لڑکی والوں سے جہیز میں اگر کفن بھی مانگ لیتے تو اچھا ہوتا!

جہیز ہندوستانی معاشرے میں عموماََ اور اسلامی معاشرے میں خصوصاََ ایک ناسور بن گیا ہے جو ایٹمی ہتھیار سے زیادہ خطرناک ثابت ہونا جارہا ہے۔جہیز کی اس لعنت کی وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں۔اس منحوس جہیز کی لعنت سے ہندوستانی معاشرے میں ہر روز اخبارات کی رونق ِ زار بن کر یہ سرخیاں چھپتی ہیں کہ فلاں شوہر نے اپنے سسرال والوں سے گاڑی نہ ملنے پر اپنی نئی نویلی دلہن کو جلادیا،فلاں شخص نے مزید جہیز کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر دل برداشتہ ہوکر اپنی بیوی کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔فلاں سنگدل ساس نے اپنی بہو پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی یا کسی ظالم نے اپنی معصوم بہو کے کھانے میں زہر ملادیا وغیرہ وغیرہ۔

اخبارات کی یہ سرخیاں ابھی غیر قوموں ہی تک محدود تھیں۔لیکن رفتہ رفتہ ان منحوس سرخیوں نے ہمارے اسلامی معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔آج جہیز میں مانگا جارہا ہے سوئی سے لیکر سونے تک فریج سے لیکر گاڑی تک ،رہنے کے لئے گھر،ہر چیز مانگی جاہی ہے تو بے ساختہ یہ کہنا پڑتاہے کہ’’لڑکے والے لڑکی والوں سے جہیز میں اگر کفن اور قبر کی جگہ کا بھی انتظام کرنے کے لئے کہتے تو اچھا ہوتا۔اس لئے کہ آج کفن دفن کے لئے بھی کافی روپیہ خرچ ہورہا ہے۔کیوں کہ مرنے والا بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔اپنوں سے کافی روپیہ خرچ کروا کرہی جاتا ہے۔ آخری سفر کا خرچ بھی لڑکی والوں کے ذمہ کردیا کردیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا؟
جہیز کے لئے قتل ہوجانے والی دلہن کے شاعر والدنے یہ شعر بیٹی کے جنازے کے دوران کہا تھا:
اب آیا یاد اے یارانِ جاں اِس نامرادی میں٭کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم سامانِ شادی میں

ارے جہیز کے بھیکاریو!ذرا دیکھو ہمارے حضور ﷺ کی پیاری اور چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کا عقدِ مسنون کس انداز سے ہو تاہے کہ جسم پر جو چادر ہے اس میں سولہ پیوند لگے ہوئے ہیں اور بنت ِرسول ﷺ ہونے کے باوجود پیادہ پا شیر خدا حیدر کرار ؓ کے گھر کی جانب روانہ ہو رہی ہیں۔جہیز میں ایک بستر ایک چکی اور ایک تکیہ دو مٹکے پر مشتمل مختصر سامان علی ابن ابی طالب ؓ کو پیش کیا جارہا ہے۔نوجوان بھائیوں کو خاص طور پر یہ بات ثابت کرکے دکھانا ہے کہ ہم محسن ِ انسانیت ﷺ کے سچے امتی ہیں۔شادی کے سنت طریقہ کو ہی عام کریں گے۔نوجوانوں کو سوچنا چاہئے کہ یہ دولت تو فنا ہونے والی شئے ہے۔ان کے اعمال صالحہ ہی عاقبت میں ان کے کام آئیں گے۔ معصوم بچیوں کے غریب والدین اس گلاب کے پھول کو سجانے کے لئے نہ معلوم کیسی کیسی مصیبتیں جھیلتے ہیں۔انہیں اس دلدل سے چھٹکارا دلانے کا عہد کریں۔ہمیں انسانیت کے ناطے یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ہم اس طرح جہیز کا مطالبہ کرتے رہیں گے تو ہمارا ضمیر ہمیشہ کے لئے بکتا رہے گا۔لعنت ہے ایسے مردوں پر جو یہ بھی نہیں سوچتے کہ خود ان کی بھی بہنیں ہیں۔کل ان کی بھی بیٹیاں ہوں گی،وہ اپنی لڑکیوں کو بیاہتے وقت سماج کے اس بگڑے ہوئے ماحول میں کیا کھڑے رہ سکیں گے؟جہیز کی لعنت نے ہمارے معاشرے میں اس قدر شدت سے اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں کہ اس خبیث لعنت کے خلاف پوری شدومدکے ساتھ تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔اور اس تحریک میں نوجوان طبقہ کو اپنا پورا پورا تعاون دینا ہوگا۔خطیب صاحبان سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ہر جمعہ دس یا پندرہ منٹ اس لعنت کے خاتمہ کی ترغیب کے لیے وقت ضرور نکالیں۔جہیز گھوڑے جوڑے کی رقم نہ لینے کی تاکید کرتے رہیں۔انشاء اﷲ تعالیٰ ملت اسلامیہ کو اس لعنت سے چھٹکارا مل سکے گا۔
آؤ لالچوں کو ماردیں اور نکاح آساں کریں:لڑکے لڑکی والے یہ عہد یک زباں کریں
اِس سے قبل کہ پگڑیاں پیروں میں آگریں:بیکار میں ہی دونوں پھر آہ و فغاں کریں
چھوڑیں جہیز و مہر کی لمبی کہانیاں: اسلام جیسا کہتا ہے ایسے شادیاں کریں
Syed Muhammad Irfan Shah Muniri
About the Author: Syed Muhammad Irfan Shah Muniri Read More Articles by Syed Muhammad Irfan Shah Muniri: 26 Articles with 30557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.