آخر کب تک

کوٹ رادھا کشن کا واقعہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کتنی بے دردی کے ساتھ انسانی جانوں کی تضحیک کی گئی۔ حد ہو گئی آخر کب تک۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اب تو آئے دن ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اور زیادہ تر الزامات کے علاوہ کچھ بھی نہین ہوتا اور کئی واقعات میں الزامات کی وجہ بھی کوئی ذاتی رنجش ہوتی ھے۔ اس واقعہ میں بھی ابھی تک کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔ فرض کریں کوئی ایسا واقعہ ہو بھی جائے تو قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہ تو اسلام میں موجود ہے اور نہ ہی ملکی قانون میں۔ اب تو اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سفارشات دی ہیں کہ اس قانوں دا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
اسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور ہم کتنی ڈٹھائی سے انسانوں کا قتل کر رہے ہیں ۔ ایسے غیر انسانی اور واحشیانہ اعمال کی اسلام میں قطا‘ کوئی گنجائش نہ ہے۔ اور معصوم زہنوں پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سبق کنندہ کرنے والوں کا اسلام اور انسانیت سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔ہمیں جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینا چاہیے اور نہ تو ایسے کسی جرم کا مرتکب ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسے مجرموں کو داد یا ہلاشابہ کرنا چاہیے۔۔

ایسے واقعات میں تفتیشی ٹیمیں بنا دینا اور گرفتاریاں ڈال دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ کوئی ایسی عبرتناک مثال بھی بننی چاہیے تاکہ آئندہ مستقبل میں ایسا عمل کرنے کی کو ئی جرات نہ کرے۔ اور حکومت کو اس حساس مسئلہ پر قومی سطح پر کانفرنس بلانی چاہیے جس میں تما مکاتب فکر کے لوگ ہوں اور کوئی ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ ایسے واقعات کا مکمل قلعہ قمہ ہو جائے۔ اور کوئی باقاعدہ حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اگر قانون میں تبدیلی یا نئی دفعات کی ضرورت سامنے آتی ہے تو جلد از جلد عمل میں لانا چاہیے۔ یہ کوئی عام مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانی جانوں ،حقوق اور تحریم کا ہے۔انسانی حقوق کا احترام ، حفاظت اور پاسداری حکومت کی اولیں ترجیح ہوتی ہے اور اسی میں پائیدار امن اور مضبوط معیشت کا راز پنہاں ہے۔ معاشرہ ظلم کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے مگر نا انصافی کے ساتھ قطعا‘ نہیں۔

معاشرتی تبدیلیوں میں تعلیم و ترنیت اور ماحول کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اور یہ تبدیلیاں اچانک کبھی نہیں آیا کرتیں اس کے لیے دہائیوں پر محیط کوششیں کار فرما ہوتی ہیں اور مہزب قومیں اپنی موجودہ اور آنے والی تسلوں کے لیے بڑی فکر مند ہوتی ہیں اور دیرپا اور پائدار مثبت تبدیلیوں کے لئے ہمیشہ اور مسلسل کوشاں رہتی ہیں۔ ہماری سوچوں کا ہمارے اعمال پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور سوچوں کی تبدیلی کے لئے پہت ہی ہکساں ، مربوط، ، ہم آنگھ اور مساوی بنیادوں پر تعلیمی نظام ہونا چاہیے۔ جس میں اختلاف رائے کا حق تو موجود ہونا ہے مگر انتہا پسندی اورتفرکات بازی کی قطا‘‘ گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ وسائل کی موجودگی کی بنیاد پر تو طبقات جنم لے سکتے ہیں مگر بنیادی حقوق اور ضروریات میں تو تمام شہری برابر ہیں۔

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114574 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More