حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سلطان الاولیاء، قطب الاقطاب، محی الدین، شیخ الکل، غوث اعظم، سید عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ رمضان المبارک 471ھ کو جیل کے علاقے میں پیدا ہوئے اور 11 ربیع الاول 560 ھ کو بغداد شریف میں وصال فرما گئے۔ آپ کے والد گرامی امام الاتقیاء حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نواسہ رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ امۃ الجبار رضی اللہ عنہا سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدائشی ولی باکرامت ہیں، ماں کی گود میں تھے کہ رمضان المبارک کے دنوں میں ماں کا دودھ نہ پینے جیسی کرامات کا ظہور شروع ہوگیا۔

تعلیم وریاضت
آپ نے ابتدائی تعلیم جیل کے علاقے میں حاصل کی۔ 17، 18 سال کی عمر میں مرکز علم وعرفان بغداد شریف تشریف لے گئے اور 25 سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوگئے۔ اس کے بعد مسلسل پچیس سال مزید جنگلات اور غاروں میں مشکل ترین چلوں اور روحانی ریاضتوں میں مشغول رہے اور ہر طرح کے روحانی وباطنی کمالات کی تکمیل فرمائی۔

وعظ و تبلیغ و اصلاح و ارشاد:
521ھ کا واقعہ ہے کہ زیارت نبوی اور زیارت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مشرف ہوئے۔ نبی اکرمﷺ نے سات بار اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے چھ بار لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈالا اور وعظ و تبلیغ کا سلسلہ شروع کرنے کا حکم فرمایا اور مرکز ولایت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ کو قطبیت کبریٰ اور ولایت عظمیٰ کا جبہ عطا فرما کر پہننے کا حکم فرمایا۔

چنانچہ اس کے بعد آپ نے درس و تدریس وعظ ونصیحت اور اصلاح و ارشاد کا کام شروع کردیا، عظیم الشان مدرسہ اور لنگر خانہ قائم کیا، بڑی بڑی مجالس ( جن میں ستر ستر ہزار خواص و عوام کا اجتماع ہوتا تھا) قائم کیں، اور سلوک کے طلبہ کیلئے شاندار روحانی تربیت کا سلسلہ شروع کیا، اولیاء کاملین علماء ربانین مفتیان شرع اور قراء قرآن کی کثیر تعداد تیار کی جس کے نتیجے میں نہ صرف عراق بلکہ دنیا بھر میں آپ کے فیض یافتگان پھیل گئے اور دین اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہوئی اور آپ محی الدین (دین کو زندہ کرنے والے) کے لقب سے مشہور ہوئے۔

کرامات
قرآن مجید اور صحیح احادیث میں کرامات اولیاء کا ثبوت موجود ہے۔ سیرت نگاروں نے (جن میں بڑے بڑے محدث فقیہ اور اولیاء کاملین شامل ہیں) نے لکھا ہے کہ پہلی اور پچھلی امتوں میں کسی ولی اللہ سے اس قدر کرامات کا ظہور نہیں ہوا جس قدر کثرت اور تواتر کے ساتھ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
شیخ ابن تیمیہ (تمام وہابی فرقوں کے مسلمہ پیشوا وامام) نے اپنی کتاب ’’التقصار‘‘ میں لکھا ہے:
’’ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات ان گنت ہیں اور متواتر روایات سے ثابت ہیں۔‘‘
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی کوئی نشست کرامات سے خالی نہیں ہوتی تھی۔

دیو بندیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’التذکیر‘‘ حصہ سوم میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی کرامت کہ آپ نے مرغی کی ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا میرے حکم سے کھڑی ہو جا تو مرغی زندہ ہوگئی کا ذکر کیا ہے۔ آپ خود قصیدہ غوثیہ میں فرماتے ہیں:
بلاد اللہ ملکی تحت حکمی و قتی قبل قبلی قد صفالی
نظرت الی بلاد اللہ جمعا کخردلۃ علی حکم الاتصال

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی ساری کائنات میرے زیر فرمان ہے اور میرا وقت مجھ سے پہلے میرے لیے صاف تھا میں نے اللہ کی ساری کائنات کو ایک ہی وقت میں رائی کے دانہ کی مثل دیکھا۔
تمام سلاسل روحانیہ کے مشائخ آپسے فیض یاب ہوئے
سند المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ’’اخبار الاخیار‘‘ میں فرماتے ہیں ؂
غوث اعظم دلیل راہِ یقین * بہ یقین رہبر اکابر دین
اوست در جملہ اولیاء ممتاز * چوں پیغمبر در انبیاء ممتاز
مولانا جامی نے ’’نفخات الانس‘‘ صفحہ: 357 میں لکھا ہے کہ جب شیخ شہاب الدین عمر سہروردی (مورث اعلیٰ سلسلہ سہروردیہ) کو انکے چچا شیخ عبدالقاہر سہروردی نے بارگاہ غوثیہ میں پیش کیا اور حضرت غوث الاعظم نے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا، فرماتے ہیں اسی وقت اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ میں علوم لدنیہ بھر دیئے اور میں علم و حکمت کی باتیں کہنے لگا اور مجھے فرمایا تم کو آخر میں عراق میں بڑی شہرت حاصل ہوگی۔
اسی طرح سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلیٰ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہ غوثیہ میں حاضر ہوکر انواع واقسام کے فیوض وبرکات حاصل کئے اور عراق میں کام کرنے کی اجازت چاہی تو حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں نے عراق شیخ شہاب الدین سہروردی کو دے دیا ہے، آپ ہندوستان میں دین اسلام کا کام کریں۔‘‘ (’’تفریح الخاطر اربلی‘‘)
چنانچہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے ہندوستان میں لاکھوں غیر مسلموں کو دولت اسلام سے سرفراز فرما کر ہندوستان میں اسلام کی زبردست اشاعت فرمائی۔
ٍ کتب معتبرہ میں ہے کہ جب حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے بغداد کے محلہ حلبہ میں وعظ کرتے ہوئے حالت کشف میں فرمایا: ’’قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ۔‘‘
ترجمہ: ’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘
تو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ اس وقت خراسان کے پہاڑوں میں مجاہدات و ریاضات میں مشغول تھے) نے اپنی گردن اس قدر خم کی کہ پیشانی زمین سے چھونے لگی اور عرض کی:
’’قد ماک علی راسی و عینی۔‘‘
ترجمہ: ’’(اے غوث اعظم!) آپکے دونوں قدم میرے سر اور آنکھوں پر ہیں۔‘‘
اسی وقت بغداد شریف میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’غیاث الدین کے بیٹے نے گردن جھکانے میں سبقت کی ہے لہٰذا وہ جلد ہندوستان کی ولایت سے سرفراز کئے جائیں گے۔‘‘ (’’مہر منیر‘‘ اور دیگر کتب)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی شان میں ایک منقبت میں فرماتے ہیں:
چوں پائے نبی شد تاج سرت تاج ہمہ عالم شد قدمت
اقطاب جہاں درپیش ودت افتادہ چوں پیش شاہ گدا
خواجہ خواجگان حضرت خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ فرمان غوث اعظم ’’قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے امر سے تھا۔‘‘ (’’انوار شمسیہ‘‘ صفحہ: 7، 9)
شیخ عبد اللہ بلخی نے ’’خوارق الاحباب فی معرفۃ الاقطاب‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں فرمایا:
’’ 157 سال بعد نجارا میں ایک محمدی المشرب شخص محمد بہاؤ الدین نقشبندی نامی پیدا ہوگا جو ہم سے ایک خاص نعمت پائے گا۔‘‘
چنانچہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے جب میدان سلوک میں قدم رکھا اور حضرت خضر علیہ السلام کے اشارے پر حضرت غوث الاعظم کی طرف متوجہ ہوکر ’’الغیاث الغیاث یا محبوب سبحانی‘‘ پکارتے ہوئے سو گئے تو خواب میں زیارت غوثیہ اور فیوض و برکات سے مشرف ہوئے
’’تفریح الخاطر اربلی‘‘ اور دیگر کتب معتبرہ میں ہے کہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمان غوثیہ ’’قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ‘‘ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے بلا توقف فرمایا:
ترجمہ: ’’ آپکا قدم میری آنکھ اور دل پر ہے۔‘‘
حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ ذیل اشعار آج بھی غوث اعظم رضی اللہ علیہ کے مزار شریف پر لگے ہوئے ہیں :
بادشاہ ہر دو عالم شاہ عبد القادر است سرور اولاد آدم شاہ عبد القادر است
آفتاب و مہتاب و عر ش و کرسی و قلم نور قلب از نور اعظم شاہ عبدالقادر است
(بحوالہ ’’بہجۃ الاسرار‘‘ ، ’’قلائد الجواہر‘‘)
تفسیر روح المعانی میں ہے کہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے سرتاج امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی نے قطبیت کبریٰ کا مقام حضرت امام مہدی کے ظہور تک حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص کیا ہے۔ حضرت مجدد اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’ وصول فیوض وبرکات دریں راہ بہر کہ باشد از اقطاب و نجباء بتوسط شریف او مفہوم می شود چہ ایں مرکز غیر او را میسر نہ شد ازیں جاست کہ فرمود ؂
افلت شموس الاولین و شمشنا ابداََعلیٰ افق العلی لا تغرب (’’مکتوبات امام ربانی‘‘ جلد سوم)
ترجمہ: اس راہ میں فیوض وبرکات کا وصول تمام قطبوں اور نجیبوں کو آپ کے وسیلے سے ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ مرکزی مقام آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں اسی وجہ سے آپ نے فرمایا: اگلوں کے آفتاب ڈوب گئے لیکن ہمارا سورج بلندی کے آفاق پر ہمیشہ چمکتا رہیگا اور کبھی غروب نہیں ہوگا‘‘
علماء دیو بند کے پیرو مرشد حاجی محمد امداد اللہ مہاجر مکی حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی شان میں کہتے ہیں:
خداوندا بحق شاہ جیلاں محی الدین و غوث و قطب دوراں
بکن خالی مرا از ہر خیالے و لیکن آں کہ زو پید است حالے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام سلاسل روحانیہ کے مشائخ بلا واسطہ یا بالواسطہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوئے ہیں اور پوری دنیا حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فیض و برکت سے مستنیر ہے۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ؂
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی قطب خود کون ہے خادم تیرا چیلا تیرا
ختم گیارہویں شریف
ختم گیارہویں شریف ایک کثیر الفوائد تربیتی نظام ہے جو تلاوت قرآن مجید، نعت خوانی، وعظ و نصیحت، تبلیغ دین، ذکر و فکر و مراقبہ، تزکیہ نفس، خواص و عوام کیلئے لنگر عام، صالحین سے ملاقات، ایصال ثواب صلوٰۃ وسلام اور دعاؤں جیسے امور خیر پر مشتمل ہے۔ شیخ المشائخ حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ بذات خود ہر ماہ کی گیارہویں تاریخ اس تقریب کو منعقد فرماتے۔
نیز فرماتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی یہ تقریب حضور نبی پاکﷺ کے عرس کی غرض سے ہوتی تھی۔ (’’انتخاب مناقب سلیمانی‘‘ صفحہ: 130)
بعدازاں 11 ربیع الآخر 560ھ کو حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو آپکے سجادہ نشینوں نے 11 تاریخ ختم شریف کا سلسلہ جاری رکھا۔
چنانچہ سند المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’ملفوظات عزیزی‘‘ صفحہ:62 میں فرماتے ہیں:
’’حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابرین جمع ہوتے، نماز عصر کے بعد مغرب تک کلام اللہ کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم کی مدح میں قصائد ومنقبت پڑھتے، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اردگرد مریدین حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکر جہر کرتے، اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی، اسکے بعد طعام شیرینی جو تیار کی ہوتی تقسیم کی جاتی اور نماز عشاء پڑھ کو لوگ رخصت ہوجاتے۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ’’ماثبت بالسنہ‘‘ میں ختم گیارہویں شریف پر کلام فرمایا ہے اور ذکر کیا ہے کہ ان کے استاد اور پیر و مرشد امام عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ اور انکے مشائخ عظام بھی گیارہویں تاریخ کو ختم دلاتے تھے۔ نیز لکھا ہے کہ ہمارے ملک (ہندوستان میں) حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی اولاد اور مشائخ عظام میں گیارہویں تاریخ متعارف ہے۔
شیخ المشائخ حضرت مرزا مظہر جان جاناں کا مشاہدہ
سند المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’کلمات طیبات‘‘ فارسی صفحہ: 78 میں فرماتے ہیں:
’’ مکتوبات حضرت مرزا مظہر جان جاناں علیہ رحمۃ میں ہے کہ میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا ہے جس میں بہت سے اولیاء اللہ حلقہ باندھ کر مراقبہ میں ہیں اور ان کے درمیان حضرت خواجہ نقشبند دوزانو اور حضرت جنید تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں۔ استغناء ماسوا اللہ اور کیفیات فنا آپ میں جلوہ نما ہیں، پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دیے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو ان میں سے کسی نے بتایا کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ تشریف لائے آپ کے ساتھ ایک گلیم پوش، سر اور پاؤں سے برہنہ ژولیدہ بال ہیں۔ حضرت علی نے انکے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے ساتھ اپنے ہاتھ مبارک میں لیا ہوا تھا
میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو جواب ملا کہ یہ خیر التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہورہی تھی۔ یہ تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک شخص نے کہا:
ترجمہ: ’’آج حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کا عرس (گیارہویں شریف) ہے عرس پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں۔‘‘
ختم گیارہویں کے خلاف اعتراضات
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ وان لیس للانسان الا ماسعی‘‘ یعنی نہیں ہے انسان کیلئے مگر جو اسنے کوشش کی۔ لہٰذا اس آیت کی رو سے کسی مسلمان کی دعا یا کسی مسلمان کے عمل سے دوسرے مسلمان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
2۔ ختم گیارہویں کی مروجہ صورت عہد نبوی اور عہد صحابہ میں نہ تھی، لہٰذا یہ بدعت و گمراہی اور دین میں اضافہ ہے
3۔ گیارہویں کی تاریخ اللہ اور اسکے رسولﷺ نے مقرر نہیں کی۔ لہٰذا یہ بھی بدعت اور دین میں اضافہ ہے۔
4۔ ختم گیارہویں میں ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیاً للہ‘‘ اور ’’امداد کن امداد کن‘‘ جیسے کلمات شرکیہ ہیں۔ کیونکہ مردوں سے امداد مانگنا یا کسی کو غائبانہ پکارنا شرک ہے ۔
7۔ غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز شرک ہے۔ جب کہ کہا جاتا ہے یہ غوث اعظم کی نیاز ہے۔
6۔ ’’وما اہل بہ لغیر اللہ‘‘ یعنی اور (حرام کیا اس چیز کو) جس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔ لہٰذا گیارہویں پر غوث اعظم کا نام پکارنے کی وجہ سے یہ حرام ہے۔
7۔ غوث اعظم کا معنیٰ ہے سب سے بڑا فریاد رس۔ یہ کلمہ شرکیہ ہے کیونکہ سب سے بڑا فریاد رس اللہ تعالیٰ ہے.
پہلا اعتراض:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وان لیس للانسان الا ما سعی۔‘‘ (11)
ترجمہ: ’’اور یہ کہ نہیں ہے انسان کیلئے مگر جو اس نے کوشش کی۔‘‘
لہٰذا معتزلہ فرقہ اور اس زمانہ میں ان کے پیروکاروں کا اعتراض ہے کہ اس آیت کی رو سے انسان کو صرف اپنی کوشش اور عمل سے فائدہ پہنچتا ہے دوسروں کی دعاؤں یا ایصال ثواب (اپنی نیکی کا دوسروں کو ثواب پہنچانا) سے فائدہ نہیں پہنچتا۔
جواب: اس آیت کا یہ مفہوم لینا غلط ہے کیونکہ اس سے بہت سی آیات اور احادیث کی مخالفت و نفی لازم آتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
’’والذین جاء وا من بعدہم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان۔‘‘ (12)
ترجمہ: ’’اور جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر گئے۔‘‘
قرآن مجید میں ہے: ’’ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب‘‘ (13)
ترجمہ: ’’اے میرے رب میری، میرے والدین اور مومنین کی بخشش فرمانا جس دن حساب قائم ہو۔‘‘
یہ دعاء سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے اور نماز میں سب مسلمان یہ دعاء کرتے ہیں۔ اس سے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کیلئے دعاء کرنا روز روشن کی طرح ثابت ہے۔
حدیث مبارک میں ہے:
’’ما من رجل یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلا لا یشرکون باللہ شیا الا شفعھم اللہ فیہ۔‘‘
ترجمہ: ’’نہیں ہے کوئی (مسلمان) شخص جس کی نماز جنازہ میں چالیس شخص کھڑے ہوجائیں جو مشرک نہ ہوں مگر اللہ تعالیٰ اس میت کے بارے میں ان کی شفاعت قبول فرماتا ہے۔‘‘ (14)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
’’عن عبد اللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ما ا لمیت فی القبر الا کالغریق المتغوِّثِ ینتظِر دعوۃً تلحقہ من اب او ام او اخ او صدیق فاذا تلحقہ کان احبَّ الیہ من الدنیا وما فیہا وان اللّٰہ تعالیٰ لیدخل علی اہل القبور من دعاء اہل الارض امثال الجبال من الرحمۃ وان ھدِیَّۃ الاحیاء الی الاموات الاستغفارلھم۔‘‘
ترجمہ: ’’نبی پاکﷺ نے فرمایا: قبر میں میت ایسے ہے جیسے پانی میں ڈوبنے والا اور اپنی مدد کیلئے فریاد کرنے والا، میت دعا کا انتظار کرتی ہے جو اسے باپ، ماں، دوست اور بھائی کی طرف سے پہنچتی ہے۔ پس جب دعا میت کو پہنچتی ہے تو وہ اس کیلئے دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعاؤں کی وجہ سے قبر والوں پر پہاڑوں کی مثل رحمت داخل فرماتا ہے اور بے شک زندوں کا مردوں کیلئے تحفہ ان کیلئے دعاءِ مغفرت ہے۔‘‘ (15)
ایک اور حدیث میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’یتبع الرجل یوم القیمۃ من الحسنات کامثال الجبال فیقول انی لی ہٰذا فیقال باستغفار ولدک لک۔‘‘
ترجمہ: قیامت کے دن ایک آدمی کے پیچھے پہاڑوں کی مثل نیکیاں چلیں گی تو وہ کہے گا یہ نیکیاں کہاں سے ہیں؟ تو کہا جائیگا تیرے لئے تیری اولاد کی دعا ء مغفرت کی وجہ سے. (16)
ان احادیث مبارک سے بھی دعاء کی افادیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص عاص ابن وائل(جوکہ کافر تھا) نے 100غلاموں کو آزاد کرنے کی وصیت کی، اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے تو اس کے دوسرے بیٹے عمرو نے باقی پچاس غلاموں کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا اور کہا میں رسول اللہﷺ سے پوچھتا ہوں تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ میرے باپ نے سو غلاموں کو آزاد کرنے کی وصیت کی تھی میرے بھائی ہشام نے پچاس غلام آزاد کردیئے ہیں اور پچاس باقی ہیں کیا میں اس کی طرف سے آزاد کردوں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’انہ لو کان مسلما فاعتقتم عنہ او تصدقتم عنہ او حججتم عنہ بلغہ ذالک۔‘‘ (17)
ترجمہ: ’’بیشک وہ اگر مسلمان ہوتا تو تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو ضرور یہ ثواب اسے پہنچ جاتا۔‘‘
ایک حدیث میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا:
’’ہٰذا عنی وعمن لم یضح من امتی۔‘‘ (18)
ترجمہ: ’’یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے ہر اس شخص کی طرف سے جس نے قربانی نہیں دی‘‘
ایک اور حدیث مبارک میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ ہم مردوں کیلے دعائیں کرتے ہیں اور ان کی طرف سے صدقات اور حج کرتے ہیں کیا یہ چیزیں مردوں کو پہنچتی ہیں تو فرمایا:
’’انہ یصل الیھم ویفرحون بہ کما یفرح احدکم بالھدیۃ۔‘‘ (19)
ترجمہ: ’’بیشک یہ انہیں پہنچتی ہیں اور اس سے وہ خوش ہوتے ہیں جیسا کہ تم میں سے کوئی ایک ہدیہ سے خوش ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارک میں رسول اللہﷺ نے میت کو ثواب پہنچنے کے بارے میں اٹل فیصلہ فرمادیا۔ نیز فرمایا کہ قبر والے دعاؤں صدقات اور حج کا ثواب پہنچانے سے خوش ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اہل سنت ختم گیارہویں اور دیگر ختموں میں حضور نبی اکرمﷺ اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں کو ثواب پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث نبوی کے مطابق ختم دلانے سے نبی اکرمﷺ اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندے ختم دلانے والوں پر خوش ہوجاتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے: ’’عن الشعبی کانت الانصار اذا مات لھم المیت اختلفوا الی قبرہ یقرؤن القرآن۔‘‘
ترجمہ: ’’امام شعبی فرماتے ہیں: انصار مدینہ جب ان کا کوئی وفات پاتا تو وہ اس کی قبر پر آتے جاتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔‘‘ (20)
اسی مقام پر مفسر قرآن حضرت قاضی ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’حافظ شمس الدین ابن عبدالواحد کہتے ہیں ہر شہر کے مسلمان ہمیشہ سے اکٹھے ہوکر اپنے مردوں کیلئے قرآن خوانی کرتے ہیں اور کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، تو یہ اجماع امت ہوا۔‘‘
مسلمانوں کیلئے دعاءِ مغفرت اور ایصال ثواب (اپنی نیکی کا دوسروں کو ثواب پہنچانا) اس پر بے شمار دلائل ہیں اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کیا ہے اور یقیناًایک حق کے متلاشی کے لئے یہ دلائل ناکافی نہیں ہیں۔
اسی طرح ورثاء کا میت کی طرف سے حج بدل کرنا یا اس کے قرضے اتارنا اس جیسی اور بہت سی صورتیں ہیں کہ ایک مسلمان کے عمل سے مسلمان اموات کو فائدہ پہنچتا ہے۔ لہٰذا صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا (تفسیر بغوی) اور کئی مفسرین نے کہا ہے اس آیت میں سعیٰ سے مراد ایمان ہے اور معنیٰ یہ ہے کہ انسان صرف اپنے ایمان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یعنی اگر کافر ہے تو دوسرے کے ایمان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسی طرح آیات کا ظاہری تعارض ختم کرنے کیلئے مفسرین نے اور تاویلیں بھی کی ہیں۔ * *

حوالہ11: ’’قرآن مجید‘‘ سورہ نجم، پارہ نمبر 26، آیت نمبر 39۔
حوالہ12: ’’قرآن مجید‘‘ سورہ حشر، پارہ نمبر 28، آیت نمبر 10۔
حوالہ13: ’’قرآن مجید‘‘سورہ ابراھیم، پارہ نمبر 13، آیت نمبر 41۔
حوالہ14: ’’صحیح مسلم‘‘ کتاب الجنائز، باب من صلیٰ علیہ اربعون شفعوا فیہ، حدیث نمبر 1577۔ وغیرہ
حوالہ15: ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ باب الاستغفار و التوبۃ، الفصل الثالث، صفحہ: 206 ۔ و’’شعب الایمان‘‘ للبیھقی
حوالہ16: ’’رواہ البخاری فی الادب المفرد‘‘ صفحہ نمبر 9 ۔ و’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘
حوالہ17: ’’سنن ابو داؤد، کتاب الوصایا، باب ماجاء فی وصےۃ الحربی الخ، حدیث: 2497۔ و ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘
حوالہ18: ’’سنن ترمذی، کتاب الاضاحی، عن رسول اللہ، باب ما جاء ان الشاۃ الواحدۃ الخ، حدیث نمبر 1425۔
حوالہ19: ’’مسند احمد‘‘۔ و’’الاکمال‘‘ لابن ماکول، جز نمبر 2 صفحہ نمبر 313، دار الجبل بیروت۔
حوالہ20: ’’تفسیر مظہری‘‘ و’’ شرح الصدور‘‘ للسیوطی
دوسرا اعتراض:
ختم گیارہویں کی مروجہ صورت عہد نبوی و عہد صحابہ میں نہ تھی لہٰذا یہ بدعت و گمراہی اور دین میں اضافہ ہے۔
الزامی جواب:
کتنے ہی دینی کام ہیں جن کی مروجہ صورت عہد نبوی و عہد صحابہ میں موجود نہیں تھی مخالفین ان کو بدعت وگمراہی اور دین میں اضافہ قرار کیوں نہیں دیتےَ مثلاََ قرآن کے مختلف زبانوں میں ترجمے، قرآن مجید کے حاشیے اور تفاسیر کی کتب، بخاری و مسلم سمیت حدیث کی بڑی بڑی کتابوں کی موجودہ ترتیب و صورت، مدارس دینیہ میں مروج مختلف نصاب اور تمام دینی کتابیں، تبلیغ دین کے مروجہ جدید طریقے اور جلسے و کانفرنسیں، مساجد کے نئے نئے نقشے و ڈیزائن جو کہ عہد نبوی و عہد صحابہ کی مسجد نبوی سے قطعاََ مختلف ہیں، مخالفین کے مدرسوں میں ختم بخاری، جہاد کے جدید ہتھیار، مسجدوں کے مینار، نماز باجماعت کے مقررہ اوقات۔ تلک عشرۃ کاملہ
اگر یہ سب کام عہد نبوی و عہد صحابہ میں اپنی موجودہ صورت کے ساتھ موجودنہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے جائز اور دینی کام ہیں کہ ان کے اندر دینی فائدہ ہے تو ختم گیارہویں اور ذکر میلاد کے اندر بھی دینی فائدہ ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ مخالفین ان کاموں کو بدعت قرار دینے میں بہت خیانت سے کام لیتے ہیں۔ ورنہ یہ کام بدعت سیۂ کے زمرے میں نہیں آتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میلاد میں شان مصطفی بیان کی جاتی ہے اور ختم گیارہویں شریف میں شان اولیاء بیان کی جاتی ہے اور مخالفین کے دل شان مصطفی و شان اولیاء کے بغض و عناد سے بھرے پڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے!!!
تحقیقی جواب:
بدعت کا معنیٰ ایجاد ہے۔
اور شارع مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شرعاََ بدعت سے مراد دین میں وہ نئی چیز ہے جو نبی اکرمﷺ کے ظاہری زمانے میں نہیں تھی۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ)
ارشاد نبوی ہے:
’’من احدث فی امرنا ہٰذا مالیس منہ فھورد۔‘‘
ترجمہ: ’’جو ہمارے اس دین میں ایسی چیز پیدا کرے جو اس دین میں سے نہ ہو (یعنی دین میں اس پر کوئی دلیل نہ ہو بلکہ وہ نئی چیز دین کی مخالف یا دین کو بدل دینے والی ہو ) تو وہ مردود ہے۔ (11)
اس حدیث مبارک میں نبی اکرمﷺ نے دین میں ہر نئی چیز کو مردود قرار نہیں دیا۔ (اگر آپ ایسا فرما دیتے تو آج مساجد و مدارس اور دین کی تعلیم و تبلیغ کا سارا نظام بدعت سیۂ و مردود قرار پاتا) بلکہ ایسی نئی چیزوں کو مردود قرار دیا جن پر شرع شریف میں کوئی دلیل نہیں لہٰذا اس حدیث کی بنیاد پر محدثین اور فقہا نے بدعت (دین میں نئی بات) کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔
1۔ بدعت حسنہ 2۔ بدعت سیۂ
مرزا غلام احمد قادریانی کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں میں زندہ نہیں ہیں اور نزول مسیح سے مراد یہ ہے کہ اس امت میں ایک شخص مثلِ عیسیٰ پیدا ہوگا اور وہ مرزا قادیانی ہے یہ عقیدہ دین میں نئی چیز ہے اور اس کی کوئی دلیل شرع میں نہیں ہے بلکہ شرع کے مخالف ہے لہٰذا یہ عقیدہ بدعت سیۂ ہے۔ اسی طرح مخالفین اہل سنت کا عقیدہ کہ نماز میں رسول اللہﷺ کا خیال لانا گائے گدھے کے خیال میں ڈوب جانے سے کہیں برا ہے (صراط مستقیم اسمٰعیل دہلوی) اور اس قسم کے دیگر گستاخانہ عقائد بدعت سیۂ ہیں۔ جبکہ قرآن کے ترجمے، دینی کتابیں، تعلیم اور تبلیغ کے جدید طریقے، میلاد اور ختم گیارہویں شریف کے روح پرور دینی کاموں جیسے نئے نئے طریقے بدعت حسنہ ہیں۔
بدعت حسنہ کے جواز و استحباب کا واضح اشارہ اس حدیث میں بھی ہے:
من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا۔‘‘ (12)
ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والے کے ثواب کی مثل بھی۔‘‘
بلکہ فقہا اسلام نے فرمایا: بعض بدعاتِ حسنہ واجب کا درجہ رکھتی ہیں جیسا کہ فہم قرآن کیلئے علم نحو پڑھنا۔
نیز حدیث پاک کل بدعۃ ضلالۃ ترجمہ ہر بدعت گمراہی ہے اس حدیث کے تحت محدثین نے لکھا ہے کہ یہاں بدعت سیۂ مراد ہے یعنی ہر بدعت سیۂ گمراہی ہے۔
تیسر ااعتراض:
یہ ہے کہ ختم گیارہویں کی تاریخ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے مقرر نہیں کی لہٰذا یہ بھی بدعت اور دین میں اضافہ ہے۔
الزامی جواب:
یہ ہے کہ مخالفین بھی کانفرنسوں، تبلیغی اجتماعات، تعلیم و تعلم، نکاح شادی اور کئی اور خالص دینی کاموں کیلئے تاریخ اور وقت مقرر کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ایسے کاموں کیلئے کوئی نظام الاوقات مقرر نہیں ہوتا۔ تو وہ اسے بدعت اور دین میں اضافہ قرار کیوں نہیں دیتے؟ تو جس طرح بے شمار دیگر کاموں میں وقت اور تاریخ مقرر کرنا جائز ہے اسی طرح گیارہویں شریف اور دیگر ختموں میں بھی جائز ہے!!!
تحقیقی جواب:
یہ ہے کہ اگر شرع شریف نے کسی کام (مثلاََ روزہ رمضان حج میں وقوف عرفات) کی تاریخ یا وقت مقرر کردیا ہے تو اس شرعی تاریخ یا وقت کو تبدیل کرنا بدعت اور دین میں تبدیلی ہے اور اگر شرع شریف نے ایک کام کا وقت مقرر نہیں کیا جیسے قرآن خوانی، تعلیم و تعلیم، نفلی عبادات، نکاح، ذکر میلاد، ایصال ثواب، دعاء، ادائیگی زکوٰۃ اور دیگر بے شمار دینی کام تو بندوں کیلئے ایسے دینی کاموں کیلئے وقت، تاریخ مقرر کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔ مشکوۃ المصابیح میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعرات کا دن وعظ کیلئے مقرر کیا تھا۔ چنانچہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا تو گویا اجماع صحابہ قائم ہوگیا کہ اچھے کاموں کیلئے تاریخ مقرر کرنا شرعاََ جائز ہے۔
چوتھا اعتراض:
چوتھا سوال یہ ہے کہ ختم گیارہویں میں ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی...‘‘ اور ’’امداد کن امداد کن...‘‘ جیسے کلمات شرکیہ ہیں۔ کیوں کہ مردوں سے امداد مانگنا یا کسی کو غائبانہ پکارنا شرک ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دور و نزدیک سے سننے دیکھنے اور تصرف کرنے کی طاقت عطا فرماتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
’’قال الذی عندہ علم من الکتاب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک۔‘‘ (13)
ترجمہ: ’’ایک شخص (آصف بن برخیا) جس کے پاس کتاب کا علم تھا، نے کہا میں وہ تخت (یعنی بلقیس کا تخت صنعاء یمن سے ملک شام میں) آپ کے پاس آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں۔
بخاری شریف میں ہے:
ما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ فاذا احببۃ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا و لو سئلنی لا عطینہ ولو استعاذنی لا عیذنہ‘‘ (14)
ترجمہ: ’’میرا بندہ نفل عبادات کے ذریعے قرب کے مدارج طے کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگے تو میں اسے اپنی پناہ عطا فرماتا ہوں۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک لشکر حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں نہاوند کے علاقے میں لڑرہا تھا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران فرمایا:
’’یاساریۃ الجبل۔‘‘
’’اے ساریہ! پہاڑ (یعنی پہاڑ کی پناہ لے لو)۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر فاروق کی آواز نہاوند میں حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ نے سنی۔ (15)
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو ایسی روحانی طاقت عطا فرماتا ہے کہ وہ خدائی صفات کا مظہر بن جاتے ہیں لہٰذا وہ دور و نزدیک سے دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، تصرف کرسکتے ہیں، یقیناًحضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ جو کہ امت مصطفی کے مرکزی ولی اور غوث اعظم ہیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار کرامات سے نوازا اور اعلیٰ روحانی طاقت عطا فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
نظرت الی بلاد اللہ جمعا کخردلۃ علی حکم الاتصال
ترجمہ: ’’میں نے اللہ کے تمام شہروں کو بیک وقت اس طرح دیکھا جیسے رائی کا دانہ۔‘‘ (قصیدہ غوثیہ)
نیز یاد رہے کہ موت کے بعد سننے دیکھنے کی طاقت دنیا کی نسبت زیادہ ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
’’بے شک میت (دفن کرکے جانے والوں کے) جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ ‘‘ (16)
ظاہر ہے کہ ایک زندہ آدمی کے اوپر اتنی مٹی ڈال دی جائے تو وہ نہ باہر سے دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے۔ اسی طرح اہل قبور کا سلام کی آواز سننا اور جواب دینا بھی احادیث نبویہ سے ثابت ہے۔
نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندے کو جو مقام محبوبیت اور جو روحانی تصرفات کی طاقت دنیا میں عطا فرماتا ہے موت کے بعد اسے سلب نہیں فرماتا بلکہ اس میں اور اضافہ فرماتا ہے۔ مخالفین کی مسلمہ شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’و لہٰذا گفتہ اند کہ ایشاں در قبر خود مثل احیاء تصرف می کنند۔‘‘ (ہمعات ہمعہ 11)
ترجمہ: ’’اسی لئے وہ (اولیاء کرام) فرماتے ہیں کہ آپ (حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ) اپنی قبر میں زندوں کی مثل تصرف کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا چاروں سلسلوں کے اولیاء کرام سے ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأللہ‘‘ کا وظیفہ ثابت ہے اور دیو بندیوں وہابیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأللہ‘‘ صحیح العقیدہ سلیم الفہم کیلئے جواز کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ (17)
پانچواں اعتراض:
غیر اللہ کی نذر و نیاز شرک ہے جب کہ کہا جاتا ہے یہ غوث اعظم کی نیاز ہے۔
جواب:
شرع شریف میں نذر یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی مقصودی عبادت کو جو اس پر فرض نہ ہو اپنے آپ پر لازم کرے۔ اس معنیٰ میں نذر کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے لیکن عرف عام میں نذرکا معنیٰ تحفہ اور ہدیہ ہوتا ہے جیسے شعراء کہتے ہیں: یہ منقبت یا یہ شعر فلاں شخصیت کو نذر کیا جاتا ہے۔ تو کبھی کسی نے اسے شرک قرار نہیں دیا اسی طرح جب نذر و نیاز کا لفظ اولیاء کرام کی طرف منسوب ہوتا ہے تو عرف عام میں اس سے مراد عبادت کے ثواب کا وہ تحفہ و ہدیہ ہوتا ہے جو بزرگوں کی ارواح کو پہنچایا جاتا ہے۔ اور پہلے سوال کے جواب میں ہم دلائل شرعیہ سے ثابت کرچکے ہیں کہ مسلمان اپنی ہر قسم کی عبادات (بدنی، مالی اور مرکب) کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ مخالفین کے مسلمہ بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ لاکن حقیقت این نذر آنست کہ اہداء ثواب طعام و انفاق و بذل مال بروح میت کہ امریست مسنون واز روئے حدیث صحیحہ است مثل ماورد فی الصحیحین من حال ام سعد وغیرہ الخ۔‘‘ (18)
ترجمہ: ’’لیکن اس نذر کی حقیقت یہ ہے کہ کھانے یا مال خرچ کرنے کا ثواب کسی میت کی روح کو ہدیہ کر دینا جو کہ مسنون ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کے بارے میں حدیث کی دو صحیح کتابوں میں روایت وارد ہوئی ہے۔‘‘
چھٹا اعتراض:
’’وما اہل بہ لغیر اللہ‘‘ (19) یعنی اللہ نے حرام کیا اس چیز کو جس پر اللہ کے غیر کا نام پکارا جائے۔
لہٰذا گیارہویں غوث اعظم حرام ہے کیوں کہ اس پر غیرخدا شیخ عبدالقادر جیلانی کا نام پکارا جاتا ہے
الزامی جواب:
اگر کسی چیز پر غیر خدا کا نام پکارنے سے وہ شئی حرام ہوجاتی ہے تو تمام مسجدیں اور مدرسے (جیسے فیصل مسجد، مسجد اہل حدیث، جامعہ اشرفیہ وغیرہا) کو بھی حرام ہو جانا چاہئے اور اسی طرح عورتوں پر مردوں کا نام بولا جاتا ہے کہ یہ عورت فلاں کی بیوی ہے اسی طرح گھروں، زمینوں، پلاٹوں، گاڑیوں حتیٰ کہ قربانی و عقیقہ کے جانوروں پر غیر خدا کانام بولا جاتا ہے لہٰذا ان تمام اشیاء کو حرام ہوجانا چاہئے حالانکہ ایسا نہیں ہے لہٰذا ایصال ثواب کی چیزوں پر حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دیگر بزرگان دین کا نام پکارنا بھی جائز ہے۔
تحقیقی جواب:
ایصال ثواب کی چیزوں پر بزرگوں کا نام پکارنا سنت صحابہ سے ثابت ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’ یارسول اللّٰہﷺ ان ام سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفر بئراََ وقال ہذا لام سعد‘‘
ترجمہ: ’’ اے اللہ کے رسول! بیشک ام سعد فوت ہوگئی ہیں کونسا صدقہ بہتر ہے؟ فرمایا: پانی۔ تو انہوں نے ایک کنواں کھودا اور کہا: یہ سعد کی ماں کا ہے۔‘‘ (20)
یہ کنواں اللہ کے نام کا صدقہ تھا تو صحابی رسول نے اپنی ماں کو ثواب پہنچانے کی نیت سے اپنی ماں کی طرف منسوب کیا بلکہ اس کنویں کا نام ’’بئر ام سعد‘‘ پڑ گیا تو رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام میں سے کسی شخصیت نے اسے ناجائز قرار نہیں دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ صدقہ و عبادت کی چیزوں پر مجازی طور پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کا نام پکارنا جائز ہے
معترض نے ’’وما اہل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ کا جو ترجمہ کیا ہے یہ ترجمہ وہابی علماء کا خود ساختہ اور غلط ترجمہ ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ وہ ہے جو جمہور مفسرین نے کیا ہے۔ امام المفسرین صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں:
ما ذبح لاسم غیر اللہ عمدا للاصنام۔‘‘ (21)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس جانور کو جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام پر یعنی بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
وہابیوں کی مسلمہ شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ترجمہ قرآن ’’فتح الرحمن‘‘ میں یہی ترجمہ کیا ہے۔
الحمدللہ روئے زمین کے مسلمان جانوروں کو اللہ تعالیٰ کے نام (باسم اللہ اکبر) کے ساتھ ذبح کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے نبی یا ولی کے نام پر جانور کو ذبح نہیں کیا۔
ٍ ساتواں سوال:
غوث اعظم کا معنیٰ ہے سب سے بڑا فریاد رس۔ یہ کلمہ شرکیہ ہے کیوں کہ سب سے بڑا فریاد رس اللہ تعالیٰ ہے
الزامی جواب:
یہ ہے کہ قائد اعظم کا معنیٰ ہے سب سے بڑا رہنما، وزیر اعظم کا معنی ہے سب سے بڑا مددگار یا سب سے بڑا ذمہ دار، فاروق اعظم کا معنیٰ ہے سب سے بڑا حق و باطل میں فرق کرنے والا اور صدیق اکبر کا معنیٰ ہے سب سے بڑا سچا۔ لغوی معنیٰ کے اعتبار سے ان سب کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئے لیکن عرف میں ان کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر نہیں کرتے بلکہ قائد اعظم، بانی پاکستان محمد علی جناح کو کہا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کسی ملک کے انتطامی سربراہ کو کہا جاتا ہے۔ فاروق اعظم صحابی رسول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہا جاتا ہے۔ اور صدیق اکبر صحابی رسول حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہا جاتا ہے۔ تو جس طرح یہ الفاظ مخصوص معنیٰ کے اعتبار سے بندوں کیلئے جائز ہیں اور آج تک کبھی کسی نے ان کو شرکیہ قرار نہیں دیا اسی طرح غوث اعظم کا مخصوص معنیٰ کے اعتبار سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی پر اطلاق جائز ہے۔
تحقیقی جواب:
غوث کا معنیٰ ہے: فریادرس یا مددگار یا فریاد کرنے والا۔ حقیقی فریاد رس اور مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا سے اللہ تعالیٰ کے بندے بھی فریاد رس اور مدد گار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنوا‘‘ (22)
ترجمہ: ’’تمہارا مددگار اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ لوگ جو ایمان ہوئے۔‘‘
اس آیت مبارک میں ایمان والوں کو بھی مددگار قرار دیا گیا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں غوث اللہ کے نیک بندوں کے ایک مرتبہ کا نام ہے اور غوث اس ولی اللہ کو کہا جاتا ہے جو اپنے زمانے میں ولایت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہو اور اولیاء کرام اس سے فیوض و برکات حاصل کرتے ہوں۔ بخاری شریف میں ہے ولو سئلنی لا عطینہ اگر وہ (ولی اللہ) مجھ سے مانگے تو ضرور میں اسے عطا کرتا ہے۔ (23)
اس حدیث کے مطابق ولی اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مانگنے والا اور فریاد کرنے والا ہوتا ہے اور اس کا رب اسے اپنے خزانوں میں سے عطا کرنے والا ہوتا ہے اور آیت بالا سے ثابت ہے کہ بندگانِ خدا مدد کرنے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا غوث کے دونوں معنیٰ فریاد کرنے والا اور فریاد رس اور امداد کرنے والا ’’ولی اللہ‘‘ کے اندر شرعاََ
ثابت ہوئے۔
صوفیاء اسلام نے قطب الاقطاب محی الدین والسنہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اس امت کے اولیاء کا سلطان اور غوث اعظم قرار دیا ہے۔ چنانچہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ؂
یا غوث معظم نور ہدیٰ مختار نبی مختار خدا
سلطان دو عالم قطب علیٰ حیران ز جلالت ارض وسما
(مہر منیر)
لہٰذا واضح ہوگیا کہ غوث اعظم اللہ کے محبوب بندوں کے ایک مرتبہ کا نام ہے اور اس سے یہ مراد نہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (الیعاذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے مددگار ہیں۔تو جس طرح صدیق اکبر سے مراد صحابہ کرام اور امت مسلمہ میں سب سے بڑا سچا مراد ہے، فاروق اعظم سے صحابہ کرام اور امت مسلمہ میں سب سے بڑے حق وباطل میں فرق کرنے والا مراد ہے، جس طرح قائد اعظم سے تحریک پاکستان کے رہنماؤں میں سے بڑا رہنما مراد ہے، اسی طرح غوث اعظم سے اولیاء کرام کی جماعت میں سے سب سے بڑا فریاد کرنے والا اور فریاد رسی کرنے والا ولی اللہ مراد ہے
آٹھواں اعتراض:
کھانا سامنے رکھ کر اس پر قرآن پڑھنے اور اس پر دعا کرنے کا ثبوت کیا ہے؟
جواب:
کھانے پر قرآن مجید کی تلاوت اور دعا کرنے کی شرع شریف میں کہیں ممانعت نہیں آئی البتہ قرآن مجید کی جب بھی تلاوت کی جائے یا دعا کی جائے تو اس پر ثواب کا وعدہ احادیث مبارکہ میں موجود ہے بلکہ کھانے پر کلام پڑھنے کی اور دعا کرنے کی دلیل خاص بھی احادیث میں موجود ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک طشت میں حلوہ بھیجا تو مجھے حضورﷺ نے فرمایا فلاں فلاں کو اور جو بھی تمہیں ملے بلا لاؤ فرماتے ہیں 300 آدمی جمع ہوگئے۔ فرماتے ہیں:
’’فرأیت النبیﷺ وضع یدہ علی تلک الحیسۃ وتکلم بما شاء اللّٰہ۔‘‘
ترجمہ: ’’میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ اس حلوہ پر رکھا اور جو اللہ نے چاہا کلام پڑھا۔‘‘
اور دس دس افراد کو کھانے کی دعوت دی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ سب لوگوں نے پیٹ بھر کر حلوہ کھایا لیکن اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ (24)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ تبوک کے سفر میں کھانے کی اشیاء ختم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سخت بھوک نے ستایا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر حضورﷺ نے بچی کھچی اشیاء طعام کے ڈھیر پر دعاء برکت فرمائی۔ حدیث پاک میں ہے:
’’فدعا رسولﷺ بالبرکۃ وقال خذوا فی اوعیتکم‘‘
ترجمہ: یعنی رسول اللہﷺ نے دعائے برکت فرمائی اور فرمایا اسے اپنے برتنوں میں محفوظ کرلو۔‘‘ (25)
چنانچہ لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا اور تمام برتن بھی بھر لیے لیکن اشیاءِ طعام ختم نہیں ہوئیں!!!

حوالہ11: ’’صحیح مسلم‘‘ کتاب الاقضےۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ، ورد محدثات الامور، حدیث: 3242۔
حوالہ12: ’’صحیح مسلم‘‘ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ الخ، حدیث: 1691۔
حوالہ13: ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 19، سورہ نمل، آیت نمبر 20۔
حوالہ14: ’’صحیح بخاری‘‘ کتاب الرقاق، باب التواضح، حدیث نمبر 6021، ترقیم الاحادیث: العلمیہ۔
حوالہ15: ’’دلائل النبوہ بیہقی‘‘ و’’الاصابہ‘‘ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، جز:3، صفحہ:6، دار الجبل بیروت
حوالہ16: ’’صحیح بخاری‘‘ کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252۔
حوالہ17: ’’امداد الفتاوی‘‘ جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 94۔
حوالہ18: ’’فتاوی عزیزیہ‘‘ جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 121۔
حوالہ19: ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 2، سورہ بقرہ، آیت نمبر 173۔
حوالہ20: ’’سنن ابوداؤد‘‘ کتاب الزکوٰۃ، باب فی فضل سقی الماء، حدیث نمبر 1431، ترقیم العلمیہ۔
حوالہ21: ’’تفسیر ابن عباس‘‘ سورہ بقرہ، آیت نمبر 173۔
حوالہ22: ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 7، سورہ مائدہ، آیت نمبر 55۔
حوالہ23: ’’صحیح بخاری‘‘ کتاب الرقاق، باب التواضح، حدیث نمبر 6021، ترقیم الاحادیث: العلمیہ۔
حوالہ24: ’’صحیح بخاری‘‘ کتاب النکاح، باب النسوۃ اللاتی یھدین الخ، حدیث: 4765۔
و ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ باب المعجزات، الفصل الاول، صفحہ: 539، طبع قدیمی کتب خانہ کراچی۔
حوالہ25: ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ باب المعجزات، الفصل الاول، صفحہ: 538۔ و’’صحیح مسلم‘‘۔
پیرآف اوگالی شریف
 پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 7 Articles with 12291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.