اسے کہتے ہیں تبدیلی!

یہ محض ایک نعرہ ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ تبدیلی تو آ چکی ہے۔ مکمل طور پر نہ سہی جزوی طور پر ضرورآئی ہے۔ لوگوں کی سوچ بدلی ہے ۔ لوگوں کے رویے بدلے ہیں۔یہاں تک کہ لوگوں کی تو حرکات بھی بدلی بدلی سی لگ رہی ہیں۔ اور تو اور موسم بھی بدل رہا ہے۔ اشرف بتا رہا تھا کہ اُس نے اپنی دو سال سے پہنی ہوئی بنیان بھی بدل ڈالی ہے۔البتہ اُس کے جوتے ابھی پُرانے ہیں جسے وہ اگلے سال بدلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جب تبدیلی کی لہر آتی ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ کچھ چیزیں تو فوراً بدل جاتی ہیں لیکن کچھ چیزوں کو بدلنے میں دیر لگتی ہے۔جیسے مہنگائی فوراًہو جاتی ہے۔ جبکہ آمدنی کے بڑھنے میں بہت وقت لگتا ہے۔اسی طرح بہت سے ایسے معاملات ہیں جو ابھی تک جوں کے توں ہیں جیسے۔۔۔آج بھی آم کھائیں تو آم کا ہی مزہ آتا ہے۔ آج بھی امرود سیب کا مزہ دینے سے قاصر ہے۔آ ج بھی 7up کی بوتل پینے کے بعد ڈکار یں ہی آتی ہیں۔آج بھی مولی والا پراٹھا کھا کر بس میں سوار ہو جائیں تو پوری بس خالی ہو جاتی ہے۔ آج بھی سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہائیں تو ٹھنڈ لگتی ہے۔ آج بھی سرکاری نلکے سے پانی کم اور ہوا زیادہ آتی ہے۔ آج بھی آنکھیں بند کر لیں تو کچھ نظر نہیں آتا۔آج بھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے بارش کی دعائیں کی جاتی ہیں۔آج بھی گنجا پن چھپانے کے لیے نقلی بال لگوانے پڑتے ہیں۔آج بھی دودھ والا دودھ میں پانی کی بجائے پانی میں دودھ ملا کر بیچتا ہے۔آج بھی سورج مشرق سے اور چاند مغرب سے نکلتا ہے۔آج بھی ستارے صبح ہونے سے پہلے بجھ جاتے ہیں۔آج بھی کوا کائیں کائیں ہی کرتا ہے۔ آج بھی فرد نکلوانے کے لیے پٹواری کو نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی سرکاری نوکری کے لیے بڑی سفارش اور بھاری رشوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج بھی ناکے پر کھڑے پولیس ڈاکے سے بچ جانا بڑے نصیب کی بات ہے۔آج بھی الیکشن جیتنے کے لیے دھاندلی کی بجائے دھاندلا کرنا پڑتا ہے۔اور پھر اس دھاندلی کا رونا رونے کے لیے دھرنا دینا پڑتا ہے۔

تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جس میں سیدھا ،اُلٹا اور اُلٹا،سیدھا نظر آتا ہے۔کالا ،گورا اور گورا، کالا ہو جاتا ہے۔میٹھا ،کڑوا اور کڑوا، میٹھا بن جان جاتا ہے۔تبدلی اصل میں کسی شے کے یکسر بدل جانے کا نام ہے۔ جیسا کہ فقیر حسین کے ہاں بڑی منتوں مرادوں کے بعد بیٹا ہوا تھا۔ چاند جیسے بچے کا نام انہوں نے بلاول رکھا تھا۔ بلاول جب تھوڑا سا بڑا ہوا تو گلی محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ کوئی ایسی حرکت کربیٹھتا کہ تمام لڑکے اُس پر ہنسنے اور مذاق اُڑانے لگ جاتے۔ وہ روتا ہواگھر آکر اپنی ماں کواپنے دشمن نما دوستوں کی شکائت کرتا تو اُس کی ماں اُسے سمجھا نے کی کوشش کرتی کہ دنیا میں رہنا ہے تو تکلیفوں کا سامنا کرنا سیکھو ورنہ دنیا تمہیں جینے نہیں دے گی۔بلاول جب سکول جانے لگا تو وہاں بھی اُس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا جو محلے کے لڑکے اُس کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ وہ ٹیچر کے پاس شکائت لے کر جاتا تو وہ بھی اُسے ایک ہی بات سمجھاتے کہ بیٹا مرد ہو تو مرد بن کر جیو یہ عورتوں کر طرح روز روز شکائتیں لے کر آ جانا مردوں کو زیب نہیں دیتا ۔ آخر ٹیچر نے محسوس کیا کہ بلاول کی حرکات و سکنات میں کچھ تبدیلی آرہی ہے۔ وہ کچھ عجیب سی چال چلنے لگا ہے۔ یہ چال نہ لڑکوں کی ہے اور نہ لڑکیوں کی۔چال کے ساتھ ساتھ اُس کا بات کرنے کا انداز بھی کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے۔یہ بات ٹیچر نے کافی دنوں تک نوٹ کی اور آخر اُسے یہ بات اُس کے باپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا پڑی۔بلاول کے باپ کو اُس کے ٹیچر کی یہ بات بُری لگی اور اُس نے اُسے دوسرے سکول میں داخل کروا دیا۔

بلاول اب بڑا ہو چکا تھا۔ باپ نے سوچا اب اسے کسی کام دھندے پر لگا دینا چاہیے ۔باپ نے اپنی جمع پونجی لگا کر اُسے ایک کاسمیٹکس کی دوکان بنا کر بیٹے کے حوالے کر دی۔کاسمیٹکس کی دوکان پر زیادہ تر خواتین ہی آتی ہیں۔ کیونکہ وہاں عام طور پر اُن کی ضرورت کا ہی سامان ملتا ہے ۔ جیسے نیل پالش، لپ سٹک، جیولری وغیرہ وغیرہ۔بلاول کی دوکان دیکھتے ہی دیکھتے چمک اُٹھی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ خواتین بلا کسی شرم اور جھجک کے بلاول سے بات چیت کر سکتی تھیں۔ وہ بلاول کو اپنے ہی جیسا سمجھتی تھیں۔ اُنہیں ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے خریداری کر رہی ہیں۔ بلاول کو بھی اس کاروبار میں مزہ آنے لگا تھا اب تو وہ صرف خواتین کو ڈیل کرتا تھا ۔ کیونکہ وہ مردوں سے شرم محسوس کرنے لگا تھا۔اب تواُس نے دوکان کے باہر جلی حروف میں لکھوا بھی دیا تھا "یہاں صرف لیڈیز ورائٹی دستیاب ہے " مردوں کو دوکان کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ دوکان کے باہر منچلوں کا کافی رش لگا رہتا تھا۔بلاول کاسمیٹکس کا دور دور تک چرچاہو چکا تھا۔ خواتین تو خریداری کے لیے آتی تھیں جبکہ منچلے بلاول کی دل فریب اداؤں سے دل کو بہلانے کے لیے منڈلاتے رہتے تھے۔

بلاول اب لڑکا نہیں بلکہ لڑکی بن چکا ہے۔ اُس کی گفتگو، اُس کی چال، اُس کا اُٹھنا بیٹھا سب کا سب بدل چکا ہے۔ اب وہ بلاول نہیں بلکہ بلو کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔ صرف بلو ہی نہیں اُس کے چاہنے والوں نے بلو کے ساتھ رانی کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اب اُس نے دوکان کا نام بھی "بلاول کاسمیٹکس" سے "بلو رانی کاسمیٹکس" لکھوا دیا ہے۔ اُس نے اپنے باپ کے سارے خواب پورے کر دیے ہیں جو اُس نے بیٹا پیدا ہونے پر دیکھے تھے۔کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ اب تو بلو رانی کے لیے بڑے بڑے گھروں سے رشتے بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اُس کے باپ کا بلو رانی کی شادی کرنے کا ابھی تک کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی کمائی کھا رہا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اُس کا باپ ہے اور جانتا ہے کہ تبدیلی تو آئی ہے لیکن ابھی کچھ کسر باقی ہے۔کیونکہ یہ وہ بلو رانی نہیں ہے جس کی بات شیخ رشید صاحب کرتے ہیں۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.