سر درد اور سکون

تعلیم کے حوالے سے جب بھی کوئی پیش رفت ہوتی ہے ایک استاد کی حیثیت سے مجھے اس کی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ تازہ خبر کہ ریلوے کے حکام بھی اب تعلیم کے درپے ہیں پڑھ کر مسرت ہوئی۔ ریلوے کا تعلیم کا نظام بہت پرانا ہے۔ انگریز نے اپنے زمانے میں اس کی ابتدا کی تھی۔ کبھی ریلوے سٹیشن شر سے تھوڑا ہٹ کر ہوتا تھا اور ریلوے کی وسیع اور عریض کالونیاں سٹیشن سے بھی ہٹ کر۔ ریلوے کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کے بچوں کی پڑھائی کے لئے ان کالونیوں کے آس پاس ریلوے حکام سکول بنا دیتے تھے کہ ملازمین اور ملحقہ علاقوں کے بچے ان سکولوں سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ اس وقت ملک بھر میں ریلوے چار کالجز اور ۱۶ سکولز چلا رہی ہے۔ ان سکولوں میں ریلوے ملازمین کے بچوں کے علاوہ ملحقہ علاقوں کے رہائشی لوگوں کے بچے بھی کثیر تعداد میں علم حاصل کر رہے ہیں۔ ریلوے ملازمین کو یہاں خصوصی سہولت یہ ہے کہ ریلوے کے گریڈ اسے لے کر گریڈ ۱۰ تک کے ملازمین کے بچے بالکل مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بقیہ ملازمین کو بھی کچھ نہ کچھ رعایت حاصل ہوتی ہے۔ ملحقہ آبادیوں کے لوگوں کو قریبی سکول کا مل جانا بھی بہت ہے۔ البتہ ان سے پوری فیس لی جاتی ہے مگر یہ فیس بھی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ ریلوے کے یہ سکول کبھی بہت معیاری ہوتے تھے۔ اب بھی بہتر ہیں۔ ریلوے جس حد تک زوال پذیر ہے اس سے تو یہ سکول بدرجہا بہتر ہیں۔ برادرم ڈاکٹر فرحان عبادت ان سکولوں کے بحیثیت ڈائریکٹر انچارج ہیں۔ فرحان عبادت اور میں کئی سال اکٹھے رہے مجھے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہے۔ یقیناان کی کاوشوں سے یہ سکول مزید بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ریلوے حکام نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے کہ کالجز اور سکولز کے علاوہ اب یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس حوالے سے دی گئی تجویز کو منظور کر کے اس پر باقاعدہ ہوم ورک شروع کر دیا گیا ہے۔ ہوم ورک مکمل ہونے اور طریقہ کار کے طے ہونے پر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے رابطہ کیا جائے گا اور وفاقی حکومت سے بھی چارٹر لیا جائے گا۔ ریلوے کے ڈائریکٹر ایجوکیشن فرحان عبادت کویہ ٹاسک دے دیا گیا ہے اور انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق جو ریلوے کے وزیر ہیں نے بھی اس تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ ریلوے یونیورسٹی کے لئے درکار جگہ کی خاطر والٹن اکیڈمی سمیت بہت سی جگہوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ذمہ داروں کا خیال ہے کہ چونکہ والٹن اکیڈمی میں پہلے ہی الیکٹرک، مکینیکل اور سول انجینئرنگ کے لئے سہولتیں موجود ہیں لیبارٹریاں بھی بنی ہوئی ہیں اس لئے یہاں انجینئرنگ کالج کا قیام ہینگ اور پھٹکری لگے بغیر آسانی سے عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ باقی رہا میڈیکل کالج تو ماشاء اﷲ ڈائریکٹر شعبہ تعلیم پاکستان ریلوے ڈاکٹر فرحان عبادت بہت سمجھدار آدمی ہیں۔ ویسے ڈاکٹریٹ انہوں نے انگریزی کے مضمون میں کی ہے اورچونکہ آج ساری طب انگریزی میں ہے۔ اس لئے طب کو سمجھنے میں انہیں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ دوسرا وہ ڈاکٹر ہیں چاہے P.hD ڈاکٹر ہیں مگر موجود حکمرانوں کو پی ایچ دی اور ایم بی بی ایس کا فرق کون سا پتہ ہے۔ امید ہے میرے بھائی فرحان عبادت (معذرت کے ساتھ) موجودہ حکمرانوں کے لئے انتہائی مستند حکیم حاذق کا کام کر جائیں گے۔

خواجہ سعد رفیق کا مستقبل بھی روشن ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کی ڈگمگاتی کشتی سنبھل گئی تو وہ یقینا مستقبل کی اس زبردست یونیورسٹی کے چانسلر ہوں گے اور اگر خدانخواستہ یہ کشتی ڈوب گئی تو پھر بھی وہ اپنے اس کارنامے کے سبب ایک ماہر تعلیم کوکہلا سکیں گے۔ 1947؁ء سے اب تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ہر وہ شخص جو اپنے شعبے میں ناکام ہو جاتا ہے اور عملاً فارغ ہو جاتا ہے وہ تمام سکولوں کی چھوٹی چھوٹی تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کرتا اور تعلیم کے بارے میں اپنے ارشاداتِ عالیہ سے قوم کو مستفید کرتا رہتا ہے حکومت اور عام لوگ اسی کو ماہر تعلیم مانتے اور جانتے ہیں جبکہ کسی استاد کو کسی نے کبھی ماہر تعلیم تسلیم ہی نہیں کیا۔ خواجہ سعد رفیق چونکہ ریلوے چلانے میں ناکام ہیں اس لئے حسب روایت ماہر تعلیم کے طور پر اب تعلیم ان کا شکار ہو گی۔

میرے علاقے میں ایک صاحب تھے۔ پڑھے لکھے کم تھے۔ اپنے گھر کے نیچے انہوں نے ایک تنور لگایا اور نان روٹی کی دکان کھول لی۔ بہت سے تجربات کے باوجود ان کی دکان چل نہ سکی۔ بیوی میٹرک پاس تھی۔ گھر کے خراب حالات کے پیش نظر اس نے گھر میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ چند دنوں میں بیگم کا کام بہت چل پڑا۔ میاں نے صورتحال دیکھی تو اپنا تنور بند کر دیا اور گھر میں باقاعدہ سکول کھول لیا۔ اب اس سکول کی دو تین برانچیں ہیں۔ میاں پرنسپل ہے اور بیوی ہیڈ مسٹرس۔ جو شخص نانبائی کے طور پر ناکام ہوا اب ماہر تعلیم کے طور پر انتہائی کامیاب ہے۔

ایک اور صاحب کو میں جانتا ہوں۔ ویگن چلاتے تھے اور کہتے تھے کہ میری چار ویگنیں ہیں۔ ایک خود چلاتا ہوں کہ یوں باقی ملازم ڈرائیوروں پر نظر رہتی ہے۔ اگر میں خود نہ چلاؤں تو کچھ کما کر نہیں دیتے۔ ایک عرصے بعد محکمہ تعلیم کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ بھائی آپ یہاں کیسے؟ کہنے لگے ویگنوں کا کام تو میں نے عرصہ ہوا چھوڑ دیا ہے۔ روز ایکسیڈنٹ، روز چالان، سر درد کام تھا۔ پھر عزت بھی کوئی نہیں تھی۔ آپ جیسے کسی دوست کے ساتھ سکول بنا لیا۔۔۔ اب علیحدہ علیحدہ ہو گئے ہیں۔ میں اپنا سکول سسٹم چلا رہا ہوں اور وہ اپنا۔۔۔ مگر آپ تو بہت کم پڑھے لکھے ہو۔۔۔ چھ سال ہو گئے سکول چلاتے۔ پڑھنا لکھنا آ گیا ہے۔ ویسے بھی سکول چلانے کے لئے تعلیم سے زیادہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔آپ جیسے کئی دوست مشورہ بھی دیتے ہیں اور میرے پاس ملازم بھی ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے بڑے سکون میں ہوں۔ خواجہ سعد رفیق کو مبارک ہو۔ وزارت کی سر درد سے جان چھوٹ جائے گی تو یقینا ماہر تعلیم بن جائیں گے اور بڑے سکون سے ہوں گے اور سکون سے بہتر تو کوئی چیز نہیں۔

سنا ہے حکومت مختلف سکیموں میں موجود تعلیمی درسگاہوں کے لئے موجود پلاٹس مفت دے رہی ہے۔ یہ پلاٹس کون لوگ حاصل کریں گے؟ شاید تعلیم سے تعلق رکھنے والے لوگ تو ان میں نہیں ہوں گے۔ صرف وہی ہوں گے جو سر درد کی وجہ سے اپنے شعبے میں صفر کارکردگی دکھا کر فارغ تھے اور اب سکون کی تلاش میں ماہر تعلیم ہو گئے ہیں۔ مگر کیا ہو سکتا ہے اس لئے کہ تعلیم کے لئے ہماری حکومت کے یہی معیار ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442749 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More