مشعلِ راہ

مفکر اسلام اے پی استاد آج کل ریاست کرناٹک میں پیغامِ انسانیت کی مہم چلا رہے ہیں اور ہر جگہ وہ مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ مسلمان اپنے وجود کو بحال رکھنے کیلئے اتحاد قائم کریں ساتھ ہی ساتھ تعلیمی میدان میں آگے آئیں اورمسلمان اپنے تعلیمی اداروں کو قائم کریں۔یہ بات صد فیصد صحیح اور ہے صد فیصد عمل کرنے کیلئے لائق ہے۔اے پی ابوبکر مصلیار واقعی میں مسلمانوں کو پسماندگی سے عروج کی طرف لے جانے کا کام کررہے ہیں،ان کوششوں کو نا صرف سراہانہ چاہیے بلکہ اپنے اپنے طریقے سے اس کا م کو انجام دینا چاہیے۔ابوبکر مصلیار کے خطاب کو سننے کے بعد سرسیداحمد خان کی تحریک ذہن میں آجاتی ہے کے کس طرح سے سر سیداحمد خان نے اپنے قوم کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کیلئے اعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام کیا تھا اور اعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نہ صرف علی گڑھ تک محدود کرنا چاہتا تھے بلکہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی اس جامع کی شاخوں کو قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی سے ابھارنا چاہتے ہیں ،حالا نکہ ان کی سوچ شر مندہِ تعبیر نہ ہوسکی لیکن آج بھی قوم میں ابوبکر مصلیار جیسے لوگ ان کی خواب کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ابوبکر مصلیار نہ تو خاندانی رائس تھے اور نہ ہی ان کے پاس قارون کا خزانہ موجود ہے لیکن وہ اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ مرکزالثقافتہ السُنیہ مرکز کا قیام کرتے ہوئے25؍ہزار سے زائد نوجوانوں کی زندگی سنوارنے کی ذمہ داری اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے اپنے ماتحت چل رہے تعلیمی اداروں میں صرف قرآن و حدیث کی تعلیم کو عام نہیں کیا ہے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہاں کے طلباء کو سائنس،ٹیکنالوجی،پبلک سرویس کمیشن اور تجارت میں مہارت حاصل کرنے والی نسل تیار کی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء آج دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ اس ادارے کے تئیں اس قدر مخلص ہیں کہ ہر حال میں اپنے مدرسے کی ترقی کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔آج علی گڑھ یونیورسٹی علی گڑھ میں ہے تومرکزالثقافتہ السُنیہ کیرلامیں علم و فن کے چراغ روشن کررہا ہے۔ہمیں ہماری آبادی اور ضرورت کے مطابق یہ دو ادارے کافی نہیں ہے بلکہ ہر ضلع اور ہر گاؤں میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جو مسلم طلباء کو دنیا وآخرت میں کامیاب کراسکیں۔ہمارے یہاں آج عصری تعلیم کے نام پر بے انتہا تعلیمی ادارے ہیں لیکن ان تعلیمی اداروں میں جس معیار کی تعلیم دی جارہی ہے وہ معیار ی نہیں بلکہ کمائی کی تعلیم ہے اور دینی مدارس میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس سے آخرت کا سامان تو تیار ہورہا ہے لیکن دنیا میں علمائے کرام زکوٰۃ و چندوں کے محتاج ہورہے ہیں۔جب تک ہم اپنی سوچ کو وسیع نہیں کرتے اس وقت تک ہم دوسری قوموں کے مقابلے میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔تعلیمی میدان میں آگے آنے کیلئے ہمیں حکومتوں کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں جو وسائل ہمارے پاس موجود ہیں انہیں ہی استعمال کرتے ہوئے ہم اپنے مستقبل کو روشن کرسکتے ہیں ،لیکن اس کیلئے مخلص ہونے کی ضرورت ہے،اسی طرح قوم کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قوم کے تعلیمی اداروں کی بہبودی کیلئے آگے آئیں یعنی قوم چندہ دینے کو ہی اپنا فریضہ نہ سمجھیں بلکہ اخلاقی اور عملی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے قابل اعتبار نہیں ہیں اور یہاں کی تعلیم غیروں کے اداروں سے بہتر نہیں ہیں۔اس وجہ سے دوسروں کے تعلیمی اداروں کو اہمیت دی جارہی ہے۔درحقیقت ہمارے تعلیمی ادارو کو کمزور بنانے کے ذمہ دار ہم خود ہیں اگر ہم ان اداروں کا مکمل تعاون کریں اور یہاں کے ذمہ داروں پر یہ بوجھ ڈالا جائے کہ ہم نے ہمارے بچے کو آپ کے حوالے کردیا ہے اور آپ اس کی تربیت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے اسے نبھائیں تو یقینا نتائج مثبت ہونگے۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.