اقبال ایک لوکل شاعر

کمرے میں ہر سو اندھیرا جبکہ ایک جانب تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی میری رائٹنگ ٹیبل کے سامنے کرسی پر بیٹھنے والے کا ہیو لہ سا نظر آ رہا تھا میں بستر سے اٹھنے کی کوشش میں تھا کہ آنے والی آواز نے مجھے چونکا دیا ’’وہیں لیٹے رہو اور میری بات سنو ‘‘۔
آواز کا لحجہ کچھ اضطرابی کفیت کا تھا میں ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’آپ کون۔۔؟‘‘
’’میں علامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔’’علامہ طاہر القادری صاحب ‘‘میں نے بات مکمل ہونے سے پہلے کی بات اچک لی ۔’’نہیں علامہ محمد اقبال تمہارا شاعر مشرق جس کے کلام کے بغیر تمہارے اسکولوں میں صبح نہیں ہوتی ‘‘
’’ شکریہ ،علامہ صاحب آپ نے مجھے عزت بخشی ‘‘
’’تمہارے دانشور میری عزت کے درپے ہیں ایک توکچھ ذیادہ ہی اچھل اچھل کر اپنے قد کو بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا کہناہے اقبال ایک لوکل شاعر ہے جسے ہم نے خواہ مخواہ سر پر چڑھا رکھا ہے اور تو اور مجھے مشاہیر کا درجہ دینے کوتیار نہیں اس کے خیال میں جیسا آج کل تمہارے ملک میں ہر چیز چائنا سے آ رہی ہے تمہارا قومی شاعر بھی چائنا سے ہونا چا ہئے‘‘۔ان کے لہجے میں چھپی بے چینی صاف محسوس ہو رہی تھی
’’لیکن سر ۔! آپ یہ ساری باتیں ان سے بھی تو کر سکتے تھے ‘‘۔
’’میں کئی بار اس کی خواب گاہ میں گیا لیکن اسے خواب غفلت سے بیدار نہیں کر سکا میں تو یہی کہہ سکتا ہوں۔
اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
’’علامہ صاحب ! آپ پر تو ہر سال پوری دنیا سے بہت سے طالب علم تحقیق کرتے ہیں اور وہ آپ کی شاعری میں چھپی آپ کے دل کی باتیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں صرف ایک نام نہاددانشور کی باتیں آپ دل پر لے ہے ہیں جیسے عطاالحق قاسمی صاحب جیسے دانشور نے آپ کی شان میں فرما یا ’’اقبال وہ جن ہے جس کا قد آسمان سے باتیں کر رہا ہے اس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں میں جب اقبال کو پڑھتا ہوں میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ خدا جانے کنول کا یہ پھول کن پانیوں میں اگایا گیا ‘‘۔
’’وہ عطا کی محبت ہے جو انہیں اللہ رب العزت نے عطا کی ہے میں تمہارے اس دانشور کو بھی برا نہیں سمجھتا کیونکہ
برا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
اس شخص نے سکول ،کالج سے میرے کلام سے ہی عزت بنائی ہے اس کے علاوہ اپنی تحریروں میں بھی میرے کلام سے حوالے دیتا رہا میں نے تو کبھی اپنی قوم کو گالی نہیں دی لیکن اس کی تحریروں میں سوائے قوم کی تحقیر کے رکھا کیا ہے میں نے تو اپنی قوم کی رہبری کے لئے مسیحا کی دعا ہی کی ہے کیا میں نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کی اجتماعی صورت گری نہیں کی ہے۔۔۔؟ ‘‘وہ آرزودہ سے بولتے چلے گئے ۔
’’ جی،آپ بجا فرما رہے ہیں ‘‘ میں نے مختصر جواب دیا میں انہیں سننا چاہتا تھا ۔
’’ مجھے اگر خبر ہوتی کہ تمہارے دانشور کو چائنا کے شاعر بہت پسند ہیں تو جہاں میں نے فارسی میں اتنا کلام لکھا ہے کچھ چائنا کی زبان میں بھی لکھ دیتا اور تمہارے دانشور اس کا ترجمہ کرواتے پھرتے اور مجھے شاعر مشرق ہی تسلیم کر لیتے ‘‘۔وہ سانس لینے کے لئے رکے ’’اب دیکھو ممولے کو لڑا دے شہباز سے، اس میں کونسا ایسا فلسفہ ہے جو سمجھ نہیں آ رہا کیا وہ اپنی تحریروں میں میرے اس فلسفہ کی نفی کرتے ہیں نہیں، میں تمہیں اس کی دو ٹویٹ سناتا ہوں ’’لوگوں کا قتل عام کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ قسطوں میں مر رہے ہیں ۔خوکشیاں،غربت،کسمپرسی،امن وامان کی صورتحال ،فاقے ،بیروزگاریاں اور لوڈ شیڈنگ ‘‘دوسری ٹویٹ میں لکھتے ہیں’’پھر ان کا ٹھنڈا خون پیا جانا چاہئے جو جوش میں نہیں آتا ،کھولتا نہیں ظلم اور نا انصافیوں کے خلاف جس میں قوت برداشت شرمناک حد تک بڑھ گئی ہوتی ہے ‘‘۔
’’جی ،آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں ‘‘۔
’’کیا عوام کو حکومت وقت کے خلاف اکسانا ممولے کو شہاز کے ساتھ لڑانے والی بات نہیں اس کی تمام تحریروں میں گالیاں عوام کے لئے ہیں کہ وہ کیوں حاکم کے خلاف نہیں اٹھتے خود اس کا وقت کے ساتھ ساتھ قبلہ تبدیل ہو رہا ہے کبھی اسے کوئی سیاسی جماعت نجات دہندہ نظر آتی ہے اور وقت بدلنے کے ساتھ ہی اس کی پارٹی اور ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں ‘‘۔
’’بس جی کریں کیا ریٹنگ کا دور ہے کچھ اسے پڑھ رہے ہیں اور کچھ ٹی وی اس کو دانش بھگورتا دیکھ رہے ہیں بس ریٹنگ ہونی چاہئے ،چاہے وہ مثبت ہو یا منفی ‘‘۔میں نے اپنا موقف پیش کیا
’’وہ تم نے میری ایک نظم گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں ترنم کے ساتھ پڑھی تھی اس کے چند اشعار سناؤ کچھ تو میری افسردگی کم ہو ‘‘۔
’’جی،ضرور
کھول آنکھ زمین دیکھ ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ
کھول آنکھ زمین دیکھ ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ‘‘
’’دیکھو غروب کبھی طلوع پر حاوی نہیں ہو سکتا اس لئے مشرق کا پورے اقوام عالم پر حاوی ہونا اظہر من شمس ہے اور انشااللہ ایسا ہی ہو گا ‘‘ ان کے لہجے میں عجیب سی سر شاری تھی ۔
’’ جی انشااللہ ‘‘ ۔میرے منہ سے بے اختیار نکلا
’’اور اس کا ایک اپنا ہی شعر ہے
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا

اس سے کہنا الٹا ہی لٹک کر دیکھ لو شائد۔۔۔۔ ‘‘۔ انہوں نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیاان کا لہجہ شوخ سا تھا ۔
میری آنکھ موذن کی سحر بھری آواز سے کھلی جو نیند سے بیدار ہونے کاپیغام دے رہی تھی الصلوۃ خیر من النوم ،الصلوۃ خیر من النوم ،اللہ اکبر ،اللہ اکبر ،میں نے آنکھیں ملتے ہوئے سامنے دیکھا میری رائٹنگ ٹیبل کے سامنے کرسی یوں ہل رہی تھی جیسے ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہو ۔
***
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32000 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.