عزوجل کا دوست ہے اس کا نام مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے عظیم انسان بھی مرتے ہیں لیکن موت ان کی عظمت میں اضافے کا باعث بنتی ہے ایسے لوگوں کیلئے ہی کہا گیا ہے کہ
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے محبت نہیں رہی

مولانا سیف اللہ خالد نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہم خوش قسمت ہیں کہ ان کی صحبت میں رہے ہمارے تو وہ جیل فیلو تھے یہ جیل کی سنگت کا رشتہ بھی بڑا محبت بھرا ہوتا ہے ہم نے کتنیء ہی دن مولانا کے ساتھ جیل میں 24 گھنٹے ساتھ گزارے سخت ترین حالات میں جبکہ وہ بہت نازک اور طبعاً سلیم مزاج تھے بہت مطمئن و شادابی کیفیت میں رہے ہر وقت پڑھتے رہتے تھے جیل میں جمعہ کا دن ہوا تو ہم نے اہلکاروں سے کہا کہ جیل میں مسجد ہے ہمیں وہاں جمعہ کی نماز پڑھنے دو تو وہ کہنے لگے کہ جمعہ گھر جاکے پڑھنا ہم یہاں اجازت نہیں دے سکتے وہ بالکل ناراض نہیں ہوئے بلکہ کہنے لگے کوئی بات نہیں ہم یہیں پڑھ لیں گے کسی بھی مرحلہ پر مولانا نے صبر و برداشت کو نہیں چھوڑا وہ مختلف قسم کی بیماریوں میں گھرے تھے مگر استقامت کے پہاڑ تھے ہم نے سخت ترین احتجاج میں بھی دیکھا کہ پوری طرح گفتگو پر کنٹرول تھا جو بات کہنی ہوتی وہی کہتے تھے تعلق کو توڑتے نہیں تھے ہم گزشتہ گیارہ سال سے مشن نورانی امن سیمینار محرم میں منعقد کیا کرتے ہیں وہ مہربانی فرماتے اور آکر خوبصورت گفتگو کرکے لوگوں کے اذہان و قلوب کو امن کی طرف مائل کرتے اگر ایک فقرے میں بھکر کے امن کیلئے ان کی خدمات کی بات کی جائے تو وہ بھکر میں امن کے حقیقی علمبردار تھے ۔

ہم جب بھکر حوالات سے سنٹر جیل فیصل آباد جانے لگے تو ان کے سینکڑوں ملنے والے آبدیدہ تھے جن میں ہمارے بھائی اور مولانا سیف اللہ خالد کے فرزند مولانا ذکاء اللہ بھی شامل تھے وہ آبدیدہ تھ اور والد کی جدائی کی وجہ سے پریشان تھے ۔ہم نے ذکاء اللہ صاحب کو کہا کہ فکر نہ کریں انشاء اللہ میں اور مولانا سیف اللہ خالد پوری جرأت سے جیل کاٹیں گے آپ یہ یقین رکھیں کہ مولانا سیف اللہ خالد کے ساتھ علی حسنین چشتی نہیں بلکہ ذکاء اللہ خالد جارہا ہے کیونکہ ادب اور خدمت ہمارے مسلک کی بنیاد ہے اور شکر ہے رب کائنات کا کہ ہم سے جو خدمت ہوسکی ہم نے کی جیل میں مولانا کیلئے ہم ہر لمحہ ان کی محبت سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہمیں ان کی رفاقت کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ جب وہ تکلیف کی وجہ سے جلد رہا کردئیے گئے تو ہم سب ساتھی آبدیدہ ہوگئے بہر حال گزری باتیں ہیں سخت ترین حالات میں وہ رفیق نہیں بھولتے جو ساتھ رہے ہوں ہم جیل سے رہا ہوکر ائے تو مولانا نے ساتھیوں سمیت ہمارا اڈا جہان خان پر پرتپاک استقبال کرکے ہمیں یہ بتادیا کہ وہ ہم سے کتنا پیار کرتے ہیں اور ہمیں اپنی محبتوں کا مزید مقروض کردیا وہ اس بادل کی طرح تھے جو برستا ہے تو پھولوں اور کانٹوں پر یکساں برستا ہے اسی لئے کسی نے کہا تھا کہ
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دھر سے جن کے نشاں کبھی

بہر حال مولانا سیف اللہ خالد امن کا چراغ تھے جسے وہ اپنے ہی لہو سے جلا کے رکھتے تھے بھکر کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا وہ محبتوں کے سفیر تھے امن کے پاسبان تھے اور شاید بدترین مخالف بھی ان کی اسی خوبی کی وجہ سے یاد رکھیں گے وہ چلے گئے نظروں سے اوجھل ہوگئے لیکن جو سبق وہ دے گئے ہیں ان کے وارث ان کو ذہن و دل پر نقش کریں کیونکہ
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

ہم مولانا ذکاء اللہ خالد، رضا اللہ خالد ، اکرام اللہ خالد، ضیاء اللہ خالد کو یہ ضرور برادرانہ مشورہ دیں گے کہ وہ مولانا کے نقش قدم پر چل کر ان کی یاد ہمیشہ ان کے چاہنے والوں کے دل میں زندہ رکھ سکتے ہیں ان کے طرز عمل کو نشان منزل بنا کر ہی ان کی روح کو سکون دے سکتے ہیں حکیم نبی خان جمال سویدا نے فرمایا تھا کہ
راہ ہستی کا یہ دستور مقدر ہے جمال
نقش رہ جاتے ہیں انسان گزر جاتا ہے

ہم انشاء اللہ عزوجل انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے محبتوں اور عقیدتوں کے پھول برسا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے قبریں کبھی نہیں مٹتیں اگرچاہنے والوں کا آنا جانا ہو اللہ عزوجل اپنے حبیب پاکۖ کے صدقے ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
کتنی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 26118 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.