غالب ، تصوف اور پاکستان

یہ مسائل تصوف یہ تِرا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
شاید عصرِ غالبؔ ناکہ دورِ بہادر شاہ ظفر میں کہیں بھی اور کسی بھی قسم کے مسائل نہ تھے ۔ہر طرف مصائب و مشکلات سے پاک اور کرپشن فری ماحول تھا۔ لوگ اخلاقی و عملی سطح پر ترقی یافتہ تھے ۔مطلب ۔۔۔۔۔ اعلیٰ اقدار کے حامل تھے غمِ روز گار تھا اور نہ ہی فرقہ واریت کا عفریت……! بنی نوع انساں کے مابین دشمنیان ہوتیں(یہ اور بات کہ سرحدیں اور مذاہب انسانوں کے درمیان خونریزی اور قتل و غارت کا پیش خیمہ ہیں جو ایک عالمگیر اور آفاقی سچ ہے) ذاتی مفادات کے باعث قتل حقوق العباد کا تصور ہی نہ تھا اسی لئے مرزا اسد اﷲ خاں غالب نے ’’مسائل تصوف‘‘ بیان کئے ’’ ولی‘‘ کے درجہ کے لئے محض بادہ خواری کو سد ِراہ قرار دیا۔ مگر فی زمانہ ’’مسائل تصوف‘‘ تو دور کی بات حق (اﷲ) کی بات کرنا بھی چنداں مشکل ہوگیا ہے ٹھیکیداروں نے بنی نو ع انساں کو جتھوں کی شکل میں تقسیم کررکھا ہے اس غیر فطری اور غیر ضروری تقسیم و ترتیب کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟جواب صاف ظاہر ہے کہ ذاتی دکانداری کا فروغ……جس کے تحت مقصود حیات ناجائز عزائم کی تکمیل ہے ان غریب انسانوں کے جتھوں کہ جنہیں عوام کہا جاتا ہے کو قربان کر کے لیڈری اور سربراہی کے درجے پر پہنچا جاتا ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی دیکھا گیا ہے کہ معیاری سیاست کہیں نظر آئی ہو؟ ہر جگہ جہاں بھی دیکھو ایسی سیاست کاری بکھری پڑی ہے کہ جو غلاظت بھرے ڈھیر کی طرح فضا متعفن کررہی ہے کہیں بھی اصول سیاست کاری رائج ہیں اور نہ ہی یہ اصول راہبری اخلاقیات میں لاگو ہیں ہر سیاست دان اس عظیم پیشہ سیاست کو آڑ بنا کر ایک طرح سے منافع بخش کاروبار کر رہا ہے ہر الیکشن میں کروڑوں اربوں روپے بلکہ ان گنت دولت خرچ کی جاتی ہے ووٹ خریدے جاتے ہیں(جو سراسر غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل ہے) قرآن مجید پر حلف لئے جاتے ہیں قسمیں لی جاتی ہیں کہ ووٹ حاصل کئے جائیں اس سے بڑھ کریہ کہ سیاسی دباؤ اور اثر و رسوخ کا آلہ بھی استعمال کیا جاتا ہے یہ مناظر بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ ووٹ کے حصول کے لئے عوام کو بذریعہ پولیس بھی ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے ان تمام ہتھکنڈوں کے اغراض کیا ہیں؟ یہی کہ بے پناہ منافع حاصل کیاجائے اس سرمایہ کاری سے بظاہر جو انتخابات میں کی جاتی ہے ایسے میں کیا ایسے سیاسی نظام سے مثبت نتائج کی امید کی جاسکتی ہے؟ یعنی جو نظام دکانداروں کے ذریعے متعارف ہو۔ وہ صارف(عوام) کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ؟ میرے خیال میں جواب منفی میں ہوگا۔ اس طرح کی انارکی کی فضاء اور اخلاقی انحطاط کے پیش نظر غالب کے مقامِ’’تصوف‘‘ پر فائز ہونا پاکستان کے عوام کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ یہاں گناہ کاری کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ عوامی فلاح اور کارِ خیر کو خسارے کا سودا قرار دیا جاتا ہے جہاں عمل نیک اور فلاح عقبیٰ کی فکر اور تحفظ حقوق العباد کی خواہش کو گھٹیا تصور کیاجاتا ہو۔ تو کیا وہاں اہلِ تصوف کا جینا ممکن ہوگا۔؟ اس تناظر میں ہماری سوچ کی پسماندگی کا اندازہ لگانا سہل ترین ہے۔

بھارت، پاکستان کا روایتی حریف ہے۔ اس کی طرف سے حارحیت کوئی نیاکام نہیں ہے افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوستی کا تصور بھی ناممکن سا لگ رہا ہے۔ ان ہمسایہ ممالک کی سرحدی جھڑپوں کی صورت میں کشیدگی اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتی رہتی ہے اب تو ایران نے بھی پیر ِ ہندوستاں کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کے سرحدی علاقے کا تقدس پامال کرنا شروع کر دیا ہے حتیٰ کہ اب تو ایرانی سرحدی محافظوں کے نزدیک پاکستانی عوام اور فورسز کی جان کی کوئی وقعت نہیں رہی اور پاکستانی سرزمین کا تقدس بھی ان کی نظر میں اہمیت کا حامل نہیں رہا ایرانی فورسز جب چاہیں کئی کئی کلو میٹرز تک پاکستان میں گھس کر قتل و غارت کررہی ہیں ۔ ایران تو وہ ملک ہے جسے انقلاب اسلامی کے بعد شاید پاکستان نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا تھا(یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر پاکستان کو بھی ایران نے سب سے پہلے سرکاری سطح پر تسلیم کیاتھا) روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تمام مغربی ممالک ایران کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی پوزیشن میں تھے اور ایران پر باضابطہ طور پر کارروائیوں کے عزائم بھی تھے وہ کون سا ہمسایہ ملک تھا جس نے اخلاقی اور فنی حوالے سے ایران کا ساتھ دیا ؟ یہاں تک کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی توسیع میں بھی پاکستان کا تعاون شامل نہ ہوتا تو کب کے مغربی ممالک ایران کو صفحہ ہستی سے مٹا چکے ہوتے( راقم نے متعدد بار ایران کی پالیسیوں کی تعریف و توصیف کی موجودہ حالات کے تناظر میں دل کرتا ہے کہ ایران کے بارے اپنے نظریات و موقف تبدیل کر لوں لیکن وقت اور حالات کا بغور تجزیہ ضروری ہے) دہشت گرد گروہ اور غیر ملکی عناصر کی حرکات پر اگر ایرانی فورسز پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی شروع کر دیں تو یہ یقیناً میرٹ سے انحراف ہو گا جیسا کہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تنگ نظری سے نکل کر اگر دیکھا جائے تو ریاست(ملک) اپنے عوام کے لئے ’’ماں‘‘ کا کردار ادا کرتی ہے۔’’ماں‘‘ کی گود بچے کو سکون امن اور تحفظ فراہم کرتی ہے اسی لئے تو ’’ماں کے قدموں تلے جنت‘‘ قرار دی گئی ہے ماں کی نافرمان اور گستاخ اولاد کو نامراد کہا جاتا ہے جبکہ ’’ماں‘‘ کی فرماں بردار اولاد کو باادب اور بانصیب گردانا جاتا ہے ریاست کا تحفظ ہر شہری کا بنیادی اور اخلاقی فرض ہے فطرت نے بھی یہی اصول وضع کئے ہیں کہ ماں دھرتی کا احترام فرض اولین ہے اور اس اصول کی ایک ہم شق یہ بھی ہے کہ ماں دھرتی کی سلامتی کو اپنی جان(زندگی) سے قیمتی تصور کیاجائے۔ اس فریضہ کی ادائیگی زمیں زاد یعنی دھرتی کا حلالی فرزند ہی کرسکتا ہے اغیار کے قبضہ نے زمیں زادوں کے حقوق تلف کر دیئے ہیں زمین کے وسائل لوٹ رہے ہیں یہ قبضہ گیر۔ اس لئے تو روز بروز احساس محرومی بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ردِ عمل کے طور پر اگر سرائیکی اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں تو سرائیکیوں کو لسانی تعصب کے فقرے اور طعنے سننے کو ملتے ہیں گزشتہ دنوں آٹھ مزدور پیشہ سرائیکیوں کو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ذرائع بتاتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسند اور قوم پرستوں نے ان سرائیکیوں کو ’’پنجابی‘‘ قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس ضمن میں بلوچ قوم پرستوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی ہرگز پنجابی نہیں ہیں۔ سرائیکیوں کو پنجابی کہنا میرے نزدیک غلیظ گالی ہے کیونکہ اس طرح بلوچستان میں سرائیکیوں کو بے دردی کے ساتھ ہلاک و شہید کیا جارہا ہے جو ایک قبیح اور ملامت خیز عمل ہے یہ عمل بلوچوں کی تحاریک پر منفی اثرات چھوڑ سکتا ہے نہتے مزدوروں پر قاتلانہ حملے اور ان کا قتل عالمی طاقتوں کے سامنے بلوچوں کو مشکوک ٹھہرا سکتا ہے اور ان کی جدو جہد (خواہ کسی نہج پر بھی جاری ہو) پر انگلی اٹھ سکتی ہے سرائیکی ثقافت کے حامل زمیں زاد تو خود قبضہ گیروں کے شکنجوں میں ہیں انہیں ان اسباب وعلل کے باعث کہ سرائیکی ثقافت رکھنے والے غیرت مند اور مظلوم لوگ بلوچوں کے حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے اور ظلم و بربریت ہے ……ہاں! یہ کہنا کہ سرائیکی بولنے والے صدر اور وزرائے اعظم نے بلوچستان کے زخموں کا مداوا نہیں کیا بلوچوں کی کم فہمی ہے یہ عناصر سرائیکی صدر و وزرائے اعظم پنجابی افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ کے الہ ٔ کار اور ریموٹ کنٹرول کے طور پر اقتدار میں آتے ہیں انہیں یہ ادراک ہرگز نہیں ہوتا کہ سرائیکیت اور عالمی سطح پر(اقوام متحدہ کے قوانین و ضوابط کے مطابق) مادری زبان(ماں بولی) اور ثقافت کی کیا اہمیت ہے۔؟ یعنی وہ لوگ جو گنہگار سیاسی نظام کے ساجھے دار ہیں’’ماں‘‘ کی عزت و توقیر کیا جانیں۔ ؟مزدور سرائیکیوں کا کیا جرم تھا کہ جس کی پاداش میں انہیں شہید کیا گیا۔ کیا اس سوال کا جواب حمیت و توقیر سے عاری وزیر اعلیٰ بلوچستان جو نام نہاد قوم پرست ہے اور آئی جی بلوچستان دینا پسند کریں گے۔؟ یا قاتلوں کو صیغہ راز میں رکھیں گے؟ میں تو حیران و پریشان ہوں کہ آخر سرائیکیوں کے قتل میں بلوچ کیوں ملوث ہیں؟ کہیں اس معاملے میں پنجابیوں کی عیاری اورمنافقت کا عمل دخل تو نہیں کہ سرائیکیوں اور بلوچوں کو باہم لڑادیا جائے۔ جہاں فریقین ِ متحارب کی توانائی اور وسائل خرچ ہو جائیں اس تناظر میں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے وقت کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔

اندازہ لگائے کہ ہر طرف سے افسوسناک خبریں گردش کرتی ہوئی سماعتوں سے آ ٹکراتی ہیں ایسے میں خیال میں غالب کا سا تصوف کہاں سے در آئے یا تخلیق ہو سکے ۔ بادِ سموم کے دوزخی جھکڑ کب اطمینان بخش حیات کا سامان کرنے دیتے ہیں؟ اپنے اندر کی کیفیت کا اظہار ایک شعر کی صورت میں اپنے قارئین کے لئے پیش ہے۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 46766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.