توانائی بحران پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت

پاکستان بجلی اور توانائی کے شدید بحران سے دو چار ہے جس کی بنیادی وجہ توانائی کی ناکافی رسد اور بجلی کے درمیان اضافہ پذیر طلب کے درمیان میں بڑھتا ہوا فرق ہے۔ پاکستان میں بجلی کی طلب صنعتی دنیا کے مقابلے میں ابھی بھی نسبتاً کافی کم ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں بجلی کی طلب میں اضافے کا تخمینہ 7.6فی صد سالانہ ہے جس کا اندازہ 2001-2011ء کے دوران لگایا گیا تھا۔ اسی مدت کے دوران بجلی کی رسد میں صرف3.2فی صد سالانہ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں2011ء میں بجلی کی 7,700میگا واٹ کمی واقع ہوئی ہے۔ توانائی کی پیداوار کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کے بغیر 2029ء تک طلب و رسد میں متوقع فرق 17,000میگا واٹ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے اپنی پوری استعداد کے مطابق کام نہیں کر پا رہے کیونکہ ان کارخانوں کو چلانے کی خاطر درآمدی ایندھن کی خریداری کے لیے غیر ملکی کرنسی کی کمی آڑے آ رہی ہے۔ (85 فیصد تیل درآمد کیا جاتا ہے) بجلی کی کمی کے باعث گھنٹوں طویل لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ رہی ہے جس سے گھر یلو ، صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث ہونے والے نقصان کا تخمینہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تین سے چار فیصد بنتا ہے جس کی سالانہ مالیت 10 ارب ڈالر ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے اس صورتحال کے انتہائی منفی سماجی واقتصادی اثرات مرتب ہور ہے ہیں جن میں معاشی نمو اور بڑھوتری میں رکاوٹ، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ اور سماجی بے چینی شامل ہیں۔

اسی سنگین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے مختلف چھوٹے بڑے توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ پن بجلی کے علاوہ توانائی کے متبادل منصوبے بھی شروع کئے گئے ہیں۔پاکستان میں دوبارہ قابل استعمال توانائی اور پن بجلی کے ذریعے صاف توانائی حاصل کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں آبی ذرائع سے 46ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ہم اس استعداد کا صرف14 فیصد یعنی صرف 6400میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ آبی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے اکثر مواقع بالائی سندھ طاس کے علاقے میں موجو د ہیں۔ پن بجلی سے سستی اور زیادہ بہتر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ترقیاتی ادارہ برائے پانی و بجلی کے پروگرام’’ویژن 2025ء‘‘ میں بہت سے منصوبے شامل ہیں تاہم داسو ہائیڈرومنصوبے کو اس پروگرام میں ترجیح کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق وزارت پانی و بجلی نے معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کی حکمت عملی کے تحت داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کی انتظامی کمیٹی نے 486 ارب روپے کی لاگت کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کی منظوری دے چکی ہے اور وزیر اعظم میاں نوازشریف اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کرچکے ہیں۔ اس منصوبے سے بجلی کی طلب و رسد میں فرق میں کمی لانے میں یقینا کافی مدد ملے گی۔

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 4320 میگاواٹ کی پیداوار کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کی تکمیل دومرحلوں میں کی جائے گی۔ ہر مرحلے کی 2160 میگاواٹ پیداواری استعداد ہو گی۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کی تعمیر، اراضی کا حصول، دفاتر، کالونیوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پیشگی سرگرمیاں شروع کی جاچکی ہیں۔داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پانی کے ذریعے بجلی کی پیدا وار کو کم قیمت اور زیادہ فائدہ مند، آلودگی سے توانائی کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔ یہ منصوبہ پاکستان کے شمال میں صوبہ خیبر پختونخواہ ، بالائی وادی سندھ میں ضلع کوہستان کے دور افتادہ پہاڑی خطے میں واقع ہے۔ اس جگہ پر دریائے سندھ کے بہاوپر ایک گہری اور تنگ وادی سطح سمندر سے (اوسط) 750-800میٹر بلندی پر واقع ہے جو 2,000سے4,000میٹر اوسط بلندی پر زیریں، ہمالیہ پہاڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پیوست ہے۔ پراجیکٹ کے علاقے تک شاہراہ قراقرم کے ذریعے رسائی حاصل کی جاتی ہے جو (350کلو میٹر کے فاصلے پر) اسلام آباد اور پاکستان کے شمال اور چین (کاشغر) کے درمیان واحد رابطہ سڑک ہے۔ ویژن2025ء پروگرام کے تحت دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بہا و کی مخالف سمت میں تقریباً 74کلو میٹر اور ایک ترقیاتی ڈھانچے دیا میر بھاشا ڈیم کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ داسو ہائیڈرومنصوبے میں دریائے سندھ پر 242میٹر بلند کنکریٹ ڈیم کی تعمیر شامل ہے۔ اصل ڈھانچے کے پیچھے73کلومیٹر طویل ذخیرہ ہو گا( جس کی مکمل فراہمی کی سطح ہو گی جو سطح سمندر (اوسط) 950کلو میٹر بلند ہو گی) جس کی اوسط چوڑائی 365میٹر اور جس کی کل سطحی رقبہ تقریباً 24مربع کلو میٹر ہو گا۔ ڈیم میں ذخیرہ کیا گیا پانی 12ٹربائینز جن میں سے ہر ایک 350میگاواٹ بجلی پیدا کرے گی پرمشتمل زیر زمین پاور ہاو س کے لیے حسب ضرورت پانی کے ذخیرے کا اہتمام کرے گا۔

بہرحال بجلی کی قلت پاکستان ناقابل تلافی نقصان پہنچاچکی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا تاہم وزیراعظم نوازشریف توانائی کے بحران پر قابوپانے کے لئے پرعزم ہیں۔ اب کی بار ملکی معیشت اس ضمن میں ’’وعدوں‘‘کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اس بحران پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے ، جن کے نتائج بھی برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ نندی پورپراجیکٹ شروع کیا گیا، اوچ پاور منصوبے کا افتتاح ہوا، اسی طرح داسو ہائیڈروپراجیکٹ پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ چین کے تعاون سے 10,400میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے 14منصوبے منظور ہوچکے ہیں۔ حکومت ’نیوکلیئر ویژن 2050ء‘ کی بنیاد رکھنے میں بھی پرعزم ہے۔ جس کے تحت 2050ء تک جوہری توانائی کے ذریعے 40,000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کا تصور پیش کیا جائے گا۔ توانائی کے بحران پر مختلف ذریعوں سے قابو پانے کے لیے کوئلے اور ہوا سے بجلی کی پیداوار اور مائع قدرتی گیس کی درآمد کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔جن کی تکمیل سے یقینا توانائی کے بحران پر قابو پانے اور ملک کو خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔ تاہم یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم ان منصوبوں کی براہ راست مانیٹرنگ بھی کریں تاکہ ان منصوبوں کی تکمیل بروقت موثر طریقے سے ممکن بنائی جاسکے۔ جس طرح حکومت نے پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو بہت بڑا ریلیف دیا ہے۔ اسی طرح اس ضمن میں توجہ اور ترجیح مزید عوامی ریلیف کا سبب بنے گی۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67726 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.